ملحدین کی طرف سے آپ کو یہ سوال کرنا اصولی طور پر باطل اور سوال کے نفس کے اعتبار سے بھی اس میں بے اصل و ناقص ہے کیونکہ اگر یہ فطرتی قائدہ ہوتا کہ ہر شے کا خالق ہونا واجب ہے تب تو سوالات کی انگنت بوچھاڑ نظر آئے گی۔ اور بالفرض محال اور جدلی طریقے پر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی خالق ہے تو سائل کہے گا کہ اسے پیدا کرنے والے کے خالق کو کس نے پیدا کیا؟ پھر پیدا کرنے والے کے خالق کے خالق کو کس نے پیدا کیا؟ تو اس طرح ایک ایسا سلسلہ چل نکلے گا جس کی کوئی انتہاء نہیں تو یہ عقلی طور پر بھی محال ہے۔
یہ کہنا کہ مخلوق ہر چیز کے خالق پر جا کر ختم ہو جائے اور اس خالق کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے سوا سب کا خالق ہے تو یہ تو عقل اور منطق کے موافق ہے اور وہ خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ چونکہ ماضی قریب میں سائنس کا ایک مفروضہ تھا جس نے الحاد جیسی سوچ کی بنیاد رکھی جس کے مطابق کائنات کا کوئی خالق و مالک نہیں اور وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، کائنات اپنی حدود خود ڈیفائن کرتی ہے اور خودبخود اپنے آپ کی خالق ہے۔
چونکہ یہ نظریہ ماضی قریب میں نئ نئ ایجاد تھی اسی لیے دین و دنیا سے بیزار لوگوں کو اپنی معاشی و سماجی ضروریات کے فقدان ہونے کے ناطے انہوں نے اس نظریے کو بڑی شان و شوکت سے قبول کیا اور سمجھ لیا کہ ہم بس بغیر مقصد کے ہیں اور کائنات خود اپنی خالق ہے۔ اس نظریے نے عوام الناس کو نیکی بدی، اور اس کے اخروی احوال سے بیگانہ کر دیا۔ لہٰذہ یہ نظریہ مقبولیت اختیار کر گیا لیکن چونکہ قدرت الٰہی نے کائنات کے قوانین لاگو کیے ہیں اور اس ذاتِ ربانی نے اس نظریہ کو جلد ہی بے اصل و بے بنیاد کر دیا اور یہ تھی بگ بینگ کی تھیوری۔
چنانچہ سائنسی خلقوں میں مفروضات کوئی اہمیت نہیں ہوتی، سائنس حقائق اور تجربات پر کوئی فیصلہ صادر کرتی ہے جس کا انکار فزکس کے اصولوں کے خلاف ہوتا ہے۔ بگ بینگ تھیوری نے بہت سے نئے انکاشاف کیے جن میں بنیادی یہ تھا کہ کائنات ایک نقطہ آغاز سے ایک زور دار دھماکے سے شروع ہوئی اور اسطرح انگنت اربوں کھربوں گلیکسیز، ستارے، سیارے وجود میں آئے، چونکہ کائنات کا سارا ماحض یک جان تھا جس کے پھٹنے سے کائنات، زمان و مکان، وقت اور مادیات کے اشکال اختیار کر گئی۔
اس نظریہ نے تمام سابقہ ملحدانہ عقائد و نظریات کو جڑ سے اکھاڑ دیا کیونکہ ملحدین یہ کلیم کرتے تھے کہ کائنات ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔ اب چونکہ نفس و شیطان انسان کے کھلے کھلے ازلی دشمن ہیں اس لیے شیطان نے ایک مفروضہ متعارف کروا دیا کہ کائنات کا سارے کا سارا مادہ یک جان تھا اور وہ یک جان مادہ خودبخود قائم و دائم ہے اور خود اپنا خالق ہے۔
یہ سوال بظاہر ملحدین کے بچگانہ زہن کی عکاسی کرتا ہے، اس طرح تو پھر ہم ملحدین سے بھی ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر ہی لیتے ہیں کہ اگر وہ مادہ خودبخود تھا تو خدا خودبخود کیوں نہیں ہو سکتا؟ قیامت تک تمام ملحدین و منکرین کو میرا اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کا کھلم کھلا چیلنج ہے کہ کائنات کو خودبخود بننے کو ماننے اور خدا کے خودبخود بننے کا انکار دلائل و منطق اور فلسفہ سے کریں۔
یہ سوال ہی بالکل بے تُکا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ "نیلے رنگ کی خوشبو کیسی ہوتی ہے؟" نیلا رنگ اُن چیزوں کے زمرے میں نہیں آتا جن کی اپنی کوئی خوشبو ہوتی ہے۔ پس یہی اِس سوال کی بنیادی ترین خامی ہے۔ جس طرح ہم نے نیلے رنگ کے بارے میں بیان کیا بالکل اُسی طرح خُدا کی ذات اِس جہان کی سب چیزوں کے کسی بھی ایسے زمرے میں نہیں آتی جو تخلیق ہوئی ہو یا جس کے موجود ہونے کا کوئی نہ کوئی سبب یا وجہ ہو۔ نہ تو خُدا کے وجود میں آنے کا کوئی سبب ہے، اور نہ ہی خُدا کسی مخلوق کی طرح تخلیق ہوا۔ وہ تو واجب الوجود ہے۔ ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ تک رہے گا۔
ہم یہ بات کیسے جانتے ہیں؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ نیست سے "کچھ بھی نہیں" پیدا ہوتا۔ لہٰذا اگر مان لیا جائے کہ کوئی ایسا وقت موجود تھا جب "کچھ بھی نہیں" تھا تو اُس "کچھ بھی نہیں" میں سے کچھ بھی نہیں پیدا ہو سکتا۔ لیکن ہم اِس حقیقت کو جانتے ہیں کہ اِس کائنات میں بہت ساری چیزیں موجود ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ کائنات میں اِن ساری چیزوں کے وجود سے پہلے ایسا نہیں تھا کہ پوری کائنات میں"کچھ بھی نہیں" تھا، بلکہ کوئی نہ کوئی ذات یا قوت لازمی طور پر موجود تھی۔ اور اُسی ہمیشہ سے موجود ذات، ہستی یا طاقت کو ہم خُدا کہتے ہیں۔
