انسانیت تنہا ہے۔ ہاں انسانیت تنہا ہے! کائنات کیا ہے؟ ابتدائے آفرنیشن سے ہی انسان تخلیقِ کائنات اور اس کے پیچھے چھپے رازوں کو جاننے کی کوشش میں سرگرداں ہے، کہیں مقصدِ حیات اور کہیں تخلیقِ کائنات جیسے سوالات ازل سے ہی انسانی جستجو کا مرکز رہے ہیں۔ انسان شعوری اور غیر شعوری طور پر یا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان فطری طور پر نہ سلجنے والے معموں کو حل کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔
تخلیقِ کائنات کے مختلف مظاہر پر عقلِ ناقص کبھی تو ربِ کائنات کی وحدانیت پر سرِ خم کرتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی انکارِ خدا کی دلیل بن جاتی ہے۔ گویا کہ سائنسی اور نظریاتی طبقات نے انسانیت کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس ساری بحث و مباحثہ سے ہٹ کر اسلام ہی واحد مذہب ہے جو تخلیقِ کائنات اور اس کی وسعتوں سے ہمکلام نظر آتا ہے چنانچہ فرقانِ حمید اور کلامِ لاریب میں درجنوں مقامات پر ارشادِ ربانی ہے:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا۔ (الانبياء، 21: 30)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَO (الذّاريات، 51: 47)
اور ہم نے کائنات کے سماوِی طبقات کو طاقت (توانائی) کے ذرِیعے پیدا کیا اور ہم ہی اُسے وُسعت پذیر رکھتے ہیں۔
گویا دورِ جدید نے بگ بینگ کا جو نظریہ آج متعارف کروایا، قرآن نے راہ نجات میں چودہ سو سال پہلے ہی واضح فرما دیا۔
موجودہ سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازوں کے مطابق اَب تک اِس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش 15 ارب (13.80 ارب) سال گزر چکے ہیں۔ آج سے 15 ارب سال پہلے پائی جانے والی اُس اِبتدائی کمیّتی اِکائی سے پہلے وہ کیا شے تھی جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق کی گئی؟ سائنس اِس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس مُعمّے کا حل قرآنِ مجید کے اِس فرمان پر اِیمان لانے سے ہی ممکن ہے:
إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO (مريم، 19: 35)
جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے: "ہوجا"، بس وہ ہو جاتا ہے۔
قرآنی اِصطلاح "رَتْق" کی سائنسی تفسیر ہمیں اِس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ بے پناہ توانائی نے کائنات کو اُس وقت اِبتدائی کمیتی اِکائی، کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ تصوّر حد تک دونوں لامحدُود تھے اور کائنات کی جسامت صفر تھی۔ قرآنِ مجید یوں اِشارہ کرتا ہے
أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا۔ (الانبياء، 21: 30)
جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے۔
اِن الفاظ میں بگ بینگ سے پہلے کا ذِکر کیا گیا ہے۔ پھر اُس کے بعد پُھوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا، جسے کلامِ مجید نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے:
فَفَتَقْنَاهُمَا۔ (الانبياء، 21: 30)
پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
اربوں کھربوں سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت کسی ایک نقطہ یا مرکز سے خارج ہونا مظاہرِ کائنات کی گتھی کو مذید الجھا دیتا ہے اور آخرکار عقلِ انسانی کن فیکون کے آگے سر جھکا دیتی ہے۔ جدید سائنس اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ کائنات ایک نقطہ سے وجود میں آئی، ایسا نقطہ جس کا حجم صفر لیکن کثافت لامتناہی ہوگی۔ صفر حجم" ایک نظریاتی وضاحت ہے جس کے ذریعے سائنس کسی شے کے "عدم وجود" کو ثابت کرتی ہے جو انسانی فہم سے ماورا ہے، لہٰذا ایک نقطے کو صفر حجم تسلیم کرکے ہی بات واضح کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ "صفر حجم والے ایک نقطے" کا مطلب اس کا "عدم وجود" ہے۔ گویا کائنات "عدم" سے "وجود" میں آئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ "تخلیق" کی گئی ہے۔
