1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. نہر کنارے

نہر کنارے

موجوں کی روانی تھی یا کسی کمسن الہڑ حسینہ کی چال، بہتے پانی کی ہلکی ہلکی آواز تھی یا دوشیزاؤں کی پائل کی جھنکار جو مجھے مست کیے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ سردیوں کی یہ گھنیری شام اور اس کی یاد، پانی میں کھڑی اس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ میرے بچپن کی دوست، میری سہیلی سمرا، جو اسی نہر کنارے مجھے ملا کرتی تھی۔ جس نے کہا تھا، جب سب ختم ہو جائے تو اسی نہر پر دوبارہ اکٹھے ہوں گے: موت کے بعد بھی تم مجھے اسی نہر کنارے کھڑی پاؤ گی۔

ماضی کی حسین یادیں مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ بچپن جوانی کی بہاریں مجھے واپس بلا رہی تھیں۔ میں ریت کنارے چلتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ پانی خوشی خوشی میرے پاؤں سے بغل گیر ہوتا اور پھر دکھ بھرے انداز میں جدا ہو کر واپس لوٹ جاتا۔

سال ہا سال بیت گئے، کل کی بات ہی لگتی تھی جب سمرا اور میں جوانی کی پیڑھی پر قدم رکھ رہے تھے۔ روزانہ شام اس نہر کنارے ملتے۔ سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں میں درختوں کی چھاؤں تلے یہیں پلے بڑھے۔ والدین کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے، ہم ادھر بھاگ آتے۔

آج میرے پاؤں ریت میں دھنسے جا رہے تھے اور پانی غل مچاتا میری پنڈلیوں کو چھو رہا تھا۔ نہر کے اس کنارے پر پانی کی روانی کچھ ٹھہری ہوئی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں ہم گہرے پانی سے نکل کر لیٹ جایا کرتے تھے۔ بھل کی سوندھی سوندھی خوشبو آج بھی وہی تھی۔ نہر بھی کیا عجیب چیز ہے۔ ہر جگہ سے ایک جیسی گہری لیکن وقت اور پانی کا دھارا کسی نہ کسی کنارے کو کھانے لگتا ہے اور کسی دوسری جگہ ریت اور بھل اٹھا کر باہر پھینکتا جاتا ہے۔ نہر کا یہ رویہ بالکل میرے اور اس کے پیار جیسا تھا۔ گہرا پیار جسے عمر کی دھارا ریت کنارے لے آئی تھی۔

جوانی کی گھٹائیں اس پر ٹوٹ کے برسیں۔ اس کا بدن حیرت کی سرا، جھال سے گرتے پر شور پانی میں چھلانگ لگاتی تو اسے چھو کر دنگ رہ جاتا۔ اس کے ایکشن بھی غیر متوقع ہوتے، پل میں تولہ پل میں ماشہ، کبھی ہواؤں میں اڑنے والی اور کبھی پانی کی گہرائیوں سے سیپی ڈھونڈ لانے والی۔ پل بھر کا سکون حرام تھا۔

ایک دن وہ اپنے بھائی کا سگریٹ چرا لائی۔ کہنے لگی، پکا ہے، سوٹا لگاؤ گی؟

پہلی بار کش لیا تو میں بھی اس کے ساتھ ہواؤں میں اڑنے لگی۔ پورا دن نہر میں نہاتے اور ریت میں کھیلتے رہے۔ سگریٹ کا نشہ اور پیار کا نشہ، شام کا سہانا وقت اور خوشگوار ہوا کے جھونکے، دل فریب سماں اور نہر کنارے کی بہار کیفیت فردوس بریں کو رشک کا داغ دے رہی تھی۔ بھیگی بھیگی ریت میں اٹی سمرا اس دن بہت پیاری لگ رہی تھی، حسن کامل کا مجسمہ۔ موٹے موٹے گلابی ہونٹ، چاندی چمکتی پیشانی، تیکھا ناک، گلاب کو شرمانے والے عارض قیامت ڈھاتے تھے۔

