1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. آئیں، حیرتوں کے جہان میں چلتے ہیں

آئیں، حیرتوں کے جہان میں چلتے ہیں

یقیناً آپ کا مشاہدہ رہا ہوگا کہ درختوں کے تنوں میں دائرے بنے ہوتے ہیں۔ ان دائروں کو tree rings یا grow rings کہتے ہیں۔ غور سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دائرے بالترتیب ہلکے اور گہرے رنگ کے ہوتے ہیں۔ ہلکے رنگ کا دائرہ بہار میں بننا شروع ہوتا اور چونکہ اس وقت درختوں میں افزائش کا عمل تیز ہوتا ہے تو اس کی چوڑائی زیادہ ہوتی ہے جبکہ گہرے رنگ کا دائرہ پت جھڑ اور سردیوں میں بنتا ہے جو نسبتاً کم چوڑا ہوتا ہے کیونکہ سردیوں اور پت جھڑ میں افزائش کم ہوتی ہے۔ یوں ایک ہلکا اور ایک گہرا دائرہ مل کر ایک سال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یوں کسی بھی درخت کے دائروں کی تعداد سے اس کی عمر کا درست علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اللہ کے بندے جب اللہ کریم کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو اللہُ کریم بھی پھر اپنے علم کے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ غور کرنے والوں نے جب ان دائروں پر مزید غور کیا تو پتہ چلا کہ ان کی موٹائی، رنگت اور کیمائی ہئیت سے نہ صرف درخت کی عمر کا پتہ چلایا جاسکتا ہے بلکہ اس وقت کے موسمی حالات، بارشوں کی مقدار، سیلاب یا خشک سالی، زمین کی کیفیت، درخت پر ہونے والے بیماریوں کے حملے اور فضائی آلودگی سمیت ایسے بہت سی دیگر اوامر کا بھی بالکل درست علم حاصل ہوتا ہے۔

اسی طرح آپ کے علم میں رہا ہوگا کہ زمین کی فضائی حدود میں زیادہ توانائی والی شعاؤں کی مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے۔ ان کو Cosmic rays کہتے ہیں۔ ان کاسمک شعاؤں میں زیادہ تر تیز رفتار نیوٹران اور پروٹان ہوتے ہیں۔ دوسری طرف فضا میں اٹھہتر فیصد مقدار نائٹروجن کی ہوتی ہے۔ نائٹروجن میں سات پروٹان، سات نیوٹران ہوتے ہیں اور اس کا ایٹمی وزن 14 ہوتا ہے۔ جب کاسمک شعاؤں میں موجود تیز رفتار نیوٹران نائٹروجن کے ایٹم سے ٹکراتے ہیں تو اس میں ایک پروٹان کو نکال کر اس کی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ یوں اس میں چھ پروٹان اور آٹھ نیوٹران ہوجاتے ہیں۔ اس طرح یہ ایٹم نائٹروجن کی بجائے کاربن بن جاتا ہے۔

مگر اس میں نیوٹران آٹھ ہوتے تو یہ عام کاربن نہیں بلکہ کاربن 14 بنتا ہے۔ کاربن 14 بنتے ہی ہوا میں موجود آکسیجن سے تعامل کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ 14 بنا دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے فضا میں تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ میں قریب ایک کھربواں حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ 14 کا ہوتا ہے۔

جب درخت فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر اس سے اپنی خوراک بناتے ہیں تو وہ یہ کاربن 14 والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ یوں درختوں میں بھی اسی تناسب سے یعنی ایک کھربواں حصہ کاربن 14 ہوتی ہے۔ لیکن اس کاربن 14 کی ایک خوبی ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک تابکار مادہ ہے اور پانچ ہزار سات سو تیس سال میں اس کی آدھی مقدار واپس نائٹروجن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسے سائنس کی زبان میں ہاف لائف کہتے ہیں۔ جب کسی پرانے درخت کی عمر کا تعین کرنا ہو تو اس میں کاربن 14 کی مقدار کی جانچ کی جاتی ہے اور عمومی مقدار سے جتنی کم مقدار پائی جاتی ہے پانچ ہزار سات سو کے تناسب سے اسکی عمر کا تعین کرلیا جاتا ہے۔ اس عمل کو کاربن ڈیٹنگ Carbon dating کہتے ہیں۔ کاربن ڈیٹنگ سے صرف درخت ہی نہیں بلکہ دیگر ایسی اشیاء جن میں کاربن موجود ہوتی ہے کی درست عمر کا تعین کیا جاتا ہے۔