کائنات خود کیا ہے اس کی حدود کیا ہیں آخر کہاں جا کر کائنات کا کنارہ ہوگا یا جب بگ بیگ نہیں ہوا تھا اس وقت بگ بیگ کے اطراف کیسے ہوں گے یقیناً ایسے سوالات کا جواب آج کی سائنس دینے سے قاصر ہے۔ آیا کائنات کی اذلیت و ابدیت کو سائنس کن اصولوں ہہ ثابت کرے۔ چونکہ کائنات ہر لمحہ پھیل رہی ہے لہذہ اس کی حدوں کا ادراک کرنا صرف انسانی وہم ہے یا محظ خواب غفلت۔ ایسا بھی نہیں کہہ سکتے کہ کائنات کا کوئی کنارہ نہیں اور اگر کنارہ ہے تو اس کنارے کے باہر کیا ہے۔ سوال پر سوال کیونکہ جہاں کائنات کی حد تسلیم کریں گے وہاں سے یقیماً کچھ اور شروع ہوگا۔
گو نتیجتاً کائنات کو لامحدود تصور کر کے ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم اوپر کی گئ بحث کو سمیٹنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات ابدی اور مادی دنیا کا نام ہے۔ مکان کے حوالے سے اس کا پہلوئے کبریٰ یہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر اربوں اور کھربوں دوسری کہکشائیں ہیں اور اسی لحاظ سے کائنات بے حدود و ثفور ہے۔ اس کی کوئی سرحد، کوئی کنارہ، کوئی آخری سرا نہیں ہے۔ پہلوئے صغیر یہ ہے کہ ذرات کے اندر ایٹم ہیں، ایٹم کے اندر عنصری جز کا ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے۔ اس کی تقسیم در تقسیم کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور بے انتہا ہے۔ اس پہلو کا کوئی آخری سرا، کوئی کنارہ، کوئی آخری حد نہیں ہے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
زمان (وقت) کے اعتبار سے کائنات کتنے بھی بعید سے بعید میں چلے جائیں، اس کے پیچھے ایک لامتناہی اور مستقبل میں کتنا ہی آگے چلے جائیں، جہاں رکیں گے وہاں سے آگے لامتناہی مستقبل ہے۔ وقت کا آغاز تو ہے پر کوئی انجام نہیں۔ مادے کی ہر صورت اور حرکت کی ہر شکل وجود کائنات میں شامل ہے۔ کائنات سے باہر موجود ہونے کا کوئی طریقہ، کوئی رستہ نہیں ہے۔ یہ ازبس ناممکن ہے۔
کائنات سے باہر کچھ نہیں، کائنات ہر شے پر حاوی ہے، کائنات ہی کل ہے۔ بعض مغربی سائنسدانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ کائنات سے باہر ایک ضد کائنات ہے۔ جو ضد مادہ پر مشتمل ہے۔ دراصل جس چیز کو سائنس ضد مادہ کہہ رہی ہے وہ مادہ ہی کی مخصوص شکل ہے۔ اس کی اندرونی ساخت ایسی ہے جو اس مادے سے مختلف ہے، جس کو ہماری سائنس کچھ سمجھ سکی ہے اور جس کی مزید پرکھ میں سائنس مصروف کار ہے۔
یقیناً کائنات میں ایسی مادی صورتیں اپنا وجود رکھتی ہیں، جو ہمارے جانے پہنچانے سے مختلف ہیں اور جہاں فزکس کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ یہ چیز خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مادہ لامتناہی طور پر قابل تقسیم ہے۔ اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل کہیں نہیں رک سکتا ہے۔ اس کا کوئی انجام، کوئی حد، کوئی آخری کنارہ نہیں۔ اگر کوئی ایسے اجرام فلکی موجود ہیں جو ضد مادے پر مشتمل ہیں تو یہ سب اجرام فلکی بھی کائنات کا حصہ ہی ہیں۔ یہ کائنات سے باہر کسی نام نہاد ضد کائنات کا حصہ نہیں۔ یا کائنات سے باہر دوسری کائنات۔