آنکھیں گل نرگس کو شرمندہ کر رہی تھیں۔ جوانی کا عالم ستم ڈھاتا تھا۔ سرو قد کھڑی سمرا کے گیسووں سے ڈھلکتے پانی کے قطرے نہر میں آگ لگا رہے تھے۔ لمبی لمبی کالی سیاہ زلفوں میں ریت کے ذرات موتیوں کی طرح دمک رہے تھے۔ سورج کی کیا مجال کہ حور شمائل سمرا کے حسن کی تاب لا سکے سو درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ اس دن جدا ہوتے وقت پہلی بار میرا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

ایمان! ہم یہ دوستی ہمیشہ نبھائیں گے۔ مرنے کے بعد بھی میں تمہیں اسی ریتلے کنارے پر ملوں گی۔ وعدہ کرو ملنے آؤ گی۔۔

***

یہ لڑکی ایک مصیبت ہے۔ میری ماں اس کی حرکتیں دیکھ کر ڈر جاتی۔ میرا جواب ہوتا، وہ مصیبت ہے مسئلہ نہیں۔۔

بہت سے لڑکوں کے لیے مصیبت تھی۔ ان کے ساتھ گھل مل جاتی، ٹھٹھا مذاق کرتی پھر جھڑک دیتی۔ ایک دن نمبردار کا لڑکا اس کے لیے پکی سگریٹ لایا۔ بہت خوش ہوئی۔ کش لیتے دھوئیں کے مرغولے بنا کر اس کے منہ پر پھینکتی رہی۔ سگریٹ کب کا ختم ہو چکا تھا اور لڑکا ابھی بھی پاس بیٹھا تھا۔ میری سڑن محسوس کرکے اسے دھتکار دیا، سگریٹ اک تے ٹھرک سارے دن دا، چل بھونڈا دفع ہو۔

ماں اس کے خلاف تھی اور پسند بھی بہت کرتی تھی۔ ہمیشہ کہتی، تمہیں دیکھ کر مجھے اپنی جوانی کا ہپی کلچر یاد آتا ہے۔ ہرے کرشنا تحریک بھیگی بھیگی راتوں میں دیوانوں کا مستی میں جھومنا یا، دم مارو دم کانوں میں سر بجانے لگتا ہے۔ یہ وہ لڑکی ہے جو مست رہ کر اپنے اندر کے مطالبات کو خود سے چھپانے کا بہانہ کرتی ہے۔ اس کی پیشانی چاند کو آب آب کرتی ہے اور موٹی آنکھیں آہوان دشت کو لیکن اس کا حال دل جاننا چاہو تو آنکھیں ملانے کی بجائے چوکڑیاں بھرتی ہرن ہو جاتی ہے۔

ہائی سکول کے آخری دو سال میری اور اس کی دوستی مزید بڑھ گئی۔ ماں کو پکا یقین تھا کہ ہم دونوں چرس پیتے ہیں۔ اس کا باپ نشئی تھا اور بھائی بھی۔ سارا خاندان شمالی علاقے سے ادھر آیا تھا۔ میری امی اسی وجہ سے ان سے خوفزدہ رہتی۔ شاید یہی سمرا کی شخصیت کا منفی پہلو تھا جسے وہ سب سے چھپاتی، خود اپنے سے بھی۔ وہ کھیل کود اور ہنسی مذاق میں اپنے اندر کی کشمکش کو دبا لیتی۔ کئی بار میں نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اٹھا کر اس کشمکش کے بارے میں جاننا چاہا تو وہ بات کو گھما دیتی، ایمان، تم مجھے اس دنیا میں سب سے پیاری ہو۔ تمہارا پیار مجھے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ یہ کہ کر چرس کا سگریٹ سلگا کر میری ہونٹوں سے لگا دیتی۔ میں ایک دو کش لیتی لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے ایک دن چرس سپلائی کرنے والے لڑکے کی دھلائی کر دی اور سگریٹ پینے سے توبہ۔

