1۔ خدا کا وجود ماننا کیوں ضروری ہے اور اگر بقول مذہبیوں کے کہ خدا کا وجود ہے تو وہ کہاں ہے، نظر کیوں نہیں آتا، اگر رحمان ہے تو ظلم و ستم اور زیادتیوں پر چپ کیوں ہے؟ وہ ظلم کا بدلا کیوں نہیں لیتا، جبار و قہار کیوں ہے، جہنم سے ڈراتا کیوں ہے وغیرہ وغیرہ۔
ج:
یہ سوال ہی منطق و فلسفہ کے خلاف ہے، اور کوئی ذی شعور انسان وجودِ خدا کا انکار نہیں کرتا۔ خدا کا وجود اس لیے ماننا ضروری ہے کہ خدا ہے، ہمیشہ سے ہے، قائم ہے، قادر ہے، مطلق ہے، خدا واجب الوجود ہے، اس کا نہ ہونا محال ہے اور جس کا نہ ہونا محال ہو اسکا ہونا واجب ہے، ایک آن بھی ایسا نہیں جو خدا کے وجود سے خالی ہو یا کوئی ایسا لمحہ، وقت، زمان و مکان، زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے، وقت کی ترتیب سے پہلے، ابد کی تخلیق سے ہہلے، عدم کے ظہور سے پہلے۔
کن فیکون کے نزول سے پہلے، جب ابتدائے وقت نہیں تھا، زمان و مکاں بلکہ لامکاں بھی نہیں تھا، تب بھی اللہ سبحان و تعالٰیٙ، جلا شانہ، وہ قادرِ مطلق اپنی تمام صفاتِ کاملہ کیساتھ زندہ و جاوید تھا، اس کے لیے کوئی ایسا لمحہ کبھی رو پذیر نہیں ہوا کہ جب وہ نہ ہو۔ وہ زمان و مکاں میں سماتا نہیں، وقت اسکو گھیر نہیں سکتا، عقل اسکو شعور میں لا نہیں سکتی، وہ خدودِ کائنات کا پابند نہیں۔ اس کے لیے کائنات کا ہونا نہ ہونا بے معنی ہے، وہ ازلی ہے، ابدی ہے، عالی ہے اولیٰ ہے، ہادی ہے مہدی ہے۔
اس کا وجود تمام وجودوں کا اصل ہے، کائنات اور زمان و مکاں کی ہر ہر شے، ہر ہر زرہ، اس کے قائم رکھنے سے موجود ہے، جس کا ہونا واجب ہو اسکے نہ ہونے کا سوال ہی غیر نظریاتی غیر فلسفی، غیر عقلی ہے۔ اگر بالفرض (یہ فرض بھی نہیں کر سکتے لیکن ملحدوں کو سمجھانے کے لیے) کسی آن وجود خدا کا نہ ہونا ثابت ہوتا تو زمیں نہ ہوتی، زماں نہ ہوتا، ازل نہ ہوتا، ابد نہ ہوتا، نہیں نہ ہوتا ناں نہ ہوتا۔
کائنات کی ماہیت اور اس کے راز و اسرار نوع انسانی کے لیے ایک چیلنج ہے، کائنات کی راز و اسرار کو مکمل مکمل جاننا لامحالہ ممکن ہی نہیں۔ انگنت ستاروں اور سیاروں سے بنی کائنات کا ایک حقیقی پسِ منظر ہے، کائناتی مظاہر کو مکمل و جامع جاننے کیلیے پہلے اس کے بنانے والے کو جاننا بےحد ضروری ہے۔ چند لمحات کے لیے ہم ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ انسان بنا کسی خالق کے خودبخود بن گیا یا اس کا بنانے والا کوئی نہیں، تو یقیناً نتیجتاً یہ لازم آئے گا کہ انسان کے اعمال چاہے اچھے یا برے ہوں، اس سے قانونِ دنیا میں پکڑ کی صورتحال تو ہو سکتی ہے مگر موت کے بعد کسی حساب کتاب کا کوئی تصور نہیں بچتا۔
تو ملحد کا خدا پر اعتراض تو بعد میں آئے گا پہلا اعتراض تو اس کے اوپر نافذ ہوتا ہے کہ خود کو کلی و مکمل سمجھنے والا اپنے کہے پر دنیا میں خود کو کٹہرے میں کیوں کھڑا نہیں کرتا؟ کیا یہ انسانیت کے ساتھ دھوکہ دہی یا زیادتی نہیں، ساری زندگی دوسروں پر ظلم کرنے والا مر کر خاک ہو جانے والا یوں ہی مٹی کے ساتھ مٹی ہو جائے تو مظلوم کس عدل پر بھروسہ کرے گا۔ پھر سو چوہے کھا کر بلی حج پر کیوں جائے؟
