سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت لوگ فری انرجی بنانے کی مختلف تراکیب بتاتے ہیں، کوئی پانی کی ٹینکی سے بنا رہا ہے، کوئی فلائی وہیل کو سپرنگ لگا کر بارہا ہے، کوئی ویکیوم سے بنا رہا ہے۔ ایک صاحب ڈرم کے نیچے لکڑیاں جلا کر بھاپ بناکر اس سے ایک پنکھا چلانے کی کوشش کررہے تھے۔ پاکستان اور بھارت میں یہ مرض زیادہ ہے۔ مگر گورے بھی ویوز کے لیے کچھ حصہ ڈال رہے ہیں۔
ہم نے بارہا لوگوں کو سمجھایا کہ پہلا قانون برائے بقائے توانائی ہی کہتا ہے کہ توانائی کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل تو کیا جاسکتا ہے مگر نہ ہی اسے پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فنا۔ اور جس بندے کو یہ بات سمجھ آگئی وہ اپنی توانائی اور وسائل پھر مثبت سمت میں خرچ کرتا ہے نہ کہ ایسی خرافات میں۔
دنیا فیول سیل پر کام کررہی یورپ کے ایک کنسورشیم نے کہ مرسڈییز بنانے والی کمپنی بھی جس کا حصہ ہے فیول سیل ٹیکنالوجی کے تجربات پر ایک ارب یورو سے زیادہ کی سرمایہ کی ہے۔ گوگل نے ایسے ہی توانائی کے ایک پراجیکٹ پر تجربات کے لیے اربوں ڈالرز کے فنڈ جاری کر رکھے ہیں۔۔ ہمارے دوست اتنی سی بات پر غور نہیں کرتے کہ دو سپرنگ اور اور ایک پہیہ لگا کر اگر مفت بجلی مل جاتی تو یہ لوگ جو ٹیکنالوجی کے حکمران ہیں ایسے اربوں کی سرمایہ کاری کرتے۔
شارٹ کٹ ٹو سکسس کے دلدادہ، علم و ہنر سے پرہیز برتنے والے درجنوں ہم وطن اس ان چیزوں پر وقت اور توانائی ضائع کررہے جو پہلے ہی محدود ہے۔ میرا خیال ہے اس قدر بڑے پیمانے پر خرابے کو روکنے کے سرکار کو تا حکم ثانی ان تجربات پر پابندی لگا دینی چاہیے۔