ایمان! میرے دل میں تمہاری تصویر کھد چکی ہے اب اس کا مٹنا محال ہے۔ ہم جگری یار ہیں۔ ہماری روحیں اکٹھی زمیں پر آئیں۔ ہم دوست ہیں اور بعد میں بھی دوست رہیں گے، جب ہم غائب ہو چکے ہوں گے اور صرف ہماری روحیں باقی رہیں گے۔

اتنی گہری دوستی کے باوجود کبھی کبھی بالکل انجان لگتی تھی۔ یونیورسٹی پہنچے تو لڑکپن کی کلیلیں اور شرارتیں بھی کم ہوگئیں۔ گم سم بیٹھی ہوتی تو میں وجہ پوچھ لیتی۔ "ایمان میں ایک دھوکا ہوں، میں وہ نہیں جو دکھائی دیتی ہوں۔ تمہارا وہم ہے کہ میں بہت خوش ہوں۔

پھر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی اور بولی، سب فکر و غم بھلا کر چلو مزے اڑائیں۔۔

کس چیز کے؟

دیکھو شام کا سہانا سورج کیا کہہ رہا ہے؟

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنے لگی، آئی ایم ان لو ودھ اے بوائے آف مائی کلاس۔۔

وہ اس لڑکے کے ساتھ ڈیٹنگ کرنے لگی تو پھر بھی میرا پیار حاوی تھا۔

عرصہ ہوا وہ بچھڑ گئی تھی۔ لڑکیوں کا ساتھ کب ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ باپ چرس سمگلنگ میں پکڑا گیا تو وہ شہر چھوڑ گئے لیکن جب بھی آتی ہم اسی نہر کنارے اکٹھے ہوتے۔ اسی ریت پر لیٹتے۔ پانی میں کھیلتے۔

***

ریت میرے پاؤں کے نیچے سے پھسل رہی تھی۔ میں آنکھیں بند کیے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ پانی گھٹنوں تک پہنچ چکا تھا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی جو اب پر سکون تھا۔ یادیں بھیس بدل بدل کر سامنے آ رہی تھیں۔ ماضی کی یادیں تھیں یا وہ آج بھی میرے ساتھ تھی؟ کانوں میں اس کی آواز رس گھول رہی تھی یا سمعی دھوکا؟ وہ آنکھوں کے سامنے تھی یا بصری دھوکا؟ جان و دل، ہوش و خرد سب ششدر تھے۔ آخری بار رخصت ہوتے وقت اس نے کہا تھا، ایمان! جب بھی موقع ملا میں یہاں ضرور پہنچوں گی۔۔

اس وعدہ کو ساری عمر نبھایا تھا۔ شادی کے بعد آئی۔ بچے کو اسی نہر میں تیرنا سکھایا۔ طلاق کے بعد اسی ریت پر میرے زانو پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

آج بھی وعدے کے عین مطابق وہ یہاں موجود تھی، مرنے کے بعد بھی میں تمہیں اسی ریتلے کنارے پر ملوں گی۔۔

میں نے سر جھٹک کر ادھر ادھر دیکھا۔ وہ گہرے پانی میں کھڑی تھی دونوں ہاتھ پھیلائے مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ موٹی موٹی مخمور آنکھیں، بھیگا بھیگا گدرایا بدن، پوجا کے صندل کی طرح کا چمکدار، کہر سے نکلے چیت کے چاند جیسا منزہ و مطہر، روحانی پاکیزگی کا حامل۔ آج بھی وہ جوان تھی سال ہا سال کے بعد، شادی، بچے، طلاق کے بعد بھی: ڈپریشن، ذہنی خلفشار، بڑھاپا اور موت کے بعد بھی، وہ جوان تھی۔

وہ بھاگتے ہوئے آئی اور امربیل کی طرح مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے چھوتے ہی میری جسم میں بھی جوانی واپس آ گئی۔ ہاتھ، چہرے اور جسم کی جھریاں تن کر مٹ گئیں۔ کمزور جسم طاقتور ہوگیا۔

ہم دونوں نے نہر میں ڈبکی لگا دی۔

ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