میں نے ان تمام بدعات کو لکھتے وقت بہت احتیاط برتی ہے تاکہ کسی کی دل آذاری نہ ہو اور نہ ہی بد امنی کی فضا قائم ہو لہذا کسی کی دل آذاری کے لیے پیشگی معذرت۔
1۔ آذان سے پہلے آج یہ بات بہت مشہور و معروف ہے کہ درود و سلام پڑھا جائے، چونکہ درود و سلام پڑھنا حکمِ ربی ہے لہذا اس کے پڑھنے کے لیے دلیل تو موجود ہے لیکن چونکہ اب عوام الناس کی بڑی تعداد یہی سمجھتی ہے کہ ہر آذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا ضروری ہے اور بعض تو اس کو واجب بھی سمجھتے ہیں اس لیے مجتہدین یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اس کو کبھی کبھار چھوڑ دیا جاِے تاکہ عوام الناس کو اس کی اصل کا علم ہو کہ یہ آذان کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا صریح حکم ہےکہ آذان کے ساتھ ہی پڑھا جائے۔ لہذا اس کو کبھی کبھار چھوڑ دینا چاہیے یا کبھی آذان کے بعد پڑھ لینا چاہیے۔ لیکن اس دورِ تغافل میں علماء بھی ضد پر ہیں، ایک طرف نفی والے علماء اور دوسری طرف اثبات کی کثرت۔ اسی لیے علماء کرام کو ایک بینچ پر آنا ہوگا تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔
2۔ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دینی کام پر اجرت نہیں لی جاتی کیونکہ دین کا کام اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے لیکن آج کے دور میں علماء اور عوام اجرت کے بغیر کوئی دینی کام نہیں کرتے بلکہ بڑی بڑی ڈیمانڈ کی جاتیں ہیں، ایک تلاوت یا بیان کا اتنا لاکھ، یا ایک نعت کا اتنا لاکھ اور اس کو انہوں نے اپنی روٹی روزی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور علت یہ بیان کرتے ہیں کہ رزقِ حلال عین عبادت ہے، پہلے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ دین کو رزق کا ذریعہ بنانا ہی جائز نہیں پھر اس کے اوپر ایک پکی پکی اجرت متعین کر لینا دوہرا وبال ہے۔
اسی کے پیشِ نظر محافل میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ نعت خوان کو اگر عوام و سامعین سے داد ملنا شروع ہو جائے تو وہ نعت یا کلام کو مذید لمبا کر دیتے ہیں تاکہ عوان دل کھول کر دولت لٹائے لیکن یہی عوام کسی غریب کو دس روپے بھی احسان کرکے دیتے ہیں، پھر ستم ظریفی یہی نہیں کہ پیسا شیشا لٹیایا اللہ اللہ سو بسم اللہ بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی تجارت ہو رہی ہے، ایک طرف اب پیسے اکٹھے کرنے والے بھی ساتھ لائے جاتے ہیں۔ عامة الناس یہ سمجھتی ہے کہ اسطرح پیسا لٹانا ثواب کا کام ہے اور اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے، ار ےبندے! ناں ناں، اللہ کی رضا نہیں بلکہ تو اسکا غضب خرید رہا ہے، اگر مدد ہی کرنی ہے تو چپکے سے کرو نہ کہ دکھلا دکھلا کر تاکہ دیکھا دیکھی سب لوگ اسی طرح کریں۔
کس نے کتنے پیسے لٹائے، پورا پورا حساب رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے علماء لاکھوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں جو کہ سرا سر توہینِ مذہب و اسلام ہے، اسطرح کا اسلام ہمیں اسلاف سے ہرگز نہیں ملا اور نہ ہی شریعت میں اس کی کوئی حقیقت ہے، لہذا میری تمام علماء حق سے گزارش ہے کہ اس بیماری کا جلد از جلد سدباب کیا جائے تاکہ نعت خوانی کے مبارک جذبہ کو پیسے کی نظر نہ لگ جائے اور کہیں نعت خوانی کا مقصد صرف بزنس ہی نہ رہ جائے۔
