کچھ نہ کچھ دیکھنے کی خواہش نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہر پرانی ہوئی جاتی شے کو یوں دیکھتا ہوں جیسے آنکھیں بجھنے کو ہوں۔ ویسے بھی بہت دنوں سے آنکھوں میں جالے سے لٹکے دیکھتا ہوں۔ لگتا ہے کوئی پردہ سا آنکھوں کو آہستہ آہستہ دیکھنے سے روکتا ہے۔ شام کا سرمئی رنگ، اندھیارے سا لگنے لگا ہے یا ہوسکتا ہے سردیوں کے دنوں کی شامیں ایسی ہی ہوتی ہوں۔ پچھلی بار کی سردیاں، میں بھول گیا جب وہ آئیں تھیں پھر دسمبر سے فروری تک ٹھہری تھیں لیکن سردیوں کی شامیں پلک جھپکتے دھندلا جاتی ہیں تو یاد نہیں رہا۔ انہی سردیوں کی ایک شام مجھے کس نے آواز دی تو باہر جھانکا تو اندھیارہ سا تھا اور جس نے آواز دی تھی کوئی پرانا دوست لگتا تھا جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا تھا لیکن وہ تو میرا نام پکارتا تھا۔
پکارنے سے یاد آیا بہت سی آوازیں مجھے پکارتی رہتی ہیں۔ گلی کے نکڑ پر جو ایک خود رو پودا اگا نظر آتا ہے، اسے جانے کیا کہنا تھا، ایک دن مجھ سے گویا ہوا۔ پتہ نہیں اس پودے کا کیا نبادیاتی نام ہے ہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ پھول ہیں جن کی کوئی خوشبو نہیں۔ بس وہ یونہی کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے اس وقت تیز دھوپ تھی اور وہ مجھے نظر آیا پھر میں نے آواز بھی سنی جو مجھ سے ہی مخاطب تھی۔ ایک شام ہوا نے مجھ سے کچھ کہا جب میں اکیلے باغ میں بیٹھا کچھ سوچتا تھا۔ کچھ عرصے سے زیادہ سوچنے لگا ہوں۔ اس بات کا ذکر میں نے بہت زیادہ دبلی نظر آتی لڑکی سے کیا تھا جو ڈاکٹر تھی لیکن اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا تھا پہلے تو لگا گونگی ہے پھر لگا بہت مصروف ہے کہ اس کے اردگرد بیمار لوگوں کا ہجوم تھا۔ باہر کی فضاء اس دن سوگوار سی تھی۔ دوپہر معمول کے مطابق نکلی تو تھی لیکن بے پناہ قدموں تلے پڑی، کراہتی تھی۔ میں نے ایسا سنا۔
ایک دن دوپہر ہی تھی جب میں نے کسی کے ہنسنے کی آواز کو سنا۔ سامنے کی چھت پر کوئی شائبہ سا تھا۔ ایسے شائبے عام طور پر اسوقت ہمیں گھیر لیتے ہیں جب ہم اکیلے ہوں۔ ویسے موسم میں بھی کہیں کہیں کچھ محسوس ہوتا تھا کچھ اداسی میں پور پور اترا موسم، جسے تنہائی نے گھیر رکھا ہو۔ چھت پربھی ایسی ہی تنہآئی تھی جس کی درزوں سے کوئی ہنسا تھا لیکن کوئی نہیں تھا ھاں موسم تھا جسے کوئی نام دینے سے میں قاصر تھا۔
