لفظ مشتری گاہک، مُول لینے والا شخص یا خریدار کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یہ لفظ فارسی (بعض کے نزدیک عربی سے) مستعمل ہے اور "مشت" یعنی "مٹھی" کیلیے استعمال ہوتا ہے، اب جس شخص کے پاس جیب میں پیسے ہوں اور سودہ خریدنے کا طالب ہو، وہ مشتری کہلائے گا۔ ہوشیار باش چوکنا رہنے کیلیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، رئیل اسٹیٹ، کاروباری حضرات، تجارت کے عام مواقع پر یہ لفظ ہر فرد کے گوش گزار چلا آیا ہے۔
مُشْتَری ہوشْیار باش اس موقعے پر کہتے ہیں جب خریدار سودا دیکھ بھال کر نہ لے اور نقصان اُٹھائے۔ ایک تجارتی اصول ہے کہ بغیر کسی وارنٹی خریدار خود کو معیار کے خطرے پر لے جاتا ہے، نقصان جان کا ہو، مال کا ہو، اولاد کا ہو یا عزت و آبرو کا، ذمہ دار مشتری ہی کہلاتا ہے، فراڈ، دجل، فریب، دھوکہ دہی ہر معاشرے کا حصہ ہے، لیکن اگر مشتری ہوشیار رہے تو نقصان کا خدشہ بنسبت کم ہو جاتا ہے یہ اس کا تناسب قدرے کم ہو جاتا ہے۔
مشتری حسن کے بکتے ہیں تمہارے ہاتھوں
آج نیلام ہے یوسفؑ کے خریداروں کا
لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ یہ سارے نفع نقصان، چند دن، چند ماہ یا چند سال تک اپنا تسلسل قائم رکھتے ہیں اور آخر کسی نہ کسی موڑ پر انکا ازالہ ہو ہی جاتا ہے یا وقت کے دوراہے میں پرانی یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں، حساب کتاب کے سبھی صفحات بوسیدہ ہو جاتے ہیں اور انکی جگہ نئے نئے رنگین صفحات، اخباروں کی سرخیوں کی زینت نظر آتے ہیں۔ تعجب در تعجب ہے کہ انسان نے دنیا کی زندگی کو ہی زندگی سمجھ لیا، دنیا کا مال و زر، دنیا کی آرائشیں، دنیا کے محلات۔
بھلا اس سے بڑھ کر کیا تماشہ ہو کہ متاعِ دنیا کی طلب میں آخرت کی بربادی خرید لینا، کتنے ہی گھاٹے کا سودا ہے؟ جنت کے بدلے جہنم کا سودا، عروج کے بدلے زوال کا سودا، عزت کے بدلے زلت کا سودا، بقاء کے بدلے فنا کا سودا؟ روح کے بدلے جسم کا سودا، وفا کے بدلے جفا کا سودا؟ چار دن کی چاہتوں، چار دن کی عیاشیوں، ختم ہو جانے والی آرائشوں کے بدلے "جہنم" یہ نفع کا سودا نہیں یہ سراسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ اکثر مسجدوں کے باہر ایک عبارت آویزاں ہوتی ہے "تعجب ہے اے انسان کہ تجھے نماز کی فرصت نہیں۔ "
ربّ کائنات نے دنیا کی حقیقت کے بارے میں تمام انسانیت کو ازل سے ہی آگاہ کر دیا تھا تاکہ حجت قائم ہو جائے، ارشاد ربانی ہے:
وَمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (آل عمران 185)
"اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے"۔
ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے: وَاِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿64﴾
"اور آخرت کا گھر ہی یقیناََ اصل زندگی ہے، کاش کہ انہیں معلوم ہوتا۔ "
ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے فیصلے یا ایسے اقدامات کرے جن سے اسکو مادی و دنیاوی فائدہ ہو، دولت کے بڑے بڑے ذخائر، گاڑیوں کی ریل پیل، محلات کا جنون، لیکن کمبخت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ دنیا کی زندگی محض چند دن، چند سانسوں کی محتاج ہے لیکن نفس کسی صورت ماننے کو تیار ہی نہیں، چائیدادیں ایسے اکھٹی کرتا ہے جیسے ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے، لوگوں کا مال کھانا، ظلم و ستم کرنا، چار دن کے مزے۔ واہ رے انسان، کیا تو عقل سے کام نہیں لیتا؟ یہ دولت اور خرص و لالچ مر کر ہی تیرا پیچھا چھوڑے گی۔
بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔
جو مال جمع کرتا جاۓ اور گنتا جاۓ۔
وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔
ہر گز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔
اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی۔
وہ اللہ عزوجل کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی۔
جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی۔
وہ ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی ہوگی۔
بڑے بڑے ستونوں میں (سورہ ھمزہ)۔
(الھٰکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر) غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے یہاں تک کہ قبریں دیکھ لیں۔
اے انسان تو کتنا گھاٹے میں ہے، کتنے گھاٹے کے سودے کرتا ہے، اے مشتری تیری ہوشیار باشی کیا صرف مال دنیاداری کیلیے ہے؟ بہت بہت بدنصیب ہے وہ جس نے دنیا کی زندگی کی چاہ میں آخرت برباد کر دی، کہاں گئ تیری عقل، کہاں گیا تیرا وقار، کہاں گئے تیرے دلائل، آہ! جہنم بڑی سخت ہے، آگ ہے کہ بجھنے والی نہیں، مدت ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، اے انسان تو تو ایک لمحہ کی تپش برداشت نہیں کر سکتا، ارے کم عقل جہنم کی گرمی کیسے پرداشت کرے گا، پیاس کیسے برداشت کرے گا، سانپ بچھوؤں کا گھر، کیڑے مکوڑوں کا گھر، اندھیرے کا گھر، آگ کا گھر۔ کیا تجھے قبول ہے کہ تو آگ کا ایندھن بنے؟ کیا تجھے ہاویہ سے ڈر نہیں لگتا؟
اے انسان موت یقینی ہے، ہاں موت یقینی ہے، اے انسان آخر مر جانا ہے، آخر موت ہے، ارے انسان حساب دینا ہے، مرنا ہے، مرنا ہے، مرنا ہے، ہائے! ظالم آخر مرنا ہے۔ کہاں فریاد کرے گا؟ کس سے فریاد کرے گا؟ کون تیری مدد کو آئے گا؟ چھوڑ جائیں گے تجھے، کوئی ساتھ نہیں جائے گا، آخر اکیلے مرنا ہے۔ کیسا سودا ہے یہ، کیسی تجارت ہے یہ؟ کیسی خریداری ہے یہ؟ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے، یہ محبت دھوکے کی ہے، یہ دولت دھوکہ ہے، یہ عزت دھوکہ ہے، دنیاداری، مال اولاد سب دھوکہ ہے آزمائش ہے۔
دنیا کی محبت جہنم میں لے جائے گی، اولاد کی محبت اجاڑ ڈالے گی تجھے، عزت کا وقار خاک میں مل جائے گا، اے انسان! آخرت کما لے، تیاری کر لے، کچھ ہوش کر، عقل کے ناخن لے۔ بیشک انسان خصارے میں ہے ہاں سب انسان خصارے میں ہیں۔ کچھ کما لو، آخرت کما لو، دین کما لو، اخلاص کما لو، نیکی کر جاؤ، ارے چند دن کے مہمان نیکی کما لو، دنیا بیچ کر آخرت کما لو، چھوڑ دو یہ دنیا داری، ارے اتنا ہی کماؤ جتنا یہاں رہنا ہے۔ دنیا میں رہو لیکن دنیا کی نہ سنو، یہی نجات ہے ہاں اسی میں نجات ہے۔
کہاں گیا سکندر؟ کہاں گیا دارا، کہاں ہے فرعون و نمرود، ارے کس دنیا سے محبت کر بیٹھے ہو؟ تو نے یہاں ہمیشہ نہیں رہنا، تیری دولت عنقریب کسی اور کی ہونے والی ہے، عنقریب تیرا غرور و تکبر مٹی میں ملنے والا ہے، عنقریب تیرا لباس کفن ہوگا، تیرا نام مٹ جائے گا، تو بے نام ہو جائے گا، تیری اولاد تجھے چار دن بعد بھول جائے گی، یہ گاڑیاں، یہ دولت، یہ گھر محلات، یہ نوکر چاکر، سب کسی اور کی ملکیت ہو جائیں گے۔
کسی کی دولت نے کام نہیں آنا، کسی باپ، بیٹے نے کام نہیں آنا، تیری دولت کوئی اور لے جائے گا، لہٰذہ عقل کر، عقل کر، نہ خرید اتنے گھاٹے کا سودا۔ عزت بیچ کر فقر خرید لے، دولت بیچ کر صدقات خرید لے، زندگی بیچ کر آخرت خرید لے، حسد بیچ کر خوشی خرید لے، غیبت بیچ کر اچھائی خرید لے، جھوٹ بیچ کر سچ خرید لے، ظلم و ستم بیچ کر محبت و اخلاق خرید لے، عقلمند وہی ہے جس نے متاع دنیا کی طلب مٹا دی، جس نے فقر خرید لیا، یہی سودا نفع کا سودا ہے یہی سودا نجات کا سودا ہے یہی سودا آخرت کا سودا ہے۔
سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اتنا نہ رہا
دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا
اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا۔