1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محسن خالد محسنؔ/
  4. جون ایلیا کی شاعری میں رومانی عناصر

جون ایلیا کی شاعری میں رومانی عناصر

جون ایلیا کی شاعری ان دنوں خاصی مقبول ہے۔ سوشل میڈیا پر جون ایلیا کی شاعری کا چرچا ہے۔ ٹِک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک وغیرہ پر ان کی وڈیوز وائرل رہتی ہیں۔ مشاعرہ پڑھنے کا انداز جون ایلیا کو آتا ہے۔ جن دنوں جون ایلیا متحدہ امارات اور اس سے متصل عرب ریاستوں میں مشاعرے پڑھ رہے تھے ان دونوں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جون ایلیا سوشل میڈیا کا "ٹرینڈنگ پویٹ" بن کر سامنے آےگا۔

جون ایلیا کے ہاں صرف مشاعرہ پڑھنے کی استعداد و مہارت موجود ہے یا پھر اس کےکلام میں فنی و فکری اُپچ بھی موجود ہے جو ایک شاعر کو تادیر باقی رہنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔

جون ایلیا بیسویں صدی کے اواخر میں تیزی سے اُبھرنے والا شاعر ہے جس کی وضع قطع اور سج دھج ان کے ہمعصر سے مختلف تھی۔ جون نے زندگی کے جملہ آلام و مصائب سے نبردآزمائی کو اپنی زندگی کا حاصلِ حیات سمجھا۔ جون کے ہاں اُداسی، یاسیت، قنوطیت اور ابنارملٹی کی میراث تھی جسے انھوں نے ایک نارمل انسان کی طرح اپنے ذہن و خیال اور جسم وبدن پر کمال ہوشیاری سے اختیار کیے رکھا تھا۔ یہ شخص جب کہتا ہے کہ میری طبیعت میں اُداسی، بے کلی، بے یقینی اور ملامت کا عنصر شدید تر پایا جاتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے ہر طرح کا آزار و آلام جی بھر کر ستائے تاکہ میں زندگی کے مکروہ چہرے سے حیات کی از سرنو نمودگی حاصل کروں۔

جون ایلیا کے ہاں حیات کے جملہ رنگ ملتے ہیں۔ اس شاعر کے ہاں کسی بھی خیال کو لے کر سطحیت اور بے مشقتی نہیں پائی جاتی۔ جون نے محبت اور رومان کو اپنی زندگی کا ثمرہ قرار دیا ہے۔ جون کے ہاں محبت اور رومان کوئی معمولی، سطحی اور ہیجانی جذبہ نہیں ہے بلکہ کائنات کے اسَرارو رموز کو جاننے اور اس کے بارے میں قطیعت سے جمالیاتی نکتہ نظر پیش کرنے کابیانیہ تراشنے کا موثر ترین اظہارِ ذریعہ ہے۔

جون کے ہاں زندگی کی المناکیوں کے ساتھ زندگی کی ہنس مکھ پرچھایاں بھی ملتی ہیں۔ جون نے زندگی کو خوبصورت منظر کی طرح تراشا ہے جس میں خوشی و انبساط کا ہر لمحہ محبوب کی یاد میں بے کل انتظار کی شدت سے جھلسنے کے بعد دیدارِیار کی خواہش میں اٹکھیلیاں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ساری دُنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

مجھے اب تم سےڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہوگئی ہے

محبت ہوجانے سے ڈر لگنے کا تصور، اتنا سچا، نرمل، کومل اور گداز ہوتا ہے کہ اس کی تاثیر میں روح سمیت پوری شخصیت معطر ہو جاتی ہے۔ جون ایلیا نے زندگی کو ایک حسین خواب کی صورت دیکھا، اس خواب کی تعبیر نے انھیں زندگی کی خوشیوں سے مستقل محروم کر دیا۔ ہر انسان چاہتا ہےکہ وہ جسے چاہے، اُسے ہر ممکن طریق سے حاصل کر لے، جون نے بھی جسے چاہا، جس کے لیے خود ہر طرح کے مسائل و اوہام میں مبتلا کیا، وہ شخص بیچ رستے جدا ہو کر اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے سفر پر اکیلا چل پڑا۔

