حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (مسلم شریف)
میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے۔ میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو۔
مومن ہوں، مومنوں پہ رَءُوفٌ رَّحِیم ہو
سائل ہوں، سائلوں کو خوشی لا نَہَر کی ہے
نماز اچھی، زکوٰۃ اچھی، کلمہ اچھا اور حج بھی اچھا
مگر باوجود ان سب کے میں مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں رسول اللہ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے، کامل مرا ایماں ہو نہیں سکتا
اور
تھکی ہے فکر رساں، مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا، مدح باقی ہے
اور عمر تمام لکھا، مدح باقی ہے۔
نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، نہ عبادت میں، نہ ریاضت میں، نہ فرائض میں نہ نوافل میں، لیکن جہاں محبتِ رسول کی بات ہو اور عاشق بھی وہ جس کو زمانہ مولائے کائنات، شیرِ خدا کہے۔ جس مرتضیٰ کے سامنے نمازِ عصر ہو اور دوسری جانب جانِ جاناں کا چہرہ انور اور سکون رخِ یار ہو وہاں نماز یقیناً ثانوی ہے کہ اصل نماز عشق رسول ﷺ ہے۔
مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے۔
صحابہ چونکہ جانتے تھے کہ اصل و اکمل، اعلیٰ و عرفا، عبادتوں کا اصل، محبت رسول ﷺ ہے اس لیے جنابِ ابوبکرؓ نے اپنی جان کی بھی پروا نہ کی اور پروا کرتے بھی کیوں؟ جانِ جاناں کی جانِ اقدس کے سامنے سب پروانے تھے، سانپ سے ڈسوا لیا لیکن رسول ﷺ کے آرام میں حلل نہیں آنے دیا، جان جاتی ہے تو جائے، جان بھی انہیں کے طوفیل ہے۔
صدّیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے
اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غُرَر کی ہے۔
کیونکہ اب جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ ظاہری طور پر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں یا شاید ہماری آنکھوں پر گناہوں کی کالک و میل جڑھ گئ ہے، اسی لیے ہماری روحانیت کا رشتہ کمزور پڑ گیا ہے، اب اس رشتہ کو صرف محبت رسول ﷺ ہی مضبوط و پائیدار کر سکتی ہے، ہم بحیثیت زمانہ موجودہ کیا کریں کہ اپنا محبت کا رشتہ دوبارہ جوڑ سکیں۔
اس کے لیے کسی لمبی چوڑی مشقت کی ضرورت نہیں، ہمیں شریعت نے پہلے ہی محبت کی کسوٹی بتا دی ہے۔ نبیٔ کریم، رؤف رحیم ﷺ کی محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ محبوب کا کثرت سے ذکر کیا جائے روایت میں ہے: "مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ مِنْ ذِکْرِہ" یعنی جو کسی سے محبت کرتا ہے اس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔ (جامع صغیر، ص۵0۷، حدیث:۸312)
حضرت ابی بن کعبؓ فرما تے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول ﷲ ﷺ میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ ﷺ پر درود کے لئے مقرر کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جتنا تم پسند کرو۔ میں نے عرض کیا: ایک چوتھائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا آدھا حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: دو تہائی؟ فرمایا: اس میں بھی اضافہ کر دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: میں اپنی ساری دعا (کا وقت) آپ ﷺ پر درود کے لئے وقف کر دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
إذا تُکْفی ھَمَّکَ، وَيُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ۔
"تب تو تیرا ہر غم دور ہوگا اور ہر گناہ معاف کر دیا جائے گا۔ "
جنگ احد میں ایک خاتونؓ کے شوہر اور بھائی اور بیٹے سب شہيد ہو گئے۔ وہ مدینہ سے نکل کر جنگ سے واپس آنے والوں سے حال پوچھا تو لوگوں نے کہا تمہارا خاوند، تمہارا بھائی اور تمہارا بیٹا سب شہید ہو چکے ہیں، اس نے ان سب کی شہادت کی خبر سن کر پوچھا کہ نبی ﷺ کس حال میں ہیں؟ تو لوگوں نے کہا، الحمد للہ وہ صحیح و سلامت ہیں۔ اس نے کہا مجھے لے جا کر دکھا دو، لوگ انہیں آنحضرت ﷺ کے پاس لے گئے، جب اس کی نظر رسول اللہ ﷺ کے مبارک چہرہ پر پڑی، تو بے ساختہ اس کی زبان سے یہ کلمہ نکل گیا۔ (کل مصيبة بعدک جلل) "جب آپ ﷺ زندہ و سلامت ہیں تو آپ ﷺ کے بعد ہر ایک مصیبت آسان ہے"۔ مجمع الزوائد
حضرت علیؓ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول ﷺ سے آپ لوگوں کی محبت کیسی تھی؟ تو حضرت علیؓ نے فرمایا:" اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنی اولاد، والدین، مال و دولت اور سخت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے۔
صحابہ کرامؓ کی زندگیوں پر غائرانہ نظر ڈالیں تو اس بات کا علم ہوگا کہ انہوں نے حبِ رسول ﷺ کا حق ادا کیا، آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ اپنی کتاب "الشفاء" میں ایک قول نقل کرتے ہیں: "فقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ" (سفیان ثوری نے فرمایا کہ حبِ رسول ﷺ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺ ہے)۔
آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو نبی اکرم ﷺ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنا پسند کرتے جو نبی رحمت ﷺ نے کیا ہو اور اس سے نفرت ظاہر کی ہو جسے نبی ﷺ نے ناپسند کیا ہو حتیٰ کہ کھانے پینے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے میں بھی آپ کے نقش پا کو تلاش کرتے۔ اس کی ایک دو مثال ملاحظہ فرمائیں۔
موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھا کہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضور ﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸3)
حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعاۓ مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ نے سواری پر سوار ہو کر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضور ﷺ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود: 2۶02)
اس تمام تحریر کا مقصد صرف یہی ہے کہ اپنے دلوں کو رسول ﷺ کی محبت سے منور کیا جائے لیکن چونکہ اعمال و فرائض ادا کرنا رسول ﷺ کی سنت ہے اس لیے محبت کا دعویٰ ہی نہیں کرنا بلکہ سنت کا اتباع کر کے اعمال کی کثرت کرنی ہے تاکہ دعویٰ اور حقیقت میں تضاد نہ ہو۔ رسول ﷺ کی محبت کی نشانی یہ ہے، کہ رسول ﷺ کے طریقے پر عمل کیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے (من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنة)) (ترمذى)"جس نے میری سنت سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا"۔
وہ محبت جو سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرم ﷺ کی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہ ﷺ کی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنتِ رسول ﷺ کے علم کو سربلند نہ کرے محض جھوٹا دعویٰ ہے حب رسول ﷺ کا۔
اللہ ہم سب کو اس کے رسول ﷺ سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے، اور آپ ﷺ کی اطاعت کی توفیق دے: آمین اللہ کریم ہم سب کے دلوں کا رسول ﷺ کی پکی، سچی اور کامل اعمال والی محبت عطا فرمائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنی زبانوں کو عطرِ محبوب سے تر رکھیں اور درود و سلام کی کثرت کریں۔
اُن پر دُرود جن کو حجر تک کریں سلام
اُن پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے
اُن پر دُرود جن کو کسِ بے کساں کہیں
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
جنّ و بشر سلام کو حاضر ہیں اَلسَّلَام
یہ بارگاہ مالکِ جنّ و بشر کی ہے
شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں اَلسَّلَام
خوبی انہیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے۔