جس مکان کی یہ چھت تھی وہاں کچھ لوگ رہا کرتے تھے جن کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ سبز سبز آنکھیں، مور کے پنکھ سی یا کائی اوڑھے، شاید مجھے یہی کہنا چاہیئے کہ بے انتہا خوبصورت اور لمبی لمبی پلکیں ان کی حفاظت پر معمور تھیں۔ یاد کروں تو گھر کے اندرون میں تین دروازے تھے اور ایک صحن، جس پر لال لال دھبےتھے۔ کونے میں، دیوار کے ساتھ ساتھ مختلف اچار کے مرتبان نظر آیا کرتے بس اتنا ہی یا خاص موسمی سبزیوں کی بو، جو پک رہیں ہوتیں۔ وہ خاص بو میرے ذائقے سے محو نہیں ہوتی یہ بھی یاد آتا ہے کوئی ادھیڑ عمر کی سانولائی ہوئی عورت نظر پڑتی جسکی آنکھیں اتنی خوبصورت نہیں تھیں جتنی باقی افراد کی تھیں۔ یاد کروں تو کل چھ افراد تھے۔ ایک دوسرے سے بہت کم بولتے تھے بس اپنے گرد بنے کمروں میں بند رہتے۔
لیکن یہ تو بہت بعد کی بات ہے جب کوئی آواز دے رہا تھا اور مجھے خیال بھی رہا کہ کچھ آوازیں آتی رہتی ہیں تو میں یہی سمجھا کہ ویسی ہی کوئی آواز ہوگی لیکن کوئی تھا۔ بہت زیادہ دیر دیکھنے پر یاد آیا یہ وہی ہے جو سڑک کے کنارے کھڑا بھیک مانگتا نظر آتا ہے، ان آنکھوں کے ساتھ جنہیں دیکھ کر رینگتے کیڑوں کا خیال آتا ہے۔۔
"میں نیچے آتا ہوں"۔۔
میں نے اس سے چیخ کر کہا اور جو بل کھاتی سیڑھیاں ہیں، انہیں عبور کرتے ہوئے ویران ہوئے جاتے دروازے کی طرف لپکا لیکن دیکھا باہر جو گلی ہے ویران ترہے اور کوئی نہیں سوائے ایک سیاہ بلی کے جو کسی شکار پر تاک لگائے بیٹھی ہے یا کچھ پتوں کے جو ادھر ادھر تھوڑا تھوڑا اڑتے ہیں۔
سامنے کا گھر بھی بند ہے جہاں خوبصورت آنکھوں والے رہتے تھے بس ایک کی آنکھیں خوبصورت نہیں تھیں۔۔
"کون تھا جو یوں آوازیں دیتا تھا" میں بڑبڑایا۔۔
" کوئی خیال تھا" میں نے شاید خود کو سمجھانا چاہا۔۔
پھر اچانک مجھے یاد آیا وہ تو مر چکا ہے ایک بڑئی سی، بھاری پہیوں والی گاڑی اسے کچل چکی ہے۔ وہ دن، کہیں حافظے کے اندرون میں چپھا بیٹھا تھا۔ میں ڈر سا گیا کہ ایک بےرحمی سے مرا شخص مجھے کیوں پکارتا تھا۔ اسی مخمصے میں گرفتار میں کچھ دیر لرزتا رہا پھر دوبارہ سے انہی سیڑھیوں سے اوپر آیا جو صحن میں کھلتی ہیں جہاں اندھیرے کی چاپ صاف سنائی پڑتی ہے۔ کچھ پودے ہیں جو اندھیرے میں جاگ اٹھتے ہیں اور پراسرار سی بو لیئے بول رہے ہیں۔ باورچی خانہ روشن ہے وہاں وہ کھڑی کجھ پکا رہی ہے اور بےانتہا خاموش ہے۔ وہ میری روز روز وقوع پزیر ہوتی عادتوں سے واقف ہے۔ اسے معلوم ہے میں اندر کے کمرے میں جا کر کسی کتاب کی ورق گردانی کروں گا۔
