لفظ بدعت، بدع سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا ایسے طریقے پر ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔ بدعت سنت کی ضد ہے۔ لفظی معنی میں ہر نیا کام نئی چیز بدعت ہی ہے جیسا کہ ارشاد ہے بدیع السموت والارض (آسمانوں اور زمین کی تخلیق)، لیکن چونکہ ہم جب بھی اس لفظ کو بولتے یا سنتے ہیں تو اس کو اس کی شریعی اصطلاع میں استعمال کرتے ہیں۔
آج کے دور میں جتنے بھی مسالک ہیں ہر ایک کے ہاں بدعت کے معنی مختلف ہیں جس کی بنا پر عامة الناس میں غلط اور کمزور اسلامی نظریات مشہور ہو گئے ہیں، چونکہ دینِ حنیف ہی دینِ نجات ہے اسی لیے اصل دین اور شریعت کے تابع ہونا ہر بالغ و عاقل مسلمان پر فرض ہے۔ میں بحیثیت ایک ادنیٰ طالب علم و فقیر نے کوشش کی ہے کہ بدعت کے بارے کچھ رقمطراز کیا جائے۔
انّ خیرالحدیث کتاب اللہ و خیرالھدی ھدی محمّد ﷺ وانّ خیرالامورعوازمھا و شرالامورمحدثاتھا کلّ محدثۃ بدعۃ وکلّ بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النّار۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس کسی نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی چیز کی ایجاد کی جو دین سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیاجو ہمارے دین کے طریقے پر نہیں ہے تووہ مردودہے (متفق علیہ)
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے کہ مَنْ اَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ یعنی جس نے ہمارے اس دین میں ایسا طریقہ ایجاد کیا جس کا تعلّق دین سے نہیں ہےتو وہ مَرْدُود ہے۔ (بخاری)
لہذا اسلام نے ایک قائدہ اور اصول بڑی وضاحت سے متعین کر دیا ہے کہ ہر نیا کام جس کی اصل نہ جنابِ رسول اللہ ﷺ سے، نہ صحابہؓ سے، نہ تابعین و تباتابعین اور نہ ہی سلف و صالحین سے سے ملے وہ مردود اور جہنم کا سبب ہے، اسی قائدے کے پیشِ نظر امام یحییٰ بن شَرف نَوَوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں هذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الاسلام یعنی یہ حدیثِ مقدسہ اسلام کے اُصولوں میں سے ایک عظیم اُصول ہے۔ (شرح النووی علی مسلم)
بظاہر تو بدعت کی شرعی اصطلاح اور اس کا مفہوم نہایت سمجھنا نہایت آسان و مختصر ہے لیکن فی زمانہ عوامی مسائل میں اتنی پچیدیاں آ گئی ہیں اور اتنے نئے نئے کام ایجاد ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے حقیقی سنت اور بدعت میں فرق کرنا لگ بھگ ناممکن ہوگیا ہے کیونکہ ہر ایک مسلک نے اپنے عقائد و نظریات کو سنت کہنا شروع کر دیا ہے جس سے اس مسلک کے پیروکار مجبوراً کم علمی کی وجہ سے اس نئے کام کو ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں چنانچہ راقم نے مناسب سمجھا کہ بدعات و اضافاتِ شریعہ کو کھول کر بیان کر دے۔ اب چونکہ مسلکی اختلافات کی بھرمار ہے اور کسی کو اس کے نقائص بتانا ان سے دشمنی مول لینے سے کم نہیں۔ اسی لیے امن و امان کا ماحول قائم رکھتے ہوئے صرف فقیر انہیں اضافات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہے جو کہ عوام الناس میں مشہور ہیں لیکن تمام مسلک کے علماء ان کو بدعات ہی تصور کرتے ہیں۔
بعض مفکرین و مجتہدین نے بدعت کی بہت سے اقسام لکھی ہیں ان میں زیادہ مشہور دو ہیں
بدعتِ حسنہ: ایسا نیا کام جو قراٰن و حدیث کے مخالف نہ ہو اور مسلمان اسے اچھا جانتے ہوں، تو وہ کام مَردُود اور باطِل نہیں ہوتا۔
بدعتِ سَیِّئَہ: دین میں ایسا نیا کام کہ جو قراٰن و حدیث سے ٹکراتا ہو۔
لیکن فقیر کی ادنیٰ و کمزور رائے یہی ہے کہ بدعت کو بدعت ہی کہا جائے، چونکہ حدیث میں صرف لفظ: بدعت: ہی استعمال ہوا ہے اسی لیے اقسام کے جنجھٹ میں پڑنا عوامی مشکلات کا سبب ہے کہ پہلے پہل عوام کو بدعت اور پھر اس کی اقسام یاد کروائی جائیں۔ اب جیسا کہ حدیث میں ہے کہ
مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہ، کُتِبَ لَہ، مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہ، کُتِبَ عَلَیْہِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْءٌ
"جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کیا اور اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی طرح اَجْر ملے گا اورعمل کرنے والوں کے اَجْر و ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالااور اُس کے بعد اُس پرعمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی مانند گناہ ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (مسلم)۔
اس حدیث کے پیشِ نظر علماء کرام نے بدعت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے لیکن اس حدیثِ مبارکہ میں کہیں بھی صراحت کے ساتھ لفظ بدعت استعمال نہیں ہوا جیسا کہ کلّ محدثۃ بدعۃ وکلّ بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النّار والی حدیث میں لفظ "بدعة" صراحت سے موجود ہے۔ اسی لیے مجھ ادنیٰ کی رائے میں ہمیں بدعت حسنہ کو سنت اور بدت سیہ کو بدعت ہی کہہ لینا چاہیے اور یقیناً ہر بدعتِ سیہ خلاف سنت ہے اور ہر بدعتِ حسنہ پکی پکی سنت ہے۔ لہذل دو ہی صورتیں بچتی ہیں (1) بدعت (2) سنت۔
بدعت ہر نیا کام جس کی اصل دین میں موجود نہ ہو اور سنت وہ جس کی اصل کسی نہ کسی صورت ہمیں رسولﷺ، صحابہ کرام، تابعین و تبا تابعین اور اسلاف سے ملتی ہو یا جس کا کرنا اجماع سے ثابت ہو۔ ہر وہ کام جو کسی نہ کسی طرز پر اسلاف تک پہنچے وہ کام سنت کے دائرہ میں آتا ہے لہذا جب کوئی کام سلف و صالحین سے ملے وہ یقیناً رسولﷺ کے طریقے کے مطابق ہی ہوگا کیونکہ سلف، تباتابعین سے اس کا ثابت ہونا لیتے ہیں، تباتانعین، تابعین سے، تابعین، صحابہ کرامؓ سے اور صحابہ کرام، براہ راست سیدنا خاتم النبین جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے۔
حدیث میں ہے کہ حضرت عرباض بن ساریہؓ فرماتے ہیں : ایک دن صبح کی نماز کے بعد نبی کریم ﷺ نے ہمیں انتہائی بلیغ وعظ فرمایا جس سے ہر آنکھ سے آنسو رواں ہو گئے اور سب کے دل لرز گئے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کی: یہ تو اس شخص کی نصیحت کی طرح ہے جو رخصت ہو رہا ہو، یا رسولَ اللہ!ﷺ، آپ ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا "میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے تو ا س کا بھی حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ بے شک تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچتے رہنا کیونکہ یہ گمراہی ہے۔ تم میں جو شخص یہ زمانہ پائے اسے میرا اور میرے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والے خُلفاء کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور تم سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ (ترمذی)
ایک جگہ اور روایت ہے کہ ان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ وتفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یارسول اﷲقال ما انا علیہ واصحابی۔ (رواہ الترمذی وفی روایۃ احمد و ابی داود، عن معاویۃ ثنتان و سبعون فی النار وواحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ)
یعنی، بے شک بنی اسرائیل کے بہتر72 فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر 73 فرقے ہوجا ئیں گے ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی ہیں صحابہؓ نےعرض کی وہ ناجی فرقہ کون ہے یارسول اللہ ﷺ، ارشاد فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو۔
دوسری روایت میں فرمایا وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سواد اعظم فرمایا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص: 30، قدیمی کتب خانہ)
