چونکہ ہر مذہب کے راہبوں، پادریوں یا مذاہب کے پیشواؤں نے شیطانی روش میں الہامی صحیفوں اور کتابوں میں منگھڑک روایات شامل کر لیں جس کے ذریعے انہوں نے حتی الامکان اپنی نفسی خواہشات کا پیٹ بھرا لیکن چونکہ واحدانیت کا مرکز و منبع صرف اللہ جلاشانہ ہی ہے اور مذہبیوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود رب کی ربوبیت کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ بیسک کنسییپٹ آف گاڈ یعنی توحید کے کوئی نئے معنی ایجاد ہو جائیں۔
اسی لیے جس کسی نے جو بھی مذہبی عقائد و نظریات رکھے، جتنی بھی ملاوٹ کی، مذاہب نے جتنے بھی دور، جتنے بھی عروج و زوال دیکھے، جتنے بھی نشیب و فراز دیکھے لیکن ان میں خدا کا تصور ہمیشہ سے موجود و قائم رہا ہاں جس کسی نے مذہب کا سرے سے ہی انکار کر دیا پھر اس سے ربوبیت نے اپنا شعور چھین لیا جیسا کہ ملحدین کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کونسا خدا سچا، کونسا خدا جھوٹا؟ بے بنیاد بات ہے کیونکہ خدا ایک ہی ہے اور وہی سچا خدا ہے۔ کیونکہ جو خدا کفار کا ہے یا جو خدا پاسیوں، عیسائیوں کا ہے وہی خدا امت مسلمہ کا ہے۔ البتہ ہر ایک کی خدائی تشریح چاجائیکہ مختلف ہو لیکن بنیادی صفاتِ خدا ایک جیسی ہیں جن کا چیدہ چیدہ بیان درج ذیل ہے۔
یہاں وہ عقائد درج کیے جا رہے ہیں جو تقریباً تمام مذاہب میں پائے جاتے ہیں۔
واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال، قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔
وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔
اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔
اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہو سکیں کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔
۔ جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں
اس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل۔
۔ ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں
صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔
وہ حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔
۔ وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔
۔ جو چیز مُحال ہے، ﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہو سکے۔
وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُس چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب و نقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جل، بے حیائی وغیرہ عیوب اُس پر قطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحالات پر قادر نہ ہوگا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان۔ نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔
حیات، قدرت، سننا، دیکھنا، کلام، علم، اِرادہ اُس کی صفاتِ ذاتیہ ہیں، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔
مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے، حادث و مخلوق نہیں۔ اس کا کلام آواز سے پاک ہے۔ آس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔
وہ غیب و شہادت سب کو جانتا ہے، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے۔
وہی ہر شے کا خالق ہے، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔
حقیقتاََ روزی پہنچانے والا وہی ہے، ملائکہ و غیر ہم وسائل و وسائط ہیں۔
ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔
چنانچہ حاصلِ کلام یہی ہے کہ مختلف مذاہب میں جہاں جہاں مرکزِ حیات خدا کے وجود کے گن گاتی ہے یا تصورِ خدا کے ازلی کنسیپٹ پر پورا اترتی ہے وہاں وہاں خدائی تصور کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اسی ذات کو خدا مانتے ہیں جو خوبخود زندہ و قائم ہے۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ خدا کی کوئی مثل نہیں ہے اور جو مذاہب خدا کی مثل یا اسکا شریک مانتے ہیں وہ گمرہ ہیں۔
اب جس ذاتِ بابرکت میں اوپر بیان کی گئیں ساری کی ساری صفات من و عن پائی جائیں وہی حقیقی خدا ہے اب چاہے اسے کوئی کسی بھی نام سے جانے یا پکارے۔ ملحدین سے گزارش ہے کہ آپ کسی بھی خدا کو مان لیں کیونکہ اصل بحث خدا کے وجود کا ماننا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ اللہ کو خدا مان لیں، آپ بھگوان، ایشور، یا جسے آپ کی عقل خدائی صفات کا حامل گردانے آپ اسی کو مان لیں، پھر وہ ذاتِ واحد خود آپ کو صراطِ مستقیم پر لے آئے گی۔
الہامی مذاہب میں اگر اسلام کی بات کریں تو وہ تو یہ کہتا ہے کہ سارے الہامی مذاہب ایک ہی ہیں اور ہر رسول نے ایک ہی خدا کی بات کی اور رسول اللہ ﷺ اسلام کے پہلے نہیں آخری رسول ہیں اور یہ تو لوگوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات پیدا کر لیے اور اپنے اپنے ناموں سے مذہب بنا ڈالے، ورنہ سب ایک مسلمان ہی تھے اور ہر ایک کا مذہب اسلام ہی تھا۔ ارشادِ ربانی ہے۔
لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنہی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آ جانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی راہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔
قطع نظر اس بحث کے کہ کس کا خدا اصل خدا ہے، الہامی اور غیر الہامی مذاہب سب میں خدا کا تصور ضرور پایا جاتا ہے، اگر اصل کی تلاش ہے، تو تحقیق کریں، تاریخ کا مطالعہ کریں، مذاہب کا مطالعہ کریں اور عقل کا استعمال کریں اور پہنچ جائیں اصل خدا تک! آخر کو ہم انسانوں نے علمی اور تحقیقی رویے کے ذریعے بڑے بڑے کائنات میں انکشافات کیے ہیں چاہے وہ نظر آتے ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، اسی طرح اصل خدا کو بھی دریافت کر لیں گے۔ ملحدین و غیر مسلم سے مؤدبانہ عرض ہے کہ حقائق کو پرکھین۔ قرآن نے بہت واضح طور پر خدا کی مکمل لیکن مختصر ڈیفینیشن کر دی ہے، ترجمہ:
کہو اے محبوب تم کہ وہ اللہ ایک ہے، وہ اللہ بے نیاز ہے، اسکی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی، اور نہیں اس کا کوئی ہم سر۔
اب مختصراً یہ پانچ صفات اگر کسی میں پائی جائیں وہی اصل خدا ہے۔ جو واحد ہو اور اس جیسا کوئی نہ ہو، وہی جو ساری کائنات اور مخلوقات سے بے پروا ہو، کوئی اس کو عاجز نہ کر سکے، جو سب کو عاجز کرنے والا ہو، کائنات میں اسکے حکم کے خلاف کوئی جا نہ سکتا ہو، کوئی پتا جس کے ہلائے بغیر ہل نہ سکتا ہو، ساری دنیا اسکی بندگی کرے یا نہ کرے اسے ملائکہ، جن و انس کی بندگی کی ضرورت نہیں، ہاں مخلوقات کو اسکی بندگی کی ضرورت ہے۔
جس کی کوئی اولاد نہ ہو، جو خود کسی کی اولاد نہ ہو، اور آخری جس جیسا کوئی نہ ہو۔ اگر یہ صفات کسی ذات میں نظر آتی ہیں تو وہی اصلی خدا ہے، وہی حقیقی وجود، وہی وحدہ لاشریک ہے۔ آئیے ہم سب اُس اصلی خدا کی پہچان حاصل کریں اور نجات پا لیں۔