او خدا کے بندو! کرو مشکل فیصلے مگر عوام کا خون نچوڑ کر نہیں بلکہ ریاستی مشینری کا صحیح استعمال، اور اداروں کی کارکردگی پر سوال کر کے، نہ کہ عوام کو بکرا بنا کر۔ بحیثیت ایک پاکستانی شہری میں حکومتِ وقت سے چند بگاڑ پیدہ کرنے والے عناصر کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن میں اگر درستگی آ جائے یا کمی آ جائے تو شاید ہم اس مشکل گھڑی سے نکل جائیں۔
قانون۔
کسی ملک کی ترقی کا سو فیصد دارومدار (سو فیصد ذاتی رائے ہے) اس ملک کے قوانین پر ہے۔ قوانین کی بالادستی آئن پاکستان کا نچوڑ ہے، قانون مساوات اور عدل کا پیش خیمہ ہے، کہا جاتا ہے قانون اندھا ہوتا ہے، شاید سچ ہی کہا جاتا ہے کیونکہ موجود صورتحال اندھے قانون کی عکاسی کر رہی ہے۔ ظلم و جبر کا نظام آخر کب تک؟ جہاں قانون اشرفہ کے ساتھ مل جائے تو فیصلے بھی یقیناً اشرفہ کے حق میں ہی ہونگے۔
ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مگر سب قریب قریب برابر ہی ہوتی ہیں، ریاست کو قانون کی بالادستی کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے، وقت گزرتا جا رہا ہے، ریت ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے، ظلم بڑھ رہا، شاید اب مٹنے والا ہے۔ اللہ کریم نے معاشی و سماجی قوانین پہلے سے ہی بیان فرما دیے ہیں۔ قانون کا کام ان اصولوں پر عملدرآمد کروانا ہے، کوئی بھی معاشرہ ظلم کے نظام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاستدان اور اشرافیہ قانون توڑتے ہیں تو عوام الناس قانون ہاتھ میں لیتی ہے، نہ قانون ٹوٹے نہ عوام قانون ہاتھ میں لے۔
تاریخ انسانی ایک لمبی چوڑی فہرست لیے ہے کہ جہاں جہاں قانون کی بالادستی نہیں ہوئی، جہاں جہاں ظلم کا نظام رہا ہے وہاں وہاں معاشرے اپنے اقدار کھو جاتے ہیں اور تاریخ کے اوراق دھول اور مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سیدنا عمر کے دورِ حکومت میں زلزلہ آیا تو سیدنا عمر نے جلال میں پاؤں زمین پر مارا اور فرمایا کہ کیا عمر تجھ پر عدل نہیں کرتا، کہا جاتا ہے کہ زلزلہ اسی وقت رک گیا۔ لہٰذہ عہدِ حاضر ہو یا ماضی و مستقبل، قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔
بیوروکریسی۔
بیوروکریسی معاشی پالیسیاں مرتب کرنے اور ان پر عملدرآمد کرنے والی مشینری کا حصہ ہے، ریاستی مشینری کا صحیح معنوں میں ترجمہ کرنا ہی بیوروکریسی کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ لہٰذہ افسر شاہی ہو یا جمہوری تماشہ ان سب کا وبال بیروکریسی کے غیر جانبدار فیصلوں اور پالیسیوں پر آتا ہے۔ معنوی اعتبار سے بیوروکریسی بحیثیت سول سرونٹ عوام الناس کے نوکر ہیں لہٰذہ عوام اور ہر فردِ واحد کا یہ حق ہے کہ وہ خوش اصلوبی سے سوالات اٹھا سکے۔
پچھلے پچاس دہائیوں سے آخر بیوروکریسی کوئی بھی قابلِ ذکر اہداف حاصل کیوں نہیں کر سکی؟ حکومتِ وقت افسر شاہی کی عیاشیوں اور مراعات کا پورا خیال رکھتی آئی ہے چاجائیکہ ملکی صورتحال کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ قومی ادارے حستہ حالی کا شکار ہیں، ہمارے کھوکھلے نظامِ جدت کی قدر و منزل کھو چکی ہے، کرپشن اور غبن رگ رگ میں بس چکی ہے، نوکری کو عیاشی اور محصولات کو ایسیٹس بیونڈ دی مین پر صرف کیا جا رہا ہے، نتیجتاً ریزلٹس آپ کے سامنے ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ افسر شاہی کو اخلاقیات اور سماجیات کے بھی کچھ سبق پڑھا دیے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔ مراعات اور تعشیات پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے اور لوٹ کھسوٹ کو روک کر ہی نظام میں تبدیلی لائی جا سکتی ہیں لہٰذہ بحیثیت قوم ہم سب کا یہی سوال ہے کہ آخر اس بیوروکریسی نے اس ملک کو کیا دیا؟ تھوڑا نہیں، پورا پورا سوچیے۔
سیاست دان۔
