کالی گھٹاؤں، کالی زلفوں اور کالے گلاب سے تو سب آشنا ہیں۔ مگر آج ہم آپ کو متعارف کرواتے ہیں کالے چاولوں سے، جی ہاں کالے چاول۔ Black rice۔ قدیم زمانے سے اہل چین کے ہاں کالے چاولوں کی کاشت کی جاتی رہی۔ جانے کیسے چین کے شاہی خاندان کے لوگ ان کالے چاولوں کی غذائی خوبیوں سے واقف ہوئے کہ انہوں نے اس کی کاشت اور استعمال کو صرف شاہی خاندان تک محدود کردیا۔ اسی وجہ سے انہیں ممنوعہ چاول forbidden rice بھی کہا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل جب جدید سائنس نے مختلف اجناس کے غذائی اجزاء کا ازسرنو جائزہ لینا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ کالے چاولوں میں اینٹی آکسیڈنٹس اور فائٹو کیمکلز کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ بلکہ سب سے زیادہ کارآمد اینٹی آکسیڈنٹ اور نیوٹراسیوٹیکل کیمیائی مرکب اینتھوسائیانین کی سب سے زیادہ مقدار کالے چاولوں میں پائی جاتی ہے۔
اینتھوسائیانین بنیادی طور پر پھلوں میں پایا جانے والی گہرا جامنی رنگ ہوتا ہے جسے پھلوں سے سادہ کیمیائی عمل سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ مرکب ہے جس کا مستقل استعمال دائمی امراض کے خاتمے کے لئے بیحد مفید ہے۔ حتی کہ بہت سے اقسام کے کینسر کے خلیے بھی اینتھوسائیانین کے استعمال سے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے پوری دنیا میں اینتھوسائیانین کی مانگ اور قیمت فروخت بہت زیادہ ہے۔
کالے چاولوں میں اس جامنی اینتھوسائیانین کی اس قدر زیادہ مقدار ہوتی ہے کہ وہ کالے نظر آتے ہیں۔ جب کہ پکنے کے بعد یہ گہرے جامنی ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس زبردست دریافت کے بعد دنیا بھر میں کالے چاولوں کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خطے میں چین کے بعد سب سے پہلے تھائی لینڈ میں اس کی کاشت شروع ہوئی۔ پھر فلپائن اور سال 2011 میں بھارت میں آسام میں ایک کسان نے اس کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس وقت سے اب تک بھارت میں آسام، اڑیسہ اور ارد گرد کے علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر سالانہ کالے چاولوں کی کاشت کی جا رہی ہے۔
سال 2017 میں بھارتی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں اس کی کاشت کا میابی سے کی گئی۔ یہاں اس کی فی ایکڑ پیداوار تیس سے پینتیس من حاصل کی گئی۔ عام چاول کی نسبت کالے چاول کی قیمت فروخت بہت زیادہ ہے۔ بھارت میں اس کی تھوک میں فروخت ساڑھے تین سو روپے بھارتی فی کلوگرام ہوتی ہے۔ یعنی پاکستانی آٹھ سو روپے فی کلو۔ اور اگر یہ کھاد اور کرم کش ادویات کے بغیر یعنی آرگینک طریقے سے اگایا گیا ہوتو اس کی قیمت فروخت پانچ سو روپے بھارتی یعنی ساڑھے گیارہ سو روپے پاکستانی فی کلوگرام ہوتی ہے۔
آسان الفاظ میں اگر عام طریقہ سے بھی اگایا جائے تو فی ایکڑ دس لاکھ روپے کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں جہاں کچھ علاقے چاول کی کاشت کے انتہائی موزوں ہیں عین ممکن ہے کہ اس کی فی ایکڑ پیداوار اور معیار اور بھی شاندارہو۔ جس کی قیمت عالمی منڈی میں اور بھی زیادہ ہو۔ ہم نہ صرف کالے چاول براہ راست فروخت کرسکتے ہیں بلکہ اس میں سے اینتھوسائیانین ایکسٹریکٹ کرکے بھی مہنگے داموں بیچ کر بہت سا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
بات پھر وہی ذرا سا غوروخوض کی عادت ہو، تھوڑا ترقی کا شوق اور آرزو ہو تو خوشحالی کے سینکڑوں راستے اور ہزاروں منزلیں ہماری منتظر ہیں۔