خُدا وہ ذات ہے جس کے موجود ہونے کا کائنات میں کوئی سبب نہیں جبکہ اِس ساری کائنات میں موجود ہر ایک چیز کے وجود کا واحد سبب وہی خُدا ہے۔ خُدا وہ ذات ہے جسے کسی نے کبھی تخلیق نہیں کیا لیکن وہ اِس ساری کائنات کی ہر ایک چیز کا خالق ہے۔ ہر مخلوق کے لئے خالق پیدا کرنے والی ذات کی ضرورت ہے، اس لئے کہ ماضی اور مستقبل میں آنے والی ساری کائنات کے لئے کسی ایسے خالق کا ہونا ضروری ہے، جس نے ان کو وجود بخشا ہو۔
کیونکہ کائنات کی کسی بھی مخلوق کا خودبخود یا اتفاقی طور پر وجود میں آ جانا، ناممکن ہے، ایسا اس لئے محال ہے کہ کوئی بھی مخلوق خودبخود وجود میں نہیں آ سکتی، کیونکہ کوئی بھی اپنے آپ کو پیدا نہیں کر سکتا ہے، اور اس لئے بھی کہ مخلوق اپنے وجود میں آنے سے پہلے ایک معدوم چیز تھی، اور جو چیز کبھی معدوم رہی ہو، وہ بعد میں کبھی خالق کیسے ہو سکتی ہے؟ ، اس لئے بھی کہ ہر فناء ہونے والی چیز کے لئے کسی فناء کرنے والی ذات کا ہونا ضروری ہے۔
اور اس لئے بھی کہ کائنات کا یہ انوکھا نظام، اس میں پائی جانے والی چیزوں میں یہ ہم آہنگی، اسباب و مسبّبات کے درمیان یہ بے مثال ربط، اور کائنات کی چیزوں کا آپسی تعلق اس چیز سے انکار کرتا ہے کہ اس کائنات کا وجود یونہی اتفاقاً ہوگیا ہو۔ چنانچہ ہر مخلوق کے لئے ایک خالق ہے، اور جب یہ ناممکن ہے کہ یہ مخلوق خود اپنے آپ کو وجود بخشے، یا اتفاقی طور پر اس کا وجود ہوگیا ہو، تو یہ بات طے ہوگئی کہ اس کائنات کو وجود بخشنے والی کوئی ایک ذات ہے، اور وہ اللہ ہے، جو سارے جہانوں کا پالنہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی عقلی ثبوت کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ:
{کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خودبخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ }(الطور: 35)
یعنی یہ لوگ کسی خالق کے بنا پیدا نہیں ہوئے ہیں، اور نہ ان لوگوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کر لیا ہے، تو پھر یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ ان کا ایک خالق ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ ہے، اسی لئے جب حضرت جبیر بن مطعمؓ نے نبئ اکرم ﷺ کو سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا، اور جب آپ اس آیت پر پہنچے:
{کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خودبخود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں۔ }(الطور: 35۔ 37)
اس وقت حضرت جبیر مشرک تھے تو آپ نے کہا: "میرا دل اڑھنے لگا" (اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی کائنات و مخلوقات میں پائی جانے والی ظاہری نشانیاں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔ }(یونس: 101)
اس لئے کہ آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق (پروردگار) ہے، اور اس بات کا یقین پیدا کرتا ہے کہ وہی ربّ ہے۔ دیہات کے ایک شخص سے یہ پوچھا گیا کہ تم نے اپنے ربّ کو کیسے پہچانا؟ تو اس نے جواب دیا کہ پاؤں کے نشان راہرَو کے گزرنے کی دلیل ہے، اور اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے لئے شناخت ہے، تو یہ بُرجوں والا آسمان، یہ پھیلی ہوئی زمین، اور یہ موجیں مارنے والے سمندر کیا سننے اور دیکھنے کی کامل قدرت رکھنے والی ذات کے وجود کی دلیل نہیں ہیں؟
ساری انسانیت چاہے وہ اپنے کمتر و مادیات کے علم کی چوٹی پر پہنچ جائے، پھر بھی وہ غیب و پوشیدہ چیزوں کا پردہ فاش کرنے میں عاجز و قاصر ہے، اور اس عاجزی کو دور کرنے کا واحد وسیلہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان و یقین ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال کے دوسرے جز پر کہ ہم کیسے مان لیں کہ کونسا خدا سچا ہے، مسلمانوں والا یا کفار والا یا کوئی اور؟
سابقہ ساری بحث سے یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ خدا کا وجود ضروری ہے اور اسی نے اتنی وسیع و غریض کائنات ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کی اور خدا ازل سے خودبخود قائم و دائم ہے اور ساری کائنات کو قائم رکھنے والا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں انکی کڑیاں کسی نہ کسی جگہ آ کر الہامی مذہب سے جا ملتی ہیں وہی الہامی مذہب جو سیدنا ابوالبشر جناب آدم کو الہام ہوا یا جو مذہب نسل در نسل امت در امت چلتا چلتا آج دین اسلام کی اصل ہے۔ تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات ایک ہی تھیں اور آج تک بنیادی تعلیمات میں کوئی خاص رد و بدل نہیں ہوئی۔