جندب البجلی سے مروی ہے کہ آنحضور سید الانبیاء، تاجدار مدینہ، سرور کائنات، جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی صحت مبارکہ درست نہ رہی۔ چنانچہ حضور اقدس ﷺ ایک یا دو راتیں شب خیزی نہ فرما سکے۔ ایک گستاخ عورت (ابو لیب کی بیوی امِ جمیل – مظہری بحوالہ بغوی) آئی اور حضور اکرم ﷺ کا نام لے کر کہنے لگی کہ مجھے یوں تو معلوم ہوتا ہے کہ تیرا شیطان تجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ہم نے ایک دو رات سے اسے تمہارے (آپ ﷺ) قریب آتے نہیں دیکھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۂ الضحی نازل فرمائی۔ اس سورہ مبارکہ میں ان عنایات بےپایاں اور احسانات عظیم کا تذکرہ فرمایا گیا جو رحمٰن و رحیم رب العلمین نے اپنے محبوب ترین بندے اور رؤف رحیم رسول، جنابِ محمد ﷺ پر فرمائیں۔
وَ الضُّحٰی: قَسم ہے چاشت کے وقت کی (اے محبوب ﷺ آپ کے سوہنے سوہنے چہرہ انور کی قسم)۔
وَ الَّیلِ اِذَا سَجٰی: اور قَسم ہے رات کی جب وہ خاموش، ساکن اور سنسان ہوئی (اے سوہنے محبوب ﷺ ہمیں تیری کالی کالی زلفوں کی قسم)
مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی: اے محبوب ﷺ، آپ ﷺکو آپ ﷺکے رب نے نہیں چھوڑا اور آپ ﷺ کی محبت ختم نہیں کی اور نہ ہی آپ ﷺ کو ناپسند رکھا
وَ لَلاٰخِرَۃُ خَیرٌ لَّکَ مِنَ الاُولٰی: اور بیشک (ہر) بعد کی گھڑی آپ ﷺکے لئے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے
وَ لَسَوفَ یُعطِیکَ رَبُّکَ فَتَرضٰی: اور آپ ﷺ کا رب عنقریب آپ ﷺکو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ ﷺ راضی ہو جائیں گے
اَلَم یَجِدکَ یَتِیمًا فَاٰوٰی: اے حبیبﷺ! کیا اس نے آپ ﷺکو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ ﷺکو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا
وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی: اور آپ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ کو عام انسانوں کے اندر گم بے مثال انسان پایا تو آپ ﷺ کو مخلوق کی ہدایت کی راہ پر چلا دیا
وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغنٰی: اور پایا اس نے آپ ﷺ کو عیالدار حاجت مند پھر بے پروہ کر دیا اس نے آپ ﷺ کو مال کی طرف سے
فَاَمَّا الیَتِیمَ فَلَا تَقہَر: اور بہرحال آپ ﷺکسی یتیم پر دباؤ مت ڈالیں
وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنہَر: اور اے رحمت کے پیکر ﷺ(اپنے در کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیں
وَ اَمَّا بِنِعمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث: اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ اور شکریہ ادا کریں۔
ربِ کائنات نے جب جب جہاں جہاں پیارے آقا کریم ﷺ کا تذکرہ فرمایا تب تب جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کو آدابِ محبت میں کبھی والضحی کہا، کبھی ولیل کہا، کبھی طہ سے پکارہ، کبھی یسن کہا اور کبھی یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک، یا یھا المزمل قم الیل، کبھی یایھا المدثر قم فانذر۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس جس چیز سے جنابِ سید الانبیاء ﷺ سے نسبت ہواس اس چیز اور جگہ کا ذکر بھی ربِ کائنات نے بڑے ادب سے کیا چنانچہ ارشاد ہوا: لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون۔ تیری ﷺجان کی قسم وہ کافر اپنے نشے میں اندھے ہورہے ہیں۔ لا اقسم بھٰذا البلد، انت حل بھٰذا لبلد میں قسم یاد کرتاہوں اس شہر کی کہ تو ﷺ اس میں جلوہ فرماہے، وقیلہ یرب ان ھؤلاء قوم لا یؤمنون، مجھے قسم ہے رسول ﷺ کے اس کہنے کی کہ اے رب میرے! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ اے مسلمان! یہ مرتبہ جلیلہ اس جان محبوبیت ﷺکے سو ا کسے میسر ہوا کہ قرآن عظیم نے ان ﷺ کے شہرکی قسم کھائی، ان ﷺکی باتوں کی قسم کھائی، ان ﷺکے زمانے کی قسم کھائی، ان ﷺکی جان کی قسم کھائی، (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)ہاں اے مسلمان!محبوبیت کبری ﷺ کے یہی معنی ہیں والحمد للہ رب العالمین۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