3۔ شادی بیاہ پر عوام الناس میں بہت سی غیر شرعی فضولیات رچ بس گئی ہیں جن کا شریعت اور اسلامی روایات سے دور دور کا تعلق نہیں۔ عام کیا، خاص و خاص اور اچھے بھلے مذہبی لوگ بھی شادی بیاہ میں غیر اسلامی رسومات کا ادا کرتے ہیں، اور باقائدہ اس کی تشہیر اور علیحدہ کارڈ اور پرچے چھپتے ہیں جن پر ہزاروں لاکھوں روپے کا ضیاع کیا جاتا ہے، مخلوط محافل میں مرد و زن بڑی دیدہ دلی سے ایک دوسرے پر نعرے کستے ہیں، رقص و گانا کی پوری بیٹھک سجھتی ہے، اکثر پرانی خواتین ان رسموں کو باقائدہ دین کا حصہ سمجھتی ہیں کہ اگر نہ کی تو شاید آسمان سر پر نہ آ جائے۔
ان رسومات کی بھرمار نے غریب آدمی کے لیے شادی و بیاہ کو بہت مشکل بنا دیا ہے کہ جہاں صرف نکاح کا حکم ہے وہاں ان رسموں کا ادا کرنا ضروریات دین میں شامل کر لیا ہے۔ مہندی، مایوں، برات و مکلاوا سب بعد کی ایجادات ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسکا تو دنیا سے بھی کوئی تعلق نہیں، یہ تمام رسومات ہمیں ہندووں کے ذریعے ملیں۔ لہذا ان تمام رسومات کو دین کا حصہ ماننا انتہائی کم عقلی و بددینی ہے اور اگر دین کا حصہ مان کر نہ بھی کیا جائے تو سراسر فضول خرچی ہے جو دینِ اسلامیہ میں حرام ہے لہذا ان سے بچنا چاہیے۔
ایک طرف جہیز کی ڈیمانڈ کرنا لڑکی والوں پر ظلم ہے اور اگر کوئی نہ دے تو ساری زندگی وہ بیچاری طعنے ہی سنتی گزار دیتی ہے، بحیثیت انسان ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کونسا کام عقل کے مطانق جائز ہے اورکونسا غلط۔ بس ہم لوگ دیکھا دیکھی جیسے ہمارے بڑے کرتے آئے بغیر سوچا سوچی من و عن کر رہے ہیں۔ پھر ستم در ستم کوئی پوچھنے والا بھی نہیں اور کوئی روکنے والا۔ بس لگے رہو ان شطانیات میں۔
4۔ قبروں پر ڈھول ڈھمکے کرنا، قبور کو سجدہ کرنا، چادریں چڑھانا وغیرہ۔ بہت سے ان پڑھ لوگ قبروں پر بہت سی فضولیات و بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں جیسا کہ وہاں ڈھول بجانا یا قبروں پر چادریں چڑھانا، بعض اوقات تو ان رسومات کو بڑے احترام کے ساتھ نبھایا جاتا ہے، لوگ دور دراز سے ڈھول باجوں اور رقص کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور مزارات ہر چادریں چڑھانے کی منتیں مانگتے ہیں یا ان چیزوں کو مرحوم کی خوشی یا اسکا تبرق حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں، پھر ہر سال مزاروں کوخاص دن غسل دیتے ہیں جس کا شریعت یا اسلاف میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
اکثر تو ان قبور کو سجدہ تک کرتے ہیں جو کہ ہر مسلک میں ناجائز و حرام ہے، کیونکہ سجدہ صرف رب کائنات کے لیے خاص ہے۔ مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ کے سوا کسی کے لیے نہیں غیر اﷲ کو سجدہ عبادت تو یقیناً اجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ہے۔ اگر تو کوئی بزرگوں کو خوش کرنے یا عبادت کی نیت سے سجدہ کرے گا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اگر تعزیماً کرے گا تو سخت گناہگار اور فاسق و فاجر کہلائے گا۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ قبور پر رنگ بھرنگے دھاگے باندھے جاتے ہیں یا قبور پر جا کر ہاتھوں میں مختلف دھاتوں کے کڑے پہنے جاتے ہیں جو سب کے سب بدعات میں سے ہیں۔ امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کو دیں۔ اسی طرح لوگ پہتہ قبریں یا بڑے بڑے کتبے لگاتے ہیں جو کہ پیسوں کا ضیاع بھی ہے اور ناجائز و حرام بھی۔ کیونکہ قبر والوں کو نہ تو ہماری چادروں کی ضرورت ہے نہ ہی ڈھول باجوں کی۔ لہذا ایسی واہیات باتوں اور بدعات سے بچنا چاہیے۔
بعض لوگ قبور کی طرف منہ کرکے نماز بھی ادا کرتے ہیں اور قبور کی حد سے زیادہ تعظیم بھی کرتے ہیں جو کہ ناجائز و گناہ کا کام ہے پھر بڑے جوش و خروش سے دوسروں کو بھی مدعو کرتے ہیں۔ ملنگ بابا، لٹو بابا، بھنگ بابا جیسے لوگوں نے ایمانیات کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے جو لوگوں کو دین سے دور اور کفریات کے قریب کرتے ہیں۔ اسی طرح صاحبِ قبر کا تقرب حاصل کرنے کے لیے قبور کا طواف وغیرہ بھی کرتے ہیں جو کہ سخت گناہ کا سبب ہے۔ احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔
5۔ عورتون کا مزارات پر جانے پرامام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے۔
6۔ آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ جب بھی کوئی شخص سفر میں جاتاہے یا کسی کی جان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے، تو عورتیں اس کے بازو پر ایک سکہ کپڑے میں لپیٹ کر باندھ دیتی ہیں اور اس کا نام "امام ضامن" رکھا گیا ہے جوکہ بالکل خود ساختہ کام ہے نہ اسکی کوئی اصل ہے نہ کہیں اس کا حکم دیا گیاہے۔ ایسے نئے نئے کاموں سے شریعت نے منع کیا ہے اور یہ سب بدعات ہیں، گمراہی ہے۔
7۔ آج کل ایک رواج عام دیکھنے میں آیا ہے کہ نمازی سر ڈھانپے بغیر نماز ادا کرتے ہیں اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے افراد امامہ یا ٹوپی وغیرہ پہنے مسجد آتے ہیں لیکن جونہی نماز ادا کرتے ہیں تو ٹوپی یا امامہ اتار دیتے ہیں اور ننگے سر نماز پڑھنے کو سنت سمجھتے ہیں حلانکہ ننگے سر جان بوجھ کر نماز پڑھنا بدعت اور دین میں اضافہ ہے کہ سلف کہ ہاں سے جو طریقہ امت میں مشہور ہے وہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا ہی ہے۔ کاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اس سے ثواب میں کمی ہوتی ہے، البتہ اگر کبھی غلطی سے ٹوپی ساتھ نہ ہو اور فوری طور پر کسی جگہ سے میسر بھی نہ ہوسکتی ہو تو اس صورت میں ننگے سر نماز پڑھنے کی وجہ سے کراہت نہیں ہوگی۔
نبی کریم ﷺ عمومی احوال میں عمامہ یا ٹوپی کے ذریعہ سر مبارک کو ڈھانپا کرتے تھے اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنناسننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے۔ اور سر کا ڈھانپنا لباس کا حصہ ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کایہی معمول تھا۔ کبھی کبھار ننگے سرہوجانا گناہ نہیں، البتہ مستقل طور پرننگے سررہنا شرعاً ناپسندیدہ، خلافِ ادب ہے، اور خلاف سنت ہے اور ننگے سر رہنے کو معمول اور فیشن بنالینااسلامی تہذیب کے بالکل خلاف ہے۔