مجھے بھی کچھ کچھ یاد ہے کل پرانی اشیاء کی دوکان پر گیا تھا جہاں یہ کتاب سستی مل گئی تھی۔ دوکاندار کے چہرے پر جو آنکھیں تھیں وہ حیران کن طور اجنبی تھیں حالانکہ دوکانداروں کی آنکھیں اجنبی نہیں ہونئی چاہیئے لیکن وہ ایسی ہی تھیں۔ اس قدر اجنبی، کہ ایک دوسرے سے بھی شاید کبھی نہ بول پایئں تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے وہاں جو اشیاء تھیں وہ زنگ آلود تھیں۔ ایک طرف نجانے کب سے خاموش گراموفون رکھا تھا۔ دیوار پر موٹے، بھاری رومنی ہندسوں والی گھڑی تھی جس کے پیچھے سے ایک چھپکلی جھانکتی تھی جو واحد زندگی کی علامت تھی۔
میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ یہاں کیوں چلا آیا جہاں اجنبی آنکھیں اور مردہ اشیاء موجود ہیں محض ایک چھپکلی زندگی کی علامت ہے تبھی میں نے بوسیدہ ہوئی جاتی گرد آلود کتاب اٹھائی تھی کہ کتابیں، انسانوں کی بہ نسبت زیادہ با معنی باتیں کرتی ہیں۔ قیمت بھی واجبی سی تھی اور نجانے کتنے زنانہ اور مردانہ ہاتھوں سے ہمکلام رہی تھی۔
مجھے کتابوں کی یہ عادت پسند ہے، ان عورتوں کی طرح فراخدل، جو ہر کسی کے ساتھ دل لگا بیٹھیں یا ارغوانی شراب کی تاثیر لیئے پڑھنے والے کو اندر ہی اندر مصروف رکھتیں ہیں۔ میں نے کتاب کے صفحوں سے آتی کاغذی بو کو ٹٹولا، پھر لفظوں کو جن کو نا معلوم لکھاری نے تخلیق کیا تھا۔ عجیب سا نام تھا ایسے نام ہمارے ہاں نہیں ہوتے۔ لگتا تھا کوئی پولش لکھاری ہے جسے اداسی نے مار ڈالا ہو یہ بھی لگتا تھا ٹھٹھرا ہوا موسم ہے جو برف سے ڈھکا، کسی گہری تنہائی کا شکار ہے۔ نجانے لکھاری کی آنکھیں کیسی ہونگی۔ دو طرح کی ہی ہو سکتیں ہیں، سوچتی ہوئی یا تجسس کا عذاب لیئے نظر آتی ہوں۔ ویسے وہ عورت بھی ہو سکتی ہے، کوئی بے حد نمایاں، بوہیمین سی نظر آتی لڑکی، جس کی آنکھیں، پرندوں کی طرح جگہ جگہ بسیرا کرتی ہوں کیونکہ کتاب میں دانہ چگتے لفظ، ایسی آوازیں نکالتے تھے جو دور سے ہوا میں اڑتے چکور لگتے، چاند کی وحشت میں دیوانے ہوئے جاتے ہوں۔ ویسے چاند میں کچھ ایسا ہے جو پاگل بنا دیتا ہے۔ کچھ ایسی اوازیں دیتا چاند، جیسے جنگل میں سرسراتی ہوا کی سرگوشیاں ہوں۔
بہت پہلے میرا ایک جنگل سےگزر ہوا کرتا تھا۔ ایک آوارہ سی پگڈنڈی بل کھاتی جاتی تھی جیسے کوئی نیم عریاں عورت چلتی ہو۔ جنگل کے قریب کچھ گھر تھے جہاں ایک گھر میں ایسی عورت رہا کرتی جسکے قبضے میں میری جان تھی۔ وہ میرا انتظار کیا کرتی سارا دن اکیلے رہنے سے اوب جاتی۔ جنگل سے واپسی پر میں اسے حیران آنکھوں سے دیکھا کرتا۔ اس کی آنکھیں پانی کی چمک لیئے، کوئی آبی تیرتی ہوئی مخلوق لگا کرتیں جو چہرے کی دریائی ساخت پر بیٹھی، شدید بے رحمی سے گفتگو کرتیں۔