مہنگائی کا دور دورہ ہو یا جنگ و جدل کا بازار، لائن آف کنٹرول کی کشیدگی ہو یا امن کا ماحول، سیاست دان ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں کیونکہ سیاست دھنگل کا وہ مارکہ ہے جہاں عوام تو عوام خواص بھی پارٹی بازی کا میدان گرم رکھتے ہیں۔ پاکستان کو کھانے والے سات دہائیوں سے کھاتے جا رہے ہیں، لوٹنے والے لوٹتے جا رہے ہیں۔ کسی نے اب طنزاً یہ نعرہ بھی متعارف کروا دیا "پاکستان کا مطلب کیا؟ جو لبھے لئ جا"۔
بس شاید سیاسی کارکن و سربراہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ کو چھوڑ کر جو لبھے لئ جا کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ ہر سیاست دان صرف اپنی پارٹی کو ڈیفنڈ کرتا دکھائی دیتا ہے اور دوسری پارٹیوں کے اچھے اقدامات کو بھی شک و بری نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ عوام الناس میں اچھی اور قابل دید پالیسیوں کی غلط ترجمانی کرتے ہیں۔ سیاست دان تو دور کی بات، عوام بھی مخالف پارٹیوں کے اچھے اقدامات کو سراہنے کی بجائے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جس سے بھولی بالی عوام شش و پنج کا شکار ہو جاتی ہے۔
بظاہر یہ تاثر زیادہ سے زیادہ مینڈیٹ حاصل کرنے کیلیے دیا جاتا ہے مگر عرصہ طویل میں اس طرح کا رویہ ملک و قوم کی سیاست پر بہت گہرہ اثر چھوڑتا ہے۔ غیر پائیدار فیصلوں کی لمبی چوڑی لسٹ ایسے لمبے چوڑے مشکل حالات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ سابقہ گورنمنٹ کی مشینری کا پہیہ روک کر نئ حکومت نے چاہے کوئی غیر آئنی کام نہیں کیا مگر موجودہ دور کی معاشی صورتحال اسی کٹھ جوڑ کی ایک کڑی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ڈی ایم کی شکل میں سیاسی استحکام وجود میں آتا جس سے اکانومی ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتی لیکن نتائج اس قدر سنجیدہ ہو جائیں گے کسی نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ ایک دوسرے پر تنقید کا نتیجہ آخر معاشی زوال کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ مہنگائی کی اس حد تک کی شرح پاکستانی کی تاریخ میں نہیں ملتی، وسائل میں اس قدر کمی! اللہ ماشاءاللہ۔ ابھی جو کیلکولیشنز چھپائی جا رہی ہیں انکے نتائج بہت بہت سنگین آنے والے ہیں۔
کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر رہا ہے لیکن حقیقت میں پاکستان پہلے سے ہی ڈیفالٹ کر چکا ہے۔ بہت سے دل دہلا دینے والے حقائق عوام سے پوشیدہ رکھے جا رہے ہیں، وزارت خزانہ کے پاس واجب الادہ ادائیگیوں کیلیے ایک ٹگا بھی نہیں ہے، معاونین تجارت نہ ہونے کے برابر ہیں، ادائیگیوں کا توازن حد کا بگڑ چکا ہے، اور اگر آئی ایم ایف اس صورتحال پر کوئی گرین سگنل نہیں دیتا تو عنقریب معاشیات اپنا ریڈ زون کراس کر جائے گی، گرتے ہوئے گراف مثبت سے منفی کی لائن کراس کر گئے ہیں۔
ان سب عذابوں کا وبال مہنگائی کی صورت میں عوام برداشت کرے گی اور اگر اب بھی ریاست نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ۔ لہٰذہ ساری بحثوں مباحثوں سے ہٹ کر، قطع نظر کون قصور وار ہے یا کون قصور وار تھا، ریاست کو بحیثیت ایک خیر حوا کی طرز پر دن رات کام کرنا ہوگا، ریاست کو سیاست سے ہٹ کر پاکستان کا سوچنا ہوگا، سیاست دانوں کو سیاست کے مثبت پہلوؤں پر کان دھرنے ہونگے۔ گالم گلوچ کے ماحول سے نکل کر مثبت روش اختیار کرنی ہوگی۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ وسائل کا صحیح استعمال ہی نجات کی نوید ہے۔
ایک عام شہری ہونے کے ناطے میں حکومت وقت سے التجا کرتا ہوں کہ وللہ ایسے فیصلے کریں جن سے ملک و قوم کا معیار بڑھے وگرنہ حکومتیں بدلنے میں دیر نہیں لگتی، انقلابات کے جتنے بھی صفحات ہیں سب ایسی ہی بے ہنگم پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ملک پاکستان کے حالات پر رحم فرمائے۔ فی امان اللہ