8۔ آج بہت سے لوگ داڑھی کٹوا دیتے ہیں یا سرے سے رکھتے ہی نہیں لیکن داڑھی سنت متواتر ہے اور اس کا ترک کرنا شدید وبال کا سبب ہے۔ داڑھی کاٹنا شدید حرام و ناجائز اور بدعت ہے کہ اس سے سنت کا ترک لازم ہے۔ فقہائے کرام نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیا ہے اور اس سے کم رکھنے والے کو تارک الواجب ہونے کی بنا پر فاسق کہا ہے۔ دوسرے گناہ کسی خاص وقت میں ہوتے ہیں، مگر داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے، سو رہا ہو تو بھی گناہ ساتھ ہے، حتیٰ کہ نماز وغیرہ عبادت میں مشغول ہونے کی حالت میں بھی اس گناہ میں مبتلیٰ ہے، قومِ لوط کے اسبابِ عذاب میں داڑھی کٹانا بھی ہے، غرضیکہ داڑھی کٹانے یا منڈانے والا فاسق ہے۔ ایک مشت داڑھی رکھنا فرض ہے، اس سے کم کرنا منڈانا بالاجماع حرام ہے اور اس کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی صورتِ مبارکہ سے نفرت ہے۔
9۔ آج کے زمانہ میں دیکھا گیا ہے کہ نماز کی زبان کے ساتھ نیت کرنے کو زیادہ مستحب سمجھا جاتا ہے حالنکہ اس کی کوئی دلیل بھی حدیث میں موجود نہیں۔ ہمیں جتنی بھی احادیث ملی ہیں سب میں دل سے نیت کا ہی بیان ہے نہ کہ زبان سے۔ اسی لیے فقیر کی رائے یہی ہے کہ زبان کی بجائے دل سے نیت کی جائے کیونکہ یہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، نیت کے الفاظ کو زبان سے ادا کرنا درست نہیں ہے۔
شریعت اسلامیہ میں اسکی کوئی دلیل نہیں حتی کہ کوئی ضعیف حدیث بھی اس کی موید نہیں ہے۔ زبان سے نماز کی نیت کرنا نہ تو نبی کریم ﷺسے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی سے، نہ کسی تابعی سے اور نہ کسی معتبر امام سے۔ امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺجب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے 'اس (تکبیر) سے پہلے آپ کچھ بھی نہیں کہتے اور نہ زبانی نیت کرتے۔ نہ یہ فرماتے کہ: میں ایسے، چار رکعتیں، قبلہ رخ ہو کر پڑھتا ہوں، امام یا مقتدی کی حیثیت سے، اور نہ یہ فرماتے کہ اداء ہے یا قضاء ہے یا (میری یہ نماز)فرض وقت(میں) ہے۔ یہ سب بدعات ہیں۔ آپ ﷺسے اس کا ثبوت نہ صحیح سند سے ہے اور نہ ضعیف سند سے۔ ان میں سے ایک لفظ بھی با سند(متصل)یا مرسل(یعنی منقطع) مروی نہیں ہے۔ اور نہ کسی صحابی سے یہ (عمل) منقول ہے۔
تابعین کرام اور آئمہ اربعہ میں سے بھی کسی نے اسے (مستحب و)مستحسن قرار نہیں دیا۔ چونکہ ہمیں حدیث سے یہی ملا ہے کہ نیت دل سے کرنی ہے اس لیے درست سنت بھی دل سے نیت کا نام ہے اور اگر کوئی اس سنت کو بدلتا ہے تو وہ سنت کا تارک ہے اور اس نے دین میں نیا طریقہ ایجاد کیا۔ مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں: زبان سے نیت کرنا آپ ﷺ سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابہ کرام اور تابعین زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے، زبان سے نیت بدعت ہے۔ اسی طرح طحطاوی حنفی، انور شاہ کاشمیری، عبد الحی لکھنوی سب کا یہی قول ہے، لہذا راقم بھی اسی کو زیادہ قوی سمجھتا ہے۔
