سفید قمیض اور کالی پتلون میں ملبوس وہ ایک نستعلیق سا نوجوان تھا جو اس سفید ریش پیر فرتوت پر جھکا ہوا تھا۔ منہنی سا بزرگ بہت خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ ٹریفک کا بہاؤ آہستہ ہوتے ہوتے چار پانچ منٹ سے تقریباً رکا ہوا تھا۔ میں سڑک کے دائیں طرف والی لین میں تھا اور مجھ سے کچھ فاصلے پر سڑک تقسیم کرنے والے تھڑے پر ہی وہ بزرگ بیٹھا تھا جس کو وہ نوجوان حوصلہ دے رہا تھا۔
گاڑیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع ہوئیں تو منظر واضح ہوا۔ ایک بالکل نئی سفید گاڑی کو سامان ڈھونے والے رکشہ نے پیچھے سے ٹکر مار رکھی تھی۔ ٹکر سے گاڑی کا پچھلا شیشہ چکنہ چور ہوکر سڑک پر بکھر گیا تھا، اس کے علاوہ گاڑی کے پچھلے حصہ پر رکشہ کی بے تکلفی کے کافی تکلیف دہ نشانات تھے۔
قریب پہنچ کر نوجوان کو اور بھی غور سے دیکھا۔ انتہائی سنجیدہ قسم کا محنتی سا نوجوان دکھائی دیا۔ جو کسی کثیرالملکی کمپنی یا کسی بینک میں اچھے عہدے پر رہا ہوگا۔ اور اس نے یقیناً کڑی محنت اور بڑی محبت سے یہ بالکل نئی سفید گاڑی خریدی ہوگی۔ آپ باآسانی تصور کرسکتے ہیں کہ محنت اور محبت سے خریدی گئی سفید نئی گاڑی پر پڑنے والے نشان کس قدر تکلیف دیتے ہیں۔
مگر آفرین ہے اس نوجوان پر جس نے ٹکرکے بعد نیچے اتر کر رکشہ والے بابا پر گرجنے برسنے کی بجائے اس کی دلجوئی کرنا ضروری جانا۔ حالانکہ سو فیصد غلطی رکشہ والے بابا کی تھی۔ بابا کو تسلی دینے کے بعد اس نے رکشہ پیچھے ہٹایا۔ اس کا ہینڈل سیدھا کیا۔ اور بابا کو اس پر سوار ہونے میں مدد دی۔ چہرے پر ایک وسیع مسکراہٹ کے ساتھ وہ اپنی زخمی گاڑی کی طرف بڑھا۔
سارا منظر قریب سے دیکھنے کے بعد میں نے اس آغوش کے لیے دل سے دعا کی جس نے ایسا وسیع القلب اعلیٰ ظرف نوجوان پرورش کیا۔ لاہور کی بیالیس درجہ گرمی میں جہاں ہم ایسے کم ظرف بات بے بات آپے سے باہر ہوئے جاتے ہیں ایک نوجوان کا ایک ضعیف کمزور سے ایسا حسن سلوک، میرا ایمان ہے کہ ہمارا رب ہمیں جن انعام یافتہ لوگوں کے رستہ پر چلنے کی آرزو کے لیے کہتا ہے۔۔ وہ ایسے ہی اعلیٰ ظرف وسیع القلب لوگ ہوتے ہیں۔
اے اللہ ہمیں اپنے انعام یافتہ لوگوں کے رستے پر چلا۔