جون اس صدمے کو کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ کہتے ہیں محبت میں بھیک مانگنے کی نوبت آجائے تو پاؤں پکڑ لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن محبت کی اصالت تبھی پاؤں پکڑ نے پر مجبور کرتی ہے جب دوسری طرف سے حقارت کی بجائے اپنانیت کا جذبہ کارفرما ہو۔ محبت اور رومان کا سنگم جون کی زندگی کے تلخ تجربوں سے اس کی شاعری میں کشید ہوا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے ایک شخص محبت کے لیے تڑپتا رہے اور دوسرا بے مرورتی کے اتنہائی بلند مقام پر متمکن نرگسیت کے مرض میں مبتلا ہو۔

علاج یہ کہ ہے مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سُنی میں نے

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

اور تو کیا ہے بیچنے کے لیے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

آنکھوں کے خواب بیچنے والا شخص محبت کے جذبے کو رومانی انداز میں کس معیار پر دیکھتا ہے۔ یہ مشاہدے سے زیادہ تجرباتی واردات کا معاملہ ہے۔ عجب ستم ہے کہ مرنے والا زندہ رہنے کی خواہش میں غرق ہوتا ہے جبکہ جیے جانے کی نحوست سے ماورا، ہوجانے کی خواہش مزید زیست کے در، وا کرتی ہے۔

انسان جائے تو کہاں کہ نہ محبت میں امان ملتی ہے اور نہ رومان کے سنگم سے رشتہ اُستوار کرنےکی اجازت نصیب ہوتی ہے۔ انسان کے اختیار میں چاہت کی گمنام وادی میں پافگار آوارگی لکھی ہے تو بسم اللہ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ پاؤں فگار کر لینے والی کی آوارگی کا حاصلِ سفر رائیگانی کے سواکچھ بھی نہیں۔

سوچتا ہوں کہ اُس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

یاد اُسے انتہائی کرتے ہیں
سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں

کوئی کسی کو اتنا کیسے یاد کر سکتا ہے کہ خود سے بیگانہ ہو جائے۔ انسان محبت کا مارا ہوا ضرور ہے لیکن محبت کے حصول میں جان سے گزرجانے کا حوصلہ کم رکھتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر خود سے گزر جانے کی خواہش ہر انسا ن میں ہوتی ہے لیکن اس خواہش کی تکمیل کو انجام تک لانے والے خوبصورت موڑ دے کر کہانی کو پلٹ دینا بہتر گردانتے ہیں۔

یہ کہانی جون ایلیا تک آتی ہے اور خوبصورت موڑ کے تراشنے کو محبت کی ناکامی کا جواز فراہم نہیں کرتی۔ رومانی فضا کی معمور شاعرانہ کائنات کو یوں بے رنگ کرنا جون کو گوارا نہیں تھا، اسی لیے جون نے خود کو تباہ کرکے ملال نہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے

جرم میں کم کنی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے

جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سارا سرو ساماں جلاتے جائیے

محبوب کی دید میں رخسار پر طمانچے کھا کر رخساروں کو لالی سے معمور کرنے والا شاعر محبت و رومان کی فضا میں پل بھر ٹھہر نہ سکا۔ محبت ساتھ نباھنا چاہتی ہو تو عاشق دُنیا جہان سے لڑ جاتا ہے اور ہر چیز کو مثلِ خس و خاشاک جانتا ہے لیکن وہی شخص جو راستے کا پتھر بن کر منزل کی طرف بڑھتے قدموں کو روک لے تو انسان کیا کر سکتا ہے۔

جون کی شخصیت، شاعری، مزاج، اطوار اور شاعرانہ آہنگ اس بات کا اظہار ہے کہ جون نے زندگی کو خوبصورت اور دل نشین پیرائے میں زیست کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے نرمل اور کومل جذبات تھے جو تسکین کی لذت سے یکسر محروم کیے گئے۔ اس کی آنکھوں میں محبت و رومان کی ندی بہتی بہتی اچانک سوکھ گئی۔ اس کی شخصیت میں ایسے آلام و عوارض نے جنم لیا جس نے اس کی شخصیت کو داغدر کر ڈالا۔ ایک بھولا بھالا، معصوم، نرمل اور کومل حساس شاعر کی زندگی اسیرانِ ہجراں ہو کر رہ گئی۔

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

یہ بہت غم کی بات ہو شائد
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں

جون ایلیا کے ہاں زندگی کا خوبصورت بیانیہ اس کی اپنی ذات کے طلسم کدے سے مقیش دکھائی دیتا ہے جون ایک پڑھا لکھا اور ذی فہم انسان تھا جس نے اپنے زمانے کے جملہ تصوراتِ انسانی کے بارےمیں نہ صرف پڑھ رکھا تھا بلکہ دُنیا بھر کے علوم و فنون کے بارے میں گہری معلومات بھی رکھتا تھا۔ شاعر ہونے کے ساتھ اس کے اندر ایک فلسفی بھی موجود تھا جو حکمت کے جملہ اسَرار سے بہرہ مند تھا۔