خدا کا وجود اس کائنات اور نظامِ ہستی چلانے کے لیے لازم ہے، مظلوموں کے لیے اجرِ آخرت، ظالموں کیلیے نارِ جہنم۔ خدا کا وجود زندہ رہنے کی امید دلاتا ہے۔ خدا کا وجود اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس پر پختہ ایمان دلوں میں امید کی کرن کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔ اسی لئے باایمان افراد کبھی خودکشی کا اقدام نہیں کرتے ہیں کیونکہ خودکشی کا سرچشمہ مکمل ناامیدی چھا جانے کا نام ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ یہ سوال ہی غیر منطقی و غیر فلسفی ہے، کیونکہ خدا کا وجود تو ازل سے ہے اور جو ازل سے ہے اس کو غیر ثابت کر کے اسکے وجود کی ضرورت کا پوچھنا حماقت اور بدیانتی ہے، اگر ملحدین خدا کے وجود کو سرے سے ہی نہیں مانتے تو انکا یہ سوال کس لیے؟ اور کیا اگر وہ وجودِ خدا کے ضروری ہونے کے قائل ہو جاتے ہیں تو کیا وہ وجود خدا کے ضروری ہونے کے ساتھ واجب الوجود کے قائل ہو جائیں گے؟
اب سوال کے دوسرے حصے کا اجمالاً ذکر کر دیتا ہوں لیکن سب سے پہلے کائناتی مسئلہ، مسئلہ شر کا جاننا ضروری ہے، مسئلہ شر اس بات کا بیانیہ ہے کہ اگر خدا رحمٰن، رحیم، عادل، غفار، قہار، جبار، علیم و حکیم اور قادرِ مطلق ہے اور یہ کائنات اسی کی ڈیزائن کردہ ہے تو پھر اس میں گناہ، بدی، مصیبت و دکھ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ جس کائنات میں نیکی و بدی، دکھ اور مصیبت کا پایا جانا ثابت ہو تو عقلاً ایک کم فہم شعور یہ خیال کرتا ہے کہ کائنات غیر پختہ ہے کیونکہ اگر کوئی حقیقی خالق ہوتا تو وہ غیر پختہ کائنات کیوں ڈیزائن کرتا، لہٰذہ کائنات میں شر کا ہونا خدا کے نہ ہونے کی دلیل واحدہ ہے۔
پھر یا تو خدا ہے ہی نہیں یا پھر یہ کائنات ہی خدا کی پیدا کردہ نہیں کیونکہ قادرِ مطلق ذات کے ہوتے ہوئے شر کا ہونا غیر منطقی اور غیر عقلی ہے (بقول ملحدین)۔ اس مسئلہ کی وضاحت اتنی مشکل بھی نہیں بلکہ قانون فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور سادہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے نظام ہستی اور نظامِ کائنات کے لیے کچھ یونیورسل ٹرتھ پہلے سے ہی ڈیفائن کر دیے ہیں اور یہ قانون، قانون فطرت کہلاتے ہیں۔
جو اٹل ہیں، جن کا بدلنا مشیعتِ خداوندی نہیں تاکہ ہر انسان کے لیے حجت رہے اور وہ ان قوانین کے تابع رہتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کے معاملات کو عقل و شعور کی کسوٹی پر پرکھے۔ اللہ نے اپنی مشیعت میں چاہا کہ آگ گرم ہو اور جلائے کیونکہ۔ اس نے آگ کو گرم پیدا کیا ہے اور قانونی پہلو یہ ہے کہ وہ ہر ایک کو جلائے گی کیونکہ آگ کی فطرت میں جلانا لکھا ہے، اب کوئی بچہ ہو یا بڑا، آگ سب کو جلائے گی، ایسا نہیں ہے کہ آگ اچھوں کو نہ جلائے اور بروں کو جلا ڈالے۔
سورج مسلمان کو روشنی دے اور کافر کو اندھیرا، آکسیجن اچھوں کے لیے سانس کا ذریعہ ہو اور کافر کے لے گھٹن، اسی طرح قدرت الٰہی نے رزق کا وعدہ کر دیا ہے اور قانون بنا دیا ہے کہ رزق سب کو ملنا ہے اب ایسا نہیں کہ صرف امیروں کو ہی رزق ملے اور غریب مر جائیں (ہاں رزق کی کیفیات و مقدار کا تعین اللہ کریم نے اپنے پاس ہی رکھا)۔
تو لہٰذہ یہ کہنا کہ وہ زیادتیوں پر خوش کیوں ہے، کچھ کرتا کیوں نہیں، بدلا کیوں نہیں لیتا وغیرہ وغیرہ سب بے بنیاد الزامات ہیں، اس نے چاہا کہ حساب و کتاب، سزا اور جزا کا معاملہ کیا جائے اسی لیے جس نے شر کو فروغ دیا اسکو اسکا اجر جہنم کی شکل میں ملے گا اور جس نے اچھائی سے کام لیا اور زبان دراز نہ کی اسکو اسکا اجر جنت کی شکل میں ادا کیا جائے گا۔
