لاہور سے سکردو کے بذریعہ سڑک زبردست مہم جویانہ مگر کسی قدر تھکادینے والے سفر کے دوران چلاس میں وقت گذارنے کا تجربہ ہوا۔ چلاس سے پہلے ہی دو تین قصبوں پر روم کولر کی بہت سی دکانیں دکھائی دیں۔ اور چلاس میں بھی گویا چلاس اور اس کے گردو نواح کا علاقہ سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہونے درہ بابوسر، نانگا پربت اور دیگر انتہائی سرد علاقوں کے درمیان ہونے کے باوجود گرمیوں میں خاصہ گرم ہوجاتا ہے۔
یہاں گرمیوں میں بہت تیز دھوپ ہوتی ہے اور دن میں درجہ حرارت پینتیس درجہ تک چلا جاتا ہے۔ انتہائی خشک بنجر پہاڑوں کی وجہ سے یہاں نمی کا تناسب بھی کافی کم رہتا ہے۔ یہ جاننا تو بہرحال موسمیات اور ارضیات کے ماہرین کا کام ہے کہ ایسا کیوں ہے مگر میں اس امر غیر متوقع اور غیر موافق کے ممکنہ فوائد پر سوچ رہا ہوں۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ سال دوہزار تئیس کے اعدادوشمار کے مطابق ترکی نے پینتالیس کروڑ ڈالر کا خشک انگور یعنی میوہ، چالیس کروڑ ڈالر کی خشک خوبانی اور چونتیس کروڑ ڈالر کی خشک انجیر برآمد کی۔ چلی نے چالیس کروڑ ڈالر کا خشک انگور یعنی میوہ اور اٹھارہ کروڑ ڈالر کا خشک آلو بخارہ برآمد کیا۔ اسی طرح ایران، افغانستان، بھارت اور دیگر ممالک، خشک انگور، خشک انجیر اور خشک آلو بخارہ اور دیگر خشک پھلوں کی برآمد سے سالانہ کروڑوں ڈالر کمارہے ہیں۔
اندازہ کریں کہ چلاس جغرافیائی طور پاکستان کے بہترین خشک کیے جاسکنے والے پھلوں جیسے چیری، خوبانی، آڑو، انجیر، آلو بخارا اور انگور پیدا کرنے والے شہروں جیسے سوات، گلگت، ہنزہ، سکردو، اور وادی کاغان کے عین وسط میں ہے۔ ان سب شہروں سے ہر قسم کا پھل پانچ سے سات گھنٹے میں چلاس پہنچایا جاسکتا ہے۔ چلاس اپنے گرم موسم اور کم نمی کے تناسب کی وجہ سے شمالی علاقہ جات کا فروٹ ڈرائنگ ہب بن سکتا ہے۔
تصور کریں کہ اگر ہم چلاس میں ایک زبردست ادارہ بنیادیں جو وہاں کے کچھ لوگوں کو مقامی وسائل سے انتہائی کم مالیت سے سورج کی حدت سے پھل خشک کرنے والے ڈرائیر بنانا اور چلانا سکھا دے۔ اور کچھ لوگوں کو ان خشک شدہ پھلوں کو عالمی معیار کی پیکنگ کرکے ضرورت مند ملکوں کو برآمد کرنا سکھائیں تو کیا عذر ہے کہ چند سال میں ہم یہاں سے ایک ارب ڈالرز کے خشک پھل دنیا کو برآمد نہ کرسکیں۔
یقین کریں ہمارے پھلوں کی خوشبو اور ذائقہ دنیا کے بیشتر ممالک کے پھلوں سے کہیں بہتر ہے۔ ان کو مناسب کاروباری انداز سے خشک کرکے عالمی معیار کی پیکنگ میں دنیا کو متعارف کروایا جائے تو پاکستانی کینو اور آم کی طرح ہماری مصنوعات خشک پھلوں کے صارفین کے دلوں میں بھی گھر کر سکتے ہیں۔
یہ کوئی ایسی انہونی نہیں، ترکی، چلی، بھارت اور ایران کی مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں تو قدرت نے ان ممالک سے بڑھ کر ایک زبردست گرم موسم والا فروٹ ڈرائنگ ہب بھی دے رکھا جبکہ ترکی والے تو انتہائی سرد علاقوں میں ہی بہت زیادہ دن لگا کر پھل خشک کرتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا میں خشک پھلوں کی برآمد میں سب سے آگے ہیں۔ تو پھر کیا بہانہ ہے ہمارے پاس۔
"چلاس فروٹ ڈرائنگ ہب"
نہ بنانے کا۔