میں روز اسے جنگل کی بابت بتاتا اور دیکھتا واپسی پر جو کچھ دیکھا گیا تھا کچھ ویسا ہی اسکے پیراہن کے اندرون میں چھپا، گہرے گہرے سانس لیتا ہے۔ جلد پر نرم نرم غالیچے سے رکھے ہیں۔ ہاتھ ایسے ہیں، جیسے کوئی تصویر بنانے کو بے تاب ہوں۔ وہ ہاتھ میرے سینے کے ویران کینویس پر کچھ ایسے نقوش بناتے کہ سینہ لہولہان ہوجاتا۔ میں اسے کہانیاں سناتا جو جنگل سے وابستہ آوازوں سے جڑی ہوتیں۔ خونخوار جانورں کی جنہیں انسانی جسم کی ہوس تھی۔ وہ ڈر جاتی اور یوں لپٹ جاتی جیسے درختوں کی قدیم شاخوں سے اژدھے لپٹے رہتے ہیں۔
کسی ایسی سوچ میں اترا ہوں کہ اس کی آواز سنتا ہوں۔ باورچی خانے سے آتی آواز اسی کی ہے۔ میں بوسیدہ ہوئی کتاب کو بستر سے جڑی بہت خاموش سی کارنس نما شے پر رکھ دیتا ہوں اور اسے دیکھتا ہوں۔ وہ صوفیانہ سے لباس میں نظر آتی ہے۔ جسم بھی صوفیانہ سا ہے۔ آنکھوں میں چمک ہے یہ وہی چمک ہے جسے پہلی بار دیکھ کر مجھے اس نیند کا خیال آیا تھا جو ان آنکھوں میں بسا کرتی ہوگی۔ اس کی آنکھیں ابھی بھی دیدہ زیب ہیں یہ الگ بات ہے اب وہ ان کا ویسا سنگھار نہیں کرتی۔ تبھی انہیں سادہ سی مگر دلکش آنکھیں کہنا مناسب ہوگا۔ وہ کرسی پر میرے دائیں طرف بیٹھی، میرے بارے ہی سوچ رہی ہے یہ جانتے ہوئے کہ میں اس سے بات کروں گا تبھی خاموش ہے۔
میں بولتا ہوں، "میں نے شام کو ایسے شخص کو آواز دیتے سنا جو مر چکا ہے"۔
وہ چونک گئی اور میری آنکھوں میں دیکھنے لگی جن کے بارے میں میرا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اب وہ کیسی لگا کرتی ہیں کہ بہت دنوں سے میں اپنی آنکھیں نہیں دیکھ سکا۔ شاید بھول گیا
"آجکل تمہارے ساتھ ایسا کچھ ہو رہا ہے"۔
"تم نے اس دن پرانے ویران کھر کی چھت پر کسی کو ہنستے دیکھا"۔
"تمہاری نیند بھی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے"۔
"اور تم نے نیند کی گولیاں بغیر ڈاکٹر سے پوچھے بڑھا دی ہیں"۔
میں نے اسے کہا کہ "میں خود کو اکیلا، اداس اور بوڑھا محسوس کرتا ہوں"۔
اسنے کہا "تمہارا وہم ہے"۔
"یہ جو تم تاریک باغوں کی طرف نکل جاتے ہو وہیں کہیں کوئی وہم تمہارے انتظار میں رہتا ہے جسے تم اہنے ساتھ لے آتے ہو"۔
باغ اوھام سے بھرے پڑے تھے، سڑکوں پر زندگی مشکل سے سانس لے رہی تھی، آسمان نت نیئے پرندوں سےاور گھر آوازوں سے پریشان دیکھائی پڑتے تھے۔ کہیں دور ماضی، تیز نشہ کیئے مدہوش نظر آتا تھا ہاں کہیں اہک مستقبل دیکھنے کی خواہش سر اٹھاتی ہے لیکن دیکھتا ہوں آنکھوں میں جالے سے لٹکے نظر آتے ہیں۔ کچھ ہو رہا ہے میرے ساتھ، ایسا وہ بھی سمجھتی ہے لیکن کہتی کچھ نہیں محض آنکھوں سے دیکھتی ہے جہاں نادیدہ خوف رکھے رکھے، مرنے کو تیار ہیں۔۔