مسئلہ شر کے اس سوال کے جواب میں الہامی مذہب نے یہ بات کہی ہے کہ خدا نے خیر و شر کی پالیسی اس دنیا میں ہمیں آزمانے کے لیے بنا رکھی ہے۔ خیر و شر، دونوں خدا کے اذن و تخلیق سے ہیں۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، اس لیے اس میں شر کی موجودگی لازم ہے۔ یہ امتحان ایک جامع و کلی امتحان ہے۔ یہ خدائے وحدہ لاشریک کی تخلیق احسن التقویم اور ہم جیسے دوسرے آرٹیفیشل انٹیلیجنٹس سے لیا جانا ہے (جنات وغیرہ)، اور اس مخلوق سے لیا جانا ہے جسے نہ صرف خیر و شر کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے، بلکہ اس دنیا کے وسائل پر بھی اس کی دھاک قائم ہے۔
بالفرض ہم ملحدین کی بات مان لیں کہ یہ خدا نے یہ کائنات ناقص بنائی ہے اسی لیے اس میں شر رکھ دیا (نعوذباللہ) لیکن اس سے خدا کا نہ ہونا پھر بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ناقص و بےترتیب مان لینا اس بات کا اشارہ ہے کہ کائنات جیسی بھی ہے لیکن اسکا خالق موجود ہے۔ یہ تو ہر صورت میں ملحدین کے گلے کی ہڈی ہے، اسی لیے نجات صرف خدا کو واجب الوجود اور لاشریک ماننے سے ہی ممکن ہے۔
اگر خدا ہی کائنات اور اُس کی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے تو خدا کو پیدا کرنے والا کون ہے؟
دنیا میں ہر مذہب اپنے خدا کو ہی اصل خدا مانتا ہے اور ہر دوسرے مذہب کے خدا کو باطل قرار دیتا ہے تو ہم کیسے کہیں کہ کونسا خدا اصل خدا ہے؟
ج:
بظاہر یہ سوال ملحدین کا بنیادی سوال ہے جس کے ذریعے وہ بولے بالے مذہبیوں کو اپنی غیر فلسفانہ سوچ کا چورن بیچتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ سوال کسی بھی ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے جس کے بارے میں ایک بہت مشہور روایت ہے چنانچہ ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ہمیشہ ہی لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے حتٰی کہ یہ کہا جائے گا یہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو شخص ایسا (اپنے ذہن میں ) پائے وہ یہ کہے میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا۔
اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے (تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے کہ یہ یہ چیز کس نے پیدا کی ہے حتیٰ کہ وہ اسے کہتا ہے کہ تیرے ربّ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب معاملہ یہاں تک جا پہنچے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور اس سے رک جائے)۔
چونکہ بحیثیت مسلم ہمارا ایمان اور بنیادی عقیدہ ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ابتدا سے ہے اور وہ خود قائم ہے، ہمیشہ سے ہے، وہ کبھی فنا نہیں ہوا اور نہ ہی اس کو کسی نے پیدا کیا، ایک مسلمان کو توحید کا اتنا علم ہونا واجب ہے لیکن چونکہ زمانہ قریب و بعید اور موجودہ کشمکشی کے دور میں الحاد اپنا سر اٹھاتا جا رہا ہے اس لیے خدا کی معرفت کو کامل جاننا بےحد ضروری ہے تاکہ شیطانی وسوسوں، ملحدین کی شرارتوں اور سائنسی بکواسیات کا رد کیا جا سکے اور ایمان کو مضبوط و محفوظ کیا جا سکے۔