جون نے اداکاری کی، تھیٹر کیا، نقال بنا، تماشائی بنا اور اداکاری کے جوہر بھی رکھائے۔ جون کے ہاں متنوع پرچھائیو ں کا ایک انبوہ تھا جو باہم مدغم ہو کر اس کی ذات میں ور ق ورق بکھر گیا تھا۔ اجتماعیت کے اس ضدین میں کسی ایک رخ، کیفیت، فکر، مزاجی عنصر اور روئیے کو جون کی شاعری اور شخصیت کا نمائندہ قرار دینا درست نہیں ہے۔ جون کے ہاں جونیت کا ایک جہان آباد ہے جو ان کے اشعار میں براہ راست محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ہر شخص سے بے نیاز ہو جا
پھر سب سے یہ کہہ کہ میں خدا ہوں

اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لے لی

رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا

جون ایلیا کی شخصیت اور شاعری پر بہت کم کام ہوا ہے۔ جون کی طبیعت میں لا اُبالی پن موجود ہے۔ جون مشاعرہ پڑھتے ہوئے بہک جاتا ہے۔ جون کے ہاں محض تماش بینی ہے، جون کے ہاں لذتیت کا غلبہ ہے۔ جون کے ہاں خودنمائی اور خودستائی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جون، دوسرے اور تیسرے درجے کا شاعر ہے۔ جون سوشل میڈیا کی وجہ سے سامنے آرہا ہے۔ جون کے ہاں کوئی کام کی چیز نہیں ہے۔ جون کی شاعری ٹین ایج کے جذبات کی شاعری ہے۔ جون کے ہاں کلاسیکی رنگ کا آہنگ نہیں ملتا۔ جون کے ہاں الفاظ گری کی متنوع صورتیں ناپید ہیں۔ جون کے ہاں شاعری محض انجوائے منٹ اور تلذذ گری کا شاخسانہ ہے۔

اس قبیل کے دسیوں الزامات جون ایلیا کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے جون پر لگائے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الزام لگانے اور قد گھٹانے والے جون ایلیا کی شاعری کی اصالت سے واقف ہی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ بیٹھ کر آرام سے کسی ایک شاعر کا شعری مجموعہ پڑھ سکے اور پڑھ کر سمجھ سکے۔ دو، چار منٹ میں کسی ایک شخص کے بارےمیں کچھ پڑھ کر رائے قائم کرنا خود اپنی ذہنی استعداد پر سوالات اُٹھانے کے مترادف ہے۔

جون ایلیا کی شاعری میں محبت و رومان سے لے کر حیات و کائنات اور ماورائے جہان کی روداد ملتی ہے۔ جون ایلیا اکیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر ہے جس کے ہاں اکیسویں صدی کے ربع اول سے ربع چہارم تک کے جملہ معاملات و اوہام کے بارے میں آراءملتی ہیں۔ جون ایلیا کی شاعری کی گرہوں کو، وا، کرنے کے لیے مشاق نقاد کی ضرورت ہے جس کے شب و روش مطالعے اور ریاضت سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ جون ایلیا سوشل میڈیا کا شاعر نہیں ہے بلکہ اکیسویں صدی کا نمائندہ ترین شاعر ہے اور نمائندہ شاعر ہونے میں تشہیر کے ذرایع کی بجائے اس کی فکر اور شاعرانہ اُسلوب کا منفرد اظہاریہ ہے۔

یہ وار کر گیا ہے پہلو سےکون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا

فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے

داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں

محسن خالد محسنؔ

Mohsin Khalid Mohsin

محسن خالد محسن ؔ شاعر، ادیب، محقق، نقاد اور اُستاد ہیں۔ ان کے تین شعری مجموعے "کچھ کہنا ہے"، دُھند میں لپٹی شام"، آبِ رواں" شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی غزل میں تلمیحات کے موضوع پر ناردرن یونی ورسٹی نوشہرہ پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کے تیس سے زائد تحقیقی مقالات ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے مصدقہ رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے معروف ادبی رسائل وجرائد میں ان کے متفرق موضوعات پر مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں۔ ادب، سماج، معاشرت، سیاست و حالاتِ پر ببانگِ دُہل اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