پھر یہ وہاں سے حسب موقع و ضرورت تئیس سال تک رسول اللہ پر نازل ہوتا رہا۔ البتہ سورة علق کی پہلی پانچ آیات اسی رات رسول اللہ پر غار حرا میں نازل ہوئی تھیں۔۔ [2] یعنی قرآن کریم کے نازل کرنے سے ہمارا مقصود یہ تھا کہ اس سے تمام اہل عالم کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے اور ان کی گمراہی اور برے اعمال کی سزا سے انہیں ڈرایا جائے۔
معارف القرآن:
(لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے۔ اس رات کو مبارک فرمانا اس لئے ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر بیشمار خیرات و برکات نازل ہوتی ہیں اور قرآن کریم کا شب قدر میں نازل ہونا قرآن کی سورة قدر میں تصریح کے ساتھ آیا ہے۔ (آیت) انا انزلنہ فی لیلة القدر، اس سے ظاہر ہوا کہ یہاں بھی لیلة مبارکہ سے مراد شب قدر ہی ہے۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) سے یہ بھی منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں ابتداء دنیا سے آخر تک اپنے انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمائی ہیں وہ سب کی سب ماہ رمضان المبارک ہی کی مختلف تاریخوں میں نازل ہوئی ہیں۔
حضرت قتادہ نے بروایت واثلہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ صحف ابراہیمؓ رمضان کی پہلی تاریخ میں اور تورات رمضان کی چھٹی تاریخ میں، زبور بارہویں میں، انجیل اٹھارویں میں اور قرآن چوبیس تاریخ گزرنے کے بعد یعنی پچیسویں شب میں نازل ہوا۔ (قرطبی)۔ قرآن کے شب قدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے پورا قرآن سماء دنیا پر اسی رات میں نازل کردیا گیا تھا۔ پھر تئیس سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا رسول اللہ (ﷺ) پر نازل ہوتا رہا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ہر سال میں جتنا قرآن نازل ہونا مقدر ہوتا تھا اتنا ہی شب قدر میں لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل کردیا جاتا تھا۔ (قرطبی)۔ اور بعض مفسرین عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لیلہ مبارکہ سے مراد شب برات یعنی نصف شعبان کی رات قرار دی ہے مگر اس رات میں نزول قرآن دوسری تمام نصوص قرآن اور روایات حدیث کے خلاف ہے (آیت) شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اور انا انزلنا فی لیلة القدر جیسی کھلی نصوص کے ہوتے ہوئے بغیر کسی قوی دلیل کے نہیں کہا جاسکتا کہ نزول قرآن شب برات میں ہوا۔ البتہ شعبان کی پندرھویں شب کو بعض روایات حدیث میں شب برات یا لیلة الصک کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس رات کا مبارک ہونا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا ذکر ہے۔
اس کے ساتھ بعض روایات میں یہ مضمون بھی آیا ہے جو اس جگہ لیلہ مبارکہ کی صفت میں بیان فرمایا ہے یعنی (آیت) فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ۔ امراً من عندنا یعنی اس رات میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ ہماری طرف سے کیا جاتا ہے جس کے معنی حضرت ابن عباس یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ رات جس میں نزول قرآن ہوا، یعنی شب قدر، اسی میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم امور جن کے فیصلے اس سال میں اگلی شب قدر تک واقع ہونے والے ہیں طے کئے جاتے ہیں کہ کون کون اس سال میں پیدا ہوں گے، کون کون آدمی اس میں مریں گے، کس کو کس قدر رزق اس سال میں دیا جائے گا۔
یہی تفسیر دوسرے ائمہ تفسیر حضرت قتادہ، مجاہد، حسن وغیرہم سے بھی منقول ہے اور مہدوی نے فرمایا کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ تمام فیصلے جو تقدیر الٰہی میں پہلے ہی سے طے شدہ تھے اس رات میں متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، کیونکہ قرآن و سنت کی دوسری نصوص اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے ازل ہی میں لکھ دیئے تھے۔ تو اس رات میں ان کے طے کرنے کا حاصل یہی ہوسکتا ہے کہ قضا و قدر کی تنفیذ جن فرشتوں کے ذریعہ ہوتی ہے اس رات میں یہ سالانہ احکام ان کے سپرد کردیئے جاتے ہیں۔ (قرطبی)۔
چونکہ بعض روایات حدیث میں شب برات یعنی شعبان کی پندرہویں شب کے متعلق بھی آیا ہے کہ اس میں آجال و ارزاق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اس لئے بعض حضرات نے آیت مذکورہ میں لیلہ مبارکہ کی تفسیر لیلة البرات سے کردی ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ یہاں اس رات میں نزول قرآن کا ذکر سب سے پہلے ہے اور اس کا رمضان میں ہونا قرآن کی نصوص سے متعین ہے۔ اور شب برات کے متعلق جو یہ مضمون بعض روایات میں آیا ہے کہ اس میں ارزاق وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں اول تو ابن کثیر نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ روایت مرسل ہے اور ایسی روایت نصوص صریحہ کے مقابلہ میں قابل اعتماد نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ رزق اور موت وحیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اس رات کی فضیلت میں بھی کوئی قابل اعتماد حدیث نہیں آئی لیکن روح المانی وغیرہ کے فیصلے نصف شعبان کی رات میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں اگر یہ روایت ثابت ہو تو اس طرح دونوں قول میں تطبیق ہو سکتی ہے ورنہ اصل بات جو ظاہر قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ سورة دخان کی آیت میں لیلہ مبارکہ اور فیہا یفرق وغیرہ کے سب الفاظ شب قدر ہی کے متعلق ہیں۔
