چنیدہ لوگ تو کسی طور شب بھر میں امیر ہو سکتے ہیں لیکن معاشرے یا ملکوں کی خوشحالی رات بھر میں نہیں آ سکتی۔ اس کے لیے انسانوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ انہیں قابل بنانا پڑتا ہے، منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، نظام بنانے پڑتے ہیں، قانون کی حکمرانی قائم کرنا پڑتی ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل چاہیے، غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ چاہیے، بدعنوانی اور بدانتظامی کا تدارک ہو تب بھی درست سمت میں تین سے چار دہائیاں لگتی ہیں قوموں کو خوشحال بننے میں۔
جرمنی، جاپان، کوریا، ملیشیا، چین، اور اب بھارت حتیٰ کہ بنگلہ دیش کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ کون سی گیڈر سنگھی تھی یا ہے ان کے پاس، بس یہی چند اوامر جن کا اوپر ذکر کیا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بہت زیادہ وقت ہے ہم نہیں کر سکتے ہمیں کوئی چور دروازہ مل جائے۔ بالیقین وقت ان کا بھی گزر جاتا ہے، نہ تو چور دروازہ ملتا ہے، اور نہ ہی کامیابی۔
بس جان لیں کامیابی کا نہ کوئی نعم البدل ہے اور نہ ہی کوئی شارٹ کٹ، اور ملک یا معاشرے کی اجتماعی کامیابی کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔ تو پھر ہمت کرتے ہیں۔ حقیقی کامیابی کے لیے ذرا سے مشکل اور تھوڑے لمبے سفر پر پہلا قدم رکھتے ہیں۔ گو ہم پاکستانیوں کا کام تھوڑا زیادہ مشکل ہے۔ کیوں کہ ہمیں ترقی اور کام کے ساتھ نظام کی بہتری بھی کرنا ہے۔ جبکہ نظام پر قابض لوگوں کو اس نظام سے فائدہ ہے۔
تو ہم کیا کریں یونہی جیتے جی مرتے رہیں یا بہتری کی کوششوں میں لگ جائیں؟ وقت تو دونوں صورتوں میں ہی گزر جائے گا، ہمیں لگتا ہے کوشش کرنا چاہیے۔ ہارنے سے پہلے ہارنا نہیں چاہیے، یہی کامیابی کا چور دروازہ ہے۔