10۔ ایک بڑی جدید بدعت یہ بھی ہے کہ کسی فوتگی میں خواتین میت کے گرد بیٹھ جاتی ہیں اور مختلف اشعارپڑھتی ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پھر میت کے پاس بیٹھ کر گریہ زاری کرتی ہیں، حالانکہ اگر میت مرد کی ہے تو اس کے گرد خواتین کا بیٹھنا سخت وبال کا سبب ہے کہ وہ ان کے لئے نامحرم ہے۔ پھر میت کے گرد دنیا داری کی باتیں آخرت کی بربادی کا سبب ہیں۔ ایسی ایسی باتیں مشہور کر دی گئیں ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اسی طرح میت کے گھر لوگ سپیشل کھانا کھاتے ہیں اور اگر کھانہ مناسب نہ ہو تو لوگ برائیاں کرتے ہیں یہ سرا سر زیادتی ہے کہ ایک تو پریشانی والا گھر ہے پھر اس پر واہیات باتیں۔ پھر زبردستی کسی ایک گھر کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے کہ آج کا یا کل کا کھانا فلاں فلاں کی طرف ہے، یہ سب بدعات ہیں۔
11۔ بہت سے لوگ رمضان کے آخری جمعہ کو قضائے عمری کا اہتمام کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ ایک نماز ادا کرنے سے عمر بھر کی تمام قضاء نمازیں ادا ہو جائیں گی، جس کا شریعتِ اسلامیہ میں کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی سلف و صالحین سے اس کی کوئی صحیح سند ملتی ہے، آج کل عوام آسانیاں چاہتی ہے اور اسطرح کی ضعیف احادیث کو بنیاد بنا کر دین و آخرت تباہ کر رہی ہے۔ شریعت میں جو نماز قضاء ہو گئ اس کو ادا کرنا ہی نجات ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ طائف سے ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور نمازیں بھی چھوڑے رکھی ہیں۔ اب میرا کیا بنے گا: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو نے توبہ کر لی ہے اور تجھے اپنے کیے پر شرمندگی بھی ہے۔ اب ایسا کرو کہ جمعرات کو آٹھ رکعت نماز پڑھو اور ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۂ فاتحہ اور پچھیس مرتبہ سورۂ اخلاص قُلْ ھُوَاللہُ اَحَدً پڑھو اور نماز سے فارغ ہو کر ہزار بار صلی اللہ علی محمد النبی الامی کا وظیفہ کرو۔ یہ آپ کی قضا شدہ نمازوں کا کفارہ ہوگا۔ خواہ تم نے دو سو برس کی نمازیں ہی کیوں نہ ضائع کی ہوں۔ حسب سابق یہ روایت جھوٹی اور موضوع ہے۔ امام ابن جوزیؒ نے اس کو موضوع اور جعلی قرار دیا ہے۔ (کتاب موضوعات: ج2، ص135، 136)
نہایہ شرح ہدایہ میں ایک بے اصل اور باطل روایت یہ بھی ہےکہ جو شخص رمضان کے آخری جمعہ کو کسی فرض نماز کی قضا کرے گا تو یہ ستر برس کی قضا شدہ نمازوں کی تلافی کر دے گی۔ مولانا عبدالحی لکھتے ہیں کہ قال علی القاری فی تذکرة الموضوعات عند حدیث من قضی صلوٰة من الغرائض فی آخر جمعة من رمضان کان جابرا لکل فائتة فی عمرہ إلی سبعین سنة بعد الحکم بانه باطل لا اصل له۔ (مقدمة عمدة الرعایة: ج1، ص13)، یہ وایت بھی سراسر جھوٹی اور موضوع ہے۔
جناب ملا علی قاری حنفی نے اس کو اپنی کتاب "الموضوعات الکبری" میں روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ روایت باطل، یعنی من گھڑت اور جھوٹی ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ روایت اس اجماع امت کے خلاف ہے کہ عبادات میں کوئی عبادت بھی کئی برس کی قضا شدہ عبادت کے نقصان کو پورا نہیں کر سکتی۔ خلاصہ یہ کہ قضا عمری کے ثبوت میں نہ تو کوئی آیت موجود ہے اور نہ کوئی صحیح بلکہ ضعیف حدیث بھی موجود نہیں اور جوروایات پیش کی جاتی ہیں وہ محض جھوٹی اور بے اصل ہیں۔ یہ بدعت ہے اور بدعت سے اجتناب واجب ہے۔
