ہم اوسطاً سالانہ چوبیس لیٹر فی کس کھانے کا تیل استعمال کرتے ہیں جو دنیا میں پانچویں بڑی شرح ہے۔ مگر چونکہ ہمارے خوردنی تیل میں پام آئل کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے اور پام آئل سو فیصد سیچوریٹڈ فیٹس پر مشتمل ہوتا ہے لہذا ہم ذیابیطس کے مرض کی شرح کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہیں۔ اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی مقابل ہی نہیں دور تک۔ ہر تیسرا پاکستانی ذیابیطس کا مریض ہے۔
اس سرگرمی کا معاشی حسن یہ ہے کہ ساڑھے پانچ سو ارب روپے کا خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں اور پھر بیمار ہو کر گیارہ ارب روپے کی خیر سے انسولین بھی باہر سے ہی منگواتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ بھارت کی خوردنی تیل کی اوسط شرح انیس لیٹر فی کس اور چین کی ساڑھے نو لیٹر فی کس سالانہ ہے۔
بھارت میں ذیابیطس کے مرض کی شرح ساڑھے نوفیصد اور چین میں نو فیصد کے قریب ہے۔ آخری بات یہ کہ بھارت نہ صرف اپنے استعمال کی تمام انسولین خود پیدا کرتا ہے بلکہ قریب پندرہ ارب روپے کی انسولین سالانہ دوسرے ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے۔
لیکن میرے عزیز ہم وطنوں آپ کو پاپ لگے جو آپ نے کبھی اپنی اداؤں پر غور کیا اور کبھی اپنی اصلاح کی کوشش یا نیت کی۔ بس ہردم سرکار کو کوستے رہیں اور مست رہیں۔