بچوں کے ڈائیپرز سے تو اب سبھی واقف ہیں۔۔ ان ڈائیپرز میں پانی جذب کرنے کے لیے ایک کیمیائی مرکب تھوڑی سی مقدار میں ڈالا ہوتا ہے جسے SAP یا Super absorbent polymer کہتے ہیں۔ کیمیائی طور پر یہ سوڈیم پولی اکریلیٹ sodium polyacrylate ہوتا ہے۔ یہ SAP بالکل چینی کی شکل کا سفید دانے دار کیمیائی مرکب ہوتا ہے جو اپنے وزن سے دو سو سے تین سو گنا پانی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گویا آسان لفظوں میں پانچ گرام یعنی ایک چمچ SAP ایک سے ڈیڑھ کلو پانی جذب کرکے اسے باندھ سکتا ہے۔ اس مرکب کی ایجاد قریب انیس سو ساٹھ میں ہوئی اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کا ڈائیپرز میں استعمال شروع ہوگیا۔
لیکن سائنس دان SAP جیسے اہم کیمیائی مرکب کی ایجاد اور اس کی اس قدر زیادہ پانی جذب کرنے کی اس زبردست صلاحیت کو بچوں کے ڈائیپرز جیسے نسبتاً کم اہم کام کی بجائے کسی بڑے کام کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ان کا دھیان کم بارشوں اور خشک علاقوں میں زراعت کو بہتر بنانے کی طرف گیا اور یقینی طور پر بہت مضبوط منطق تھی کہ اگر کسی پودے کی جڑوں کے آس پاس صرف ایک کلو SAP ڈال دیا جائے تو وہ بارش کے وقت ایک ڈرم سے زیادہ پانی چوس لے گا جو بعد میں کئی ہفتے یا شاید کئی ماہ پودے کے لیے دستیاب ہوگا۔ اسی طرح ایسے علاقوں میں جہاں آب پاشی کے لیے پانی کبھی کبھار دستیاب ہوتا ہے یا بجلی کبھی کبھار ملتی ہے SAP کا استعمال کامیاب زراعت کی ضمانت بن سکتا تھا۔
مگر اس کے استعمال میں ایک گھمبیر مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ اس کی موجودگی میں پودوں کی نشوونما یا تو بہت ہی کم ہوتی یا بالکل نہیں ہوتی۔ اب ریسرچ کا ہدف یہ تھا کہ کسی طور ایسا کیمیائی مرکب بنایا جائے جس میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت بھی SAP جیسی ہو اور یہ پودوں کی نشوونما کے لیے بھی سازگار ہو۔ بیس سال لگے۔۔ سال انیس سو اسی میں بالآخر سوڈیم پولی اکریلیٹ کی جگہ اس سے ملتا جلتا پوٹاشیم پولی اکریلیٹ بنایا گیا۔ یہ بہت ہی زبردست ایجاد ثابت ہوا۔
اس میں نہ صرف پانی جذب کرنے کی صلاحیت بھی SAP سے زیادہ ہے بلکہ اس میں موجود پوٹاشیم کی موجودگی میں پودوں کی نشوونما عام حالات سے بھی بہتر ہوتی ہے۔
پوٹاشیم پولی اکریلیٹ کو عرف عام میں solid rain یعنی کہ ٹھوس بارش بھی کہتے ہیں یہ سال دوہزار سے امریکہ، یورپ، اسرائیل، چین اور حتی کہ بھارت میں بھی زبردست کامیابی سے استعمال ہورہا ہے۔ بلکہ بھارت میں اس کے بنانے کے کارخانے بھی موجود ہیں۔ وہاں بھارتی تین سو روپے فی کلوگرام سے با آسانی دستیاب ہے۔ پاکستان میں ایسے بے شمار بارانی علاقے ہیں، جیسے شمالی پنجاب، چولستان، تھر اور بلوچستان کا بہت سا علاقہ جہاں سال میں چند بارشیں ہوتی ہیں وہاں اس کے استعمال سے انتہائی کامیابی سے زبردست کاشت کاری کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گھروں کے باغیچوں اور گملوں میں اگر تھوڑا تھوڑا ڈال دیا جائے تو نہ صرف روزانہ پانی دینے کی ذمہ داری سے آزادی نصیب ہوگی بلکہ ہفتہ عشرہ کے لیے تمام گھر والے بے فکر ہوکر ایک ساتھ سیاحت کے لئے بھی جاسکتے ہیں۔
رہی بات اس کی دستیابی کی تو سر دست تو درآمد ہی کرنا ہوگا لیکن اس کا بنانا بھی کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں۔ مختلف اقسام کے ریزن بنانے والے بہت سے کارخانے پاکستان میں موجود ہیں انہی پلانٹس پر اس کی پیداوار بھی کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ کہ جدید علم اور جدید ٹیکنالوجی ہر ہر میدان میں ہماری معاونت کے لیے اپنی تمام تر افادیت کے ساتھ تیار بیٹھی ہے بس ہم ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