12۔ عوام میں یہ بات مشہور ہو گئ ہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں نکاح یا شادی کرنا ناجائز اور گناہ ہے مگر ان کے پاس اس کے حق میں کوئی دلیل موجود نہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ اس ماہ مبارکہ میں نواسہ رسولﷺ اور انکے خاندان کو کربلا میں شہید کیا گیا اس لیے یہ غم کا مہینہ ہے اس لیے غم کے مہینے میں خوش کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ محرم الحرام کے مہینے میں نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں، دیگر مہینوں کی طرح اس ماہ مبارک میں بھی نکاح کرنادرست اور جائزہے، بلکہ اس ماہ میں نکاح نہ کرنےکی رسم کو ختم کرنے کے لیے نکاح کرناموجب اجر ہوگا۔ اگر اس ماہ مبارک میں شہادتوں کی وجہ سے اس کو غم اور سوگ کامہینہ قرار دے کر نکاح سے احتراز کیاجائے تو سال بھر میں کوئی مہینہ ایسانہیں جس میں کسی عظیم شخصیت کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آیاہو، اور اس بنا پر تمام مہینوں میں نکاح سے احترازناممکن بات ہے۔
اس لیے محرم الحرام میں بھی نکاح کرناعام مہینوں کی طرح جائزہے۔ البتہ کوئی اس مہینہ میں شادی نہیں کرتا تو ہم اسے مجبور نہیں کرتے کہ یہ اسکا اپنا امر ہے، بات صرف اتنی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اس مہینے شادی کرنا ناجائز و گناہ ہے ہم صرف اسی انسان کا رد کریں گے کہ اس نے نکاح جیسے مباح کام کو روکا۔ ہاں البتہ کوئی یہ کہتا ہے کہ شادی اس ماہ ہو سکتی ہے لیکن محرم کے رنج و الم کی وجہ سے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ نکاح کرے تو اس صورتحال میں اس پر بدعتی ہونے کا فتوی نہیں لگے گا کیونکہ اس نے کسی شرعی حکم کا انکار نہیں کیا۔ بدعت اسی سلسلہ میں وارد ہوگی جب اس ماہ میں نکاح کو حرام سمجھا جائے کیونکہ مباح کو حرام سمجھنا بدعت ہے۔
13۔ اسی طرح قبروں پر چراغ اور اگر بتی جلانا ایک معمول بن گیا ہے۔ لوگوں میں یہ رواج بہت عام ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس امر کو مردے کے لیے باعثِ تسکین سمجھا ہوا ہے۔ احمد رضا علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے۔ عود، لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر جانے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ رکھنے والوں پر لعنت فرمائی۔ (ترمذی)۔
اس حدیث کی تشریح میں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ لعنت ان لوگوں پر ہے جو بغیر کسی فائدہ کے قبروں پر چراغ جلاتے ہیں ورنہ اگر کوئی قبر کے پاس چراغ اس لیے روشن کرے کہ وہاں آنے جانے والوں کے لیے روشنی ہویا کوئی وہاں بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہے تو ایسی صورت میں منع نہیں ہے۔ لیکن احتیاط اس میں بھی یہ ہے کہ چراغ یا شمع کو قبر کے اوپر نہ رکھا جائے بلکہ قبر سے تھوڑا دور رکھا جائے۔
جہاں تک مناسب معلوم ہوا فقیر نے توہمات و بدعات کا اجمالی بیان کر دیا ہے تاکہ ان تمام اضافات سے بچا جا سکے، اللہ کریم تمام امت مسلمہ کو حق سچ سمجھے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