ان احادیث کی روشنی سے مندرجہ ذیل نقائط کی وضاحت ہوتی ہے: 1۔ اللہ سے ڈرنے کی وصیت 2۔ امیر کی اطاعت 3۔ نئی باتوں سے بچنا 4۔ خلفاء کے طریقے پر چلنا 5۔ سنت کو مضبوطی سے پکڑنا اور 6 سواداعظم کی جماعت میں رہنا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسی لیے اسلام نے ہر اچھے اور برے پہلو پر روشنی ڈالی ہے، دین مکمل ہو چکا ہے۔ لہذا جو طریقہ ہمیں سنت سے ملے اسے اپنا لینا فرض ہے اور جو سنت کے خلاف ہو اسکو چھوڑ دینا لازم ہے اسی لیے ارشاد ہوا کہ جو اللہ کا رسول (ﷺ) تمہیں دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اسے چھوڑ دو۔
اتنا آسان قائدہ شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ملے کیونکہ دوسرے تمام مذاہب میں اور اس کی الہامی کتابوں نے بہت سی باتیں بعد کی شامل کردہ ہیں۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپبے اوپر لیا ہے لہذا قرآن کے سبھی فرامین و فیصلے اٹل ہیں جن کا بدلنا محال ہے ہاں البتہ اس نفسا نفسی کے زمانے میں بہت سی نئی نئی بدعات ایجاد ہو گئ ہیں جن کا جواز شریعت میں نہیں ملتا لہذا دین پر پورا پورا اترنے کے لیے بدعات کو چھوڑا لازم ہے۔
رسول خدا (ﷺ)کا وظیفہ شریعت الٰہی کولوگوں تک پہنچانا اور اسے اجراء کرنا ہے وگرنہ احکام اسلام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکتے اور کفار کی آنحضرت(ﷺ)سے اس درخواست کہ آپ اپنے دین میں تبدیلی لائیں یا ایسا قرآن لے کرآئیں جو ہماری مرضی کے مطابق ہو۔ کے جواب میں خد اوند متعال نے اپنے نبی ﷺ کوحکم دیا
(قُلْ مَا یَکُونُ لِی َنْ ُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیِ نْ َتَّبِعُِ لاَّ مَا یُوحَیِ لَیَِّ نِّی َخَافُِ نْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ) (سورہ یونس)
ترجمہ(اے رسول ﷺ!) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں۔ میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں (مسئلہ: انبیا کرام سلام اللہ علیہ کانافرمانی کرنا محال ہے، یہ بات صرف امت کو سمجھانے کے لئے بیان ہوئی) تو بڑے (کٹھن کے)دن سے ڈرتاہوں۔
انہی حقائق کی بناء پر بعض محقق علماء نے بدعت کی تعریف بایں الفاظ کی ہے
ادخال ما لیس من الدین فی الدین عنی، ہر وہ چیز جو دین میں داخل نہ ہو اسے دین میں داخل کرنا۔
وہی الامر المحدث الذی لم یکن علیہ الصحابة والتابعون ولم یکن مما اقتضاہ الدلیل الشرعی"۔ (کتاب التعریفات: 1/33۔ ط: دار المنار)
بدعت ایسا نیا طریقہ ہے جس پر نہ صحابہ کرام اور نہ ہی تابعین نے عمل کیا ہو اور نہ ہی اس پر کوئی شرعی دلیل ہو۔
بدعت کو سمجھنے کا کلیہ:
دین میں جدت طرازی کرنے والے ایک چیز جو دوسرے گروپ، جو بدعات کے خلاف ہیں، کے سامنےلاتے ہیں وہ یہ ہے: "کیا رسول الله ﷺ کے پاس فون، کاریں، انٹرنیٹ وغیرہ موجود تھا" یا اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز جملہ: "آپ بھی بدعت ہیں، کیوں کہ آپ رسول الله ﷺ کے وقت موجود نہیں تھے۔ ہر جدت جو ثابت نہ ہو جب تک کہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہ ہو حرام ہے اور دنیاوی معاملات میں ہر چیز حلال ہے جب تک کہ ہمارے پاس اسکےحرام ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔
نئی بات جو اسلام میں سے نہ ہو اور جس کو ثواب سمجھ کر کیا جائے (بدعت) صفر نمبر بلکہ منفی دس (جہنم)
نئی بات جس کو ثواب سمجھ کر نہ کیا جائے بلکہ ضروریات زندگی سے ہو (ضروریات زندگی) صفر نمبر، اگر اللہ چاہے تو ثواب دے سکتا ہے کیونکہ ضروریات زندگی سے آسانیان پیدا ہوتئ ہین (یہ لفظی یا معنوی بدعت ہے جسکا شریعت سے تعلق نہیں) (دنیا = حلال تک جب تک کہ مصدقہ متن کے ساتھ اس کے بر خلاف ثابت نہ ہو)
وہ بات جس کا ثبوت سلف سالحین سے ملتا ہو (سنت) دس نمبر (جنت کا سبب) (دین = ثبوت ہونا ضروری ہے ورنہ حرام ہے)