درختوں کی کاربن ڈیٹنگ کی تحقیق کے دوران سال 2012 میں ایک جاپانی خاتون محقق میاکے Miyake نے ایک حیران کن دریافت کی۔ اس نے دیکھا کہ کسی درخت میں ایک خاص سال کے رنگ میں کاربن 14 کی مقدار عام مقدار سے بیس گنا زیادہ ہے۔ جب اس رنگ سے اس سال کا تعین کیا گیا تو وہ سال 774 - 775 نکلا۔ اس نے تحقیق کا دائرہ بڑھایا تو اس کے علاوہ بھی پرانے درختوں میں سال 774-775 کے رنگ میں کاربن 14 کی مقدار بیس گنا زیادہ ہی پائی گئی۔ تب دوسرے ممالک کے محققین کو شامل تحقیق کیا گیا تو پتہ چلا کہ جرمنی، نیوزی لینڈ، امریکہ غرض ساری دنیا میں ہی پرانے درختوں میں سال 774-775 میں کاربن 14 کی مقدار عام سالوں کی نسبت بیس گنا ہی پائی گئی۔ اس بات سے یہ نتیجہ اخد کیا گیا کہ اس سال زمین پر بیرونی دنیا سے کاسمک طوفان آیا۔ جس کی وجہ سے معمول سے بیس گنا کاربن 14 بنی اور درختوں نے اسی تناسب سے اسے جذب کیا۔ اس واقعہ کو میاکے کی دریافت کی وجہ سے Miyake event کا نام دیا گیا۔

درختوں کے تنوں پر تحقیق سے اب تک ایسے پانچ میاکے ایونٹس کی تصدیق کی جاچکی ہے جن میں سب سے پہلا اور سب سے شدت کا طوفان 14300 سال پہلے آیا تھا اور سب سے آخری نو سو ترانوے عیسوی میں۔ 774-775 عیسوی اور 993 عیسوی میں آنے والے شعاؤں کے طوفان کی شدت تقریباً برابر تھی جبکہ سب سے پہلے والے کی شدت ان دونوں کی مجموعی شدت کے برابر تھی۔ اب تک حاصل کی جانے والی معلومات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کہ چار سو سے دوہزار سال کے دوران ایک بار یہ طوفان ضرور آتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر اب یا آئندہ کبھی میاکے واقعہ پھر سے روپزیر ہوا تو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ فضا میں موجود تمام سیارے، موبائل فون کے انٹینے، جہازوں کے برقی آلات، بجلی کی ترسیل کا نظام اور دیگر الیکٹرانک آلات اگر مکمل طور پر تباہ نہ بھی ہوئے تو بری طرح متاثر ضرور ہوں گے۔۔

اور یاد رہے کہ یہ تمام تر بیش قدر معلومات صرف درختوں کی ساخت سے ملی ہیں۔ اب دیکھیں اللہ کریم قرآن کریم میں درختوں کی اس ادا کا کس قدر سادگی سے اظہار کررہے ہیں۔ اس قدر حیران کن علمی سلسلہ کا تعارف اتنا سادہ اور انداز اتنا عمومی کہ بنا عمیق نظری اور دقیق فہمی کے آپ اس کا ادراک ہی نہیں کرسکتے فرمایا (سورہ الواقعہ)

ءَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَآ أَمْ نَحْنُ ٱلْمُنشِـُٔونَ (72)

کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔

نَحْنُ جَعَلْنَـٰهَا تَذْكِرَةًۭ وَمَتَـٰعًۭا لِّلْمُقْوِينَ (73)

ہم نے اسے (درخت کو) یاددهانی اور متلاشی کے لیے (علم کا) خزانہ بنایا ہے۔