قابل خرگوشوی کہتے ہیں، مردوں کودو کان اس لیے عطا ہوئے کہ ایک سے سن کر دوسرے سے نکال دیں، جبکہ مایوس دقیانوسی کا تجزیہ ہے کہ عورتوں کو اس لیے کہ دونوں سے سن کر منہ سے نکالا کریں۔ آزاد روشن خیالوی کا ماننا ہے کہ کان اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے دیگر تعلقات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو پائے۔
کان تو آپ جانتے ہیں کہ اس چھاج نما آلے کو کہتے ہیں جو لوگوں کی برائیاں سننے ماسک اور عینک لگانے کے کام آتا ہے۔ بزرگ البتہ بتاتے ہیں کہ کبھی یہ اچھی باتیں سننے اور قلم ٹانگنے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ کچھ لوگوں کے کان اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان پر کپڑے سکھانے کو جی چاہتا ہے۔ اور کچھ لوگوں کے اتنے چھوٹے جیسے کسی بدعنوان سیاستدان نے اثاثے ظاہر کیے ہوں۔ کچھ لوگوں کے کان ایسے باہر کو نکلے ہوتے ہیں جیسے فٹبال کی پوری ٹیم گول روکنے کے لیے گول کے سامنے قوس بنائے کھڑی ہو، اور کچھ کان یوں گردن کے ساتھ لگے رہتے ہیں جیسے کسی غریب کو حالات نے دیوار کے ساتھ لگا رکھا ہو۔
تقریباً سبھی جانور کانوں سے سنتے ہیں۔ جو کان ہوتے ہوئے بھی سن نہیں پاتے انہیں ہم بہرے یا اعلیٰ حکام کہتے ہیں۔ اور جو صرف سن پاتے ہیں انہیں شوہر کہا جاتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ شریف شوہران اپنی بیگمات کے کان کو "سونے کی کان" بنانے کی سعی میں رہتے ہیں۔ اس کام کیلئے جڑاؤ زیورات پسندیدہ انتخاب ہیں۔ جبکہ ناشریف، اجڈ۔۔ زیرِ کان کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ بات بے بات جڑتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کان شوق سے کھاتے ہیں اور کچھ لوگ پان ? جبکہ اپنے بیشتر کراچی والوں میں دونوں خوبیاں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔
ہماری ایک دورکی جاننے والی خاتون ہیں، دور کی مطلب گوجرانوالہ کی مکین، بہت ذہین اور بے تحاشہ شخصیت کی مالک ہیں، نام تو ان کا ہے بیگم ساری چوہدری، مگر ان کے شوہر ان کے حجم اور وزن کی وجہ سے ان کی غیر موجودگی میں انہیں بیگم بہت ساری چوہدری کہتے ہیں، فرماتی ہیں کان اس لیے ہوتے ہیں کہ معدے کو کانوں تک بھرا جاسکے۔ حالانکہ قابل خرگوشوی نے باقاعدہ تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ معدہ کانوں تک نہیں بھرا جاسکتا کیونکہ منہ سے 'اوور فلو' شروع ہوجاتا ہے۔
بیگم ساری چوہدری کا ماننا ہے کہ شوہروں کو کان اس لیے ملے ہیں کہ بیگمات بوقت ضرورت انہیں اسی کے رشتہ داروں کے خلاف، خوب بھر سکیں، حالانکہ وہ خود ہر وقت اپنے شوہر کے کان کترتی ہوئی پائی گئیں ہیں۔ فریضہ کان بھرائی شاید وہ علیحدگی میں سر انجام دیتی ہوں گی۔
کان وہ واحد عضو ہے جو دیواروں کو بھی ملا ہے۔ شکر کرتے ہیں کہ کان ہی ملے سوچیں اگر ہاتھ ملے ہوتے تو جیسی ہماری حرکتیں ہیں اکثر کے کان لال ہی ہوتے۔ ہمارے مصلح زلف کہتے ہیں اگر کان نہ ہوتے تو وہ پالش کی ڈبیہ کا ڈھکن رکھ کر ہماری بالکل گول قلمیں بنایا کرتے۔ اب اگرچہ ان کی کج اُستریاں ہمارے کانوں نے ڈھانپ رکھی ہیں۔
عزیزان گرامی! اللہ کریم کے نزدیک کان آنکھوں، اور دل سے زیادہ اہم ہیں۔ کیونکہ جب بھی قرآن پاک میں نعمتوں کی تربیت بتائی جاتی ہے تو کان، آنکھیں اور دل کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ سب سے پہلے حرف ھدایت کان سنتے ہیں پھر ذہن اس پر غور کرتا ہے تب دل آمادہ خیر ہوتا ہے۔ سار ھدایت کا عمل کانوں سے شروع ہوتا ہے۔ کوشش کرنا چاہیے کہ کانوں کا سارا ارتکاز حرف ھدایت پر ہی رہے۔