دھاگہ کپڑے کا باوا آدم ہے۔ انسان نے ابتدائی زمانے ہی سے کاٹنا اور کاتنا سیکھ لیا تھا۔ دھاگے ہی نے قسم قسم کے لباس کا رواج دیا۔ درزی اور عاشق کا فن دھاگے ہی سے وابستہ ہے۔ جبھی تو شاعر نے دھاگے کو یوں یاد رکھا۔۔
جذبہ عشق سلامت ہے تو انشاءاللہ
کچےدھاگے سے چلے آئیں گےسرکار بندھے
انٹرنیٹ کی دنیا میں بھی "دھاگے" (net) نے اپنی جگہ بنالی ہے۔ دھاگے نے سترپوشی کا سامان کیا اور سوئی کی ایجاد کا سبب بنا۔ دھاگہ جب موٹاپے کا شکار ہوا تو رسّی کہلایا۔ دھاگہ اور رشتہ الجھ جائے تو سلجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ آئینے میں بال آجائے یا دھاگے میں گٹھان پڑجائے تو اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔
بےجانوں میں سب سے جاندار جوڑی سوئی دھاگے کی ہے۔ نظر کی تیزی اور ہاتھ کا رعشہ جانچنا ہو تو سوئی کے ناکے میں دھاگہ ڈال کر دیکھئے۔ پولیس کے ناکے سے رشوت دےکر گزرا جاسکتا ہے مگر سوئی کے ناکے سے نہیں۔ سلائی مشینیں اور انسان رل جاتے ہیں اگر دھاگہ اور رشتہ کچا ہو۔ دھاگہ کبھی کبھی منہ کو بھی آجاتا ہے اگر آپ سیخ کباب کھارہے ہوں۔