رہا شب برات کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے جو بعض روایات حدیث میں منقول ہے مگر وہ اکثر ضعیف ہیں اس لئے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے لیکن شب برات کی فضیلت کی روایات اگرچہ با عتبار سند کے ضعف سے کوئی خالی نہیں لیکن تعد دطرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرلینے کی بھی گنجائش ہے۔
بیان القرآن:
آیت 3 اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَـیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ " یقینا ہم نے اس کو نازل کیا ہے ایک مبارک رات میں"۔ یہ مضمون سورة القدر میں واضح تر انداز میں آیا ہے: اِنَّآاَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَـیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ کہ ہم نے اسے " لیلۃ القدر " میں نازل فرمایا۔ چونکہ قرآن مجید میں عام طور پر اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ آئے ہیں اس لیے اس خاص رات کا ذکر بھی دو مرتبہ آیا ہے۔ وہاں" لیلۃ القدر " کے نام سے اور یہاں" لیلۃ مبارکۃ " کے نام سے۔۔ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ " یقینا ہم خبردار کردینے والے ہیں۔ "۔ رسالت اور انزالِ کتب کا اصل مقصد لوگوں کا انذار (خبردار کرنا، آگاہ کرنا) ہے۔ جیسے سورة المدثر میں حضور (ﷺ) کو حکم دیا گیا: یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ " اے چادر اوڑھنے والے، اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے "۔
دنیا کی زندگی اصل زندگی نہیں ہے۔ یہ تو اصل " کتاب زندگی " کے دیباچے کی مانند ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے لوگوں کو خبردار () کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسلؓ اور الہامی کتب کے ذریعے ہدایت کے ایک سلسلے کا اہتمام فرمایا تاکہ ان میں اصل اور ہمیشہ کی زندگی کو بہتر بنانے کا شعور پیداہو اور وہ اس کے لیے تیاری کرسکیں : وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌط وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ 7 لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ (العنکبوت) " یہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، جبکہ آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا۔
تفہیم القرآن:
اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ: اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ، اور یہاں فرمایا کہ: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی: شَھْرُ رَمَضَا نَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن (البقرہ، 185)
آسان ترجمہءقرآن:
اس سے مراد شب قدر ہے، کیونکہ اسی رات میں قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا، اور پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے آنحضرت (ﷺ) پر نازل ہوتا رہا۔
تفسیر السعدی:
﴿فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ﴾ یعنی خیر کثیر اور برکت والی رات میں، اس سے مراد لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہترین کلام کو سب راتوں اور دنوں سے افضل رات میں مخلوق میں سے افضل ہستی پر معززین اہل عرب کی زبان میں نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے سے ان لوگوں کو ڈرائے جنہیں جہالت نے اندھا کر رکھا ہے اور بدبختی ان پر غالب آچکی ہے۔ پس وہ اس کے نور سے روشنی حاصل کریں، اس کی ہدایت کو اختیار کریں اور اس کے پیچھے چلیں، اس طرح انہیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوگی۔ اس لئے فرمایا: ﴿إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ فِيهَا﴾ " بے شک ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس)فضیلت والی(رات میں۔ " جس میں قرآن نازل ہوا۔
تفسیر ثنائی:
تحقیق ہم (اللہ) نے وہ کتاب بابرکت رات یعنی رمضان کی لیلۃ القدر میں اتاری ہے یعنی قرآن مجید کا نزول رمضان کی لیلۃ القدر میں شروع ہوا۔ تاکہ لوگ بدکاریاں چھوڑ دیں اور نیکی اختیار کریں بے شک ہم اس کتاب کے ساتھ لوگوں کو ڈرائیں گے۔ اس بابرکت رات میں قرآن کے ذریعہ تمام باحکمت امور یعنی احکام متعلقہ نجات کی تفصیل کی جائے گی یہ سب کچھ ہمارے حکم سے ہوا ہے کیونکہ ہم ہی اس کتاب کو اے نبی تیری طرف بھیج رہے ہیں اللہ جس سے کوئی خدمت لے اس کا فضل ہے اس لئے یہ نزول قرآن تجھ پر محض تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے ورنہ کسی کا اس پر استحقاق نہیں (لیلۃ مبارکہ: اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے مگر ہم نے جو معنی لکھے ہیں یہ معنی دونوں گروہوں (محدثین اور متکلین) کے نزدیک معتبر ہیں۔
تفسیر اشرف الحواشی:
برکت والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے جیساکہ سورۃ قدر میں ہے اور سورۃ بقرہ میں ہے (اشھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔ (آیت 85) اس رات کو قرآن کے اترنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس میں اترنے کا سلسلہ شرع ہوا یا اس میں سارے کا سارا قرآن لوح محفوظ سے اتار کر پہلے آسمان میں بیت العزۃ میں رکھ دیا گیا اور پھر 23 برس تک تدریجا ً اترتا رہا۔ آپ اردو، عربی، فارسی یا کوئی بھی تفسیر دیکھ لیں سبھی تفاسیر میں لیلة القدر اور لیلة مبارکہ دونوں ایک ہی رات ہے لہٰذہ اس کے بعد حق قبول نہ کرنا احمقانہ فعل ہے