چہرہ ہے والضحیٰ تو سخن دل پذیر ہے
واللہ تیری زلف کا عالم اسیر ہے
آقا ترے پسینے کی خوشبو سے آج تک
حیران مشک و عنبر و عود و عبیر ہے
خلاقِ دوجہاں کا ہے تو ایسا شاہکار
ثانی کوئی مثال نہ تیری نظیر ہے
دنیا میں قبر و حشر میں اور پل صراط پر
دونوں جہاں میں تو ہی مرا دستگیر ہے
کونین کا ہے والی مگر سادگی تو دیکھ
کمخواب ہے نہ تن پہ لباسِ حریر ہے
تیرے بغیر نبضِ زمانہ رُکی رہی
یعنی ترا وجود بہت ناگزیر ہے
سید الوریٰ، ہادی کونین، خاتم الانبیاء، سرور کونین، شاہِ عرب و عجم، والضحی کے چہرے والے، ولیل کی زلفوں والے، پیارے کریم آقا ﷺکے کمالات و اعزازات کا اداراک انسانی عقل و شعور سے ماورا ہے کہ ربِ کائنات نے ساری کائنات کو چاند ستاروں سے مذین کیا، لیکن اس ساری کائنات و ساری مخلوقات کا سرتاج، ساری محبتوں کا محور جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کو بنایا پھر بات یہاں ختم نہیں کی بلکہ آقا کریم ﷺ کی محبت مخلوقات کے لیے عین فرض کر دی بلکہ آپ ﷺ کی محبت ہی محبتِ الہیٰ ہے، چنانچہ مومن ہونے کیلیے آپ ﷺ کی محبت کو حجت بنا دیا۔
چنانچہ مومن ہونے کے لیے یہی شرط رکھی کہ جب تک جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت تمام محبتوں یعنی جان، مال اولاد، ماں باپ سے بڑھ نہیں جاتی تب تک ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اب چونکہ محبت ہونے یا محبت کرنے کے لیے کسی شخص میں اوصافِ محبت بھی ہونے چاہیں، کوئی زلفوں کا شیدائی تو کوئی چہرہ یار کا دیوانہ لیکن اس کائنات میں ایک ہستی ﷺ ایسی بھی ہے جس کی محبت دلوں میں اس طرح رچی بسی کہ اس محبت کے آگے کسی دوسرے کی محبت دکھائی ہی نہیں دیتی، جو ماہ تمام کی طرح تمام انسانیت کو منور کیے ہوئے ہے، جن ﷺ کا رخِ زیبا چاند سے بڑھ کر روشن و منور ہے کہ چاند دیکھ لے تو شرما شرما سا جائے، ایسا چہرہ کہ جس چہرے جیسا کبھی بنا ہی نہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت چہرے والے تھے، رنگ مبارک کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ نورانی تھے۔ آپ ﷺ کا کسی نے بھی وصف بیان نہیں کیا جو ہم تک پہنچا ہے مگر اُس نے آپ ﷺ کے چہرئہ انور کو چودھویں کے چاند کے ساتھ تشبیہ دی ہے، اُن میں سے کہنے والا کہتا تھا: شاید ہم نے چودہویں رات کا چاند دیکھا اور کہا: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودہویں کے چاند سے بھی بڑھ کر خوبصورت ہیں، جگمگاتی رنگت والے، نورانی مکھڑے والے ہیں جو ایسے چمکتا ہے جیسے چودہویں رات کا چاند چمکتا ہے"۔
اِس حدیث کو امام ابن عساکر اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
امام احمد رضا خان تاجدارِ بریلی یوں گویا ہوئے:
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سرکٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
حضرت سیدنا یوسفؑ کی ایک جھلک دیکھتے ہی مصر کی عورتوں نے پھل کاٹنے کی بجائے اپنی انگلیاں کاٹ لیں اور انہیں اس حسن کی تجلیوں کی وجہ سے انگلیاں کٹ جانے کا احساس بھی نہ ہوا کہ حسن و جمال کے جلووں کے سامنے درد و تکلیف کا ادارک سو جاتا ہے، دوسری طرف تمام حسن و جمال کے تاجور جناب سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکت ہے کہ جن کے چہرہ انور کی تجلیات ایسی کہ عرب کے مرد اپنے سر کٹاتے پھرتے ہیں وہاں عورتیں تھیں اور مصر تھا اور یہاں مرد ہیں اور وہ بھی عرب کے اور پھر یہیں بات ختم نہیں ہوئی بلکہ یہاں تو یہ حال ہے کہ جنہوں نے آپ آقا کریم ﷺ کو دیکھا بھی نہیں اور فقط آپ ﷺ کے حسنِ تجلا کو کا تذکرہ ہی سنا ہے وہ بھی اپنی جانیں وارنے کو تیار ہیں۔
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں