اس موافقت کی علامت کے طور پر تمام فرشتوں کو انسان کے آگے جھکا دیا گیا۔ اس آیت میں"اِلَّآ اِبْلِیْسَ" سوائے ابلیس کے سے یہ مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید ابلیس بھی فرشتہ تھا۔ اس لیے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا۔ اس مغالطے کا ازالہ سورة الکہف میں کردیا گیا۔ وہاں الفاظ آئے ہیں۔ "وہ جنوں میں سے تھا، پس اس نے سرکشی کی اپنے ربّ کے حکم سے"۔ فرشتوں میں سے ہوتا تو نافرمانی کر ہی نہ سکتا۔
فرشتوں کی شان تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے۔ از روئے الفاظ قرآنی: "وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں"۔ جناتّ بھی انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے ایمان و کفر اور طاعت و معصیت دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ چناچہ جنات میں نیک بھی ہیں بد بھی ہیں، اعلیٰ بھی ہیں ادنیٰ بھی ہیں، جیسے انسانوں میں ہیں۔
لیکن یہ "عزازیل /ابلیس" جو جن تھا، علم اور عبادت دونوں کے اعتبار سے بہت بلند ہوگیا تھا اور فرشتوں کا ہمنشین تھا۔ یہ فرشتوں کے ساتھ اس طور پر شامل تھا جیسے بہت سے انسان بھی اگر اپنی بندگی میں، زُہد میں، نیکی میں ترقی کریں تو ان کا عالم ارواح کے ساتھ، عالم ملائکہ کے ساتھ اور ملأ اعلیٰ کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوتا ہے۔
اسی طرح عزازیل بھی جن ہونے کے باوجود اپنی نیکی، عبادت، پارسائی اور اپنے علم میں فرشتوں سے بہت آگے تھا، اس لیے "مُعَلِّمُ الْمَلَکوت" کی حیثیت اختیار کر چکا تھا اور اسے اپنی اس حیثیت کا بڑا تکبر تھا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، قرآن حکیم میں قصۂ آدم و ابلیس کے ضمن میں یہ بات سات مرتبہ آئی ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو، سب جھک گئے مگر ابلیس نے سجدے سے انکار کردیا۔
یہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہے اور جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اب میرا تو چھٹکارا نہیں ہے، میری تو عاقبت خراب ہو ہی چکی ہے، لہٰذا میں اپنے ساتھ اور جتنوں کو برباد کر سکتا ہوں کر لوں۔ اب وہ شیطان اس معنی میں ہے کہ انسان کی عداوت اس میں پڑ گئی۔ اس نے اللہ سے اجازت بھی لے لی کہ مجھے مہلت دے دے قیامت کے دن تک کے لیے تو میں ثابت کر دوں گا کہ یہ آدم اس رتبے کا حق دار نہ تھا جو اسے دیا گیا۔
قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے گارے سے بنایا"۔ درحقیقت یہی وہ تکبرّ ہے جس نے اسے راندۂ درگاہِ حق کر دی۔ درحقیقت بغض آدم میں لعین نے روح ربانی (من روحی) کا انکار کیا لہٰذہ رحمتِ خداوندی سے محروم ہوگیا اور آج تک اسی تکبرانہ روش کے زیرِ اثر تمام انسانیت کیلیے وبالِ جان بنا ہوا ہے۔
لیکن چونکہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اور انسان کی تخلیق رب کائنات کی خاص تخلیقوں میں سے ہے اسی لیے کھنکنی مٹی (انسان) بھڑکتے ہوئے الاؤ (شیطان کی خلقت آگ سے) کی تپش سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتی ہے لہٰذہ بشریت میں صرف وہی بہکاوے میں آتے ہیں جو اپنی اصل کو چھوڑے بیٹھے ہیں، جب جب انسانیت نے اپنی اصل کی طرف رجوع کیا تب تب شیطان مایوس و مردود ہی ہوا کیونکہ فطرتِ انسانی میں مٹی کی قدر آگ کی نسبت زیادہ ہے۔
اس طرح کی بحثوں میں بالعموم مختلف سوال ذہن میں آتے ہیں جن میں سب سے اہم دو سوال ہیں، خدا نے شیطان کو کس لئے پیدا کیا؟ جبکہ اسے علم تھا کہ وہ ہر طرح کی گمراہی اور وسوسہ انگیزی کا سرچشمہ ہے۔ جبکہ شیطان اتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا تو اس کے بعد اللہ نے اس کی درخواست کو کیوں منظور کیا کہ اسے ایک طولانی عمر دی جائے؟
شروع میں شیطان کی خلقت پاک اور بے عیب تھی۔ اسی لئے وہ سالہائے دراز تک فرشتوں کی صفوں میں رہ کر عبادت کرتا رہا اور مقام قرب الٰہی پر فائز تھا، اگرچہ اپنی آفرینش کے لحاظ سے ان میں سے نہ تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنی آزادی سے استفادہ کیا اور اپنی سرکشی کی وجہ سے راندہ بارگاہ الٰہی ہوگیا اور اس نے "شیطان" کا لقب حاصل کیا۔ شیطان کا وجود راہ حق پر چلنے والوں کے لئے نہ صرف یہ کہ ضرر رسان نہیں بلکہ یہ ان کی ترقی و کمال کا ایک امتیاز ہے کیونکہ انسان کے مقابلے میں ایک قوی دشمن کا وجود درحقیقت انسان کی قوت اور پنپنے کا ایک سبب ہے۔
آپ دیکھیں کہ جہاں بھی کوئی ترقی کرتا ہے وہاں اس کے سامنے کوئی متضاد چیز ضرور موجود ہوتی ہے۔ کوئی موجود راہِ کمال میں اس وقت تک آگے نہیں بڑھتا جب تک اس کے سامنے کوئی زبردست مخالف موجود نہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شیطان اگرچہ اپنی آزادی ارادہ کی وجہ سے اپنی بد اعمالیوں کا جواب دہ ہے لیکن اس کی وسوسہ انگیزیاں بندگانِ خدا کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو راہ حق پر گامزن ہونا چاہتے ہیں ضرر رسان نہیں، بلکہ بالواسطہ ان کے لئے مفید ہیں۔
شیطان نے جہاں آخرت میں اپنی نجات و سعادت کو پورے طور سے خطرے میں ڈال دیا ہے اور اسے اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی لہٰذا اس نے اپنی ان عبادتوں کے بدلے میں جو اس نے دار دنیا میں ادا کی تھیں، خدا سے طویل عمر کی اجازت طلب کی، جو خدا کے قانون عدالت کی بنا پر قبول کر لی گئی۔ اب چونکہ جنت و دوزخ کا میعار اعمال و بدعمالیوں پر منخصر ہے اسی لیے اللہ کریم نے انسان کیلیے دو راستے بنا دیے، چاہے وہ نیکیاں کر کے جنت حاصل کرے یا بداعمالیاں کر کے دوزخ میں چلا جائے۔
ایسا قدرتِ الٰہی کا منشاء نہیں کہ کوئی نیکی کرے اور جہنم میں چلا جائے یا کوئی گناہ کرے یا جنت میں چلا جائے (ہاں رحمت خداوندی سے بخشش کا معاملہ اس غفور و رحیم کے فضل سے ہے)۔ بحیثیت مسلم نیکی کی توفیق اور شر سے بچنے کی طاقت غفور و رحیم کی مدد سے ہی ممکن ہے، امتحانِ دنیا میں کامیابی و کامرانی اور ناکامی کا دارومدار نفس کے تابع ہے۔
نجاتِ راہ نفس کی شرارتوں سے بچ کر ہی مل سکتی ہے لہٰذہ جہاں شیطان لعین و زندیق انسانیت کا کھلا دشمن ہے وہاں نفسِ انسانی کسی بھوکے کتے اور بھیڑیے کیطرح اپنا منہ کھولے ہے کہ جہاں زرا سی چونک ہوئی وہیں ان درندوں کا شکار بن گئے۔ انسان کے پاس آ جا کر صرف ایک راستہ ہی بچتا ہے یعنی صراطِ مستقیم، ایسا راستہ جو بظاہر کانٹوں اور لغزشوں سے بھرپور ہے یا جہاں ہلکی سی ٹھوکر کھانا ظلمت کدہ میں گرا دے گا۔
لہٰذہ ضروری ہے کہ ایک طرف کانٹوں سے بچا جائے تاکہ وہ لباسِ بشری کو تار تار نہ کر دے اور دوسری طرف آوارہ بھونکتے ہوئے کتوں اور بھیڑیوں سے بچا جائے تاکہ منزلِ مقصود پر صحیح سالم پہنچا جا سکے۔ کیونکہ بشریت میں غلطی کھا جانا خاصہ انسانی ہے اسی لیے ربِ کریم نے معافی کا دروازہ قائم کیا تاکہ اپنے گناہوں کو ابتدائی وقت میں ہی دھو لیا جائے اور آئندہ سے ہر اونچ نیچ کا خیال رکھا جائے۔
لیکن اگر لذتِ گناہ انسان میں رچ بس جائے پھر انسانی نفس اچھائی اور برائی کے معیار کو پسِ پردہ ڈال کر صرف برائی کو ہی اچھائی کیطرح شہد بنا کر پیش کرتا ہے جس سے برائی کی کڑواہت ماند پڑ جاتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں شیطان بندے کو مکمل مفلوج و مختاج کر دیتا ہے، پھر نہ تو اسے معافی کی توفیق ہوتی ہے نہ گناہ کا پچھتاوا۔
نفس (مطمعنہ) تو وہ قوت ہے جو انسان کو ملامت کرتی ہے اسے سوچنے، سمجھنے اپنا اختیار استعمال کرنے میں، مجاہدہ کرنے اور کشمکش پر ابھارتی ہے۔ حدیث میں اسے یوں بیان کیا گیا۔ حقیقی مجاہد وہ ہیں جو اپنے نفس کے ساتھ کشمکش کرے۔ (الترمذی) نفس کی مختلف اشکال ہیں لیکن سب اشکال عقلِ انسانی اور دل کی مختلف حالتوں میں شعوری طور پر پیدا کردا ہیں جیسے نفس مطمعنہ اور نفس امارہ۔
مطمن نفس کو کتوں اور بھیڑیوں کے بھونکنے سے فرق نہیں پڑتا اور وہ ان کتوں اور بھیڑیوں کی گندی آوازوں کو کانوں میں انگلیاں دے کر نکل جاتا ہے اور کامیاب ہو جاتا ہے لیکن شیطان و لعین بظاہر نیکی کی اشکال اپنائے بندہ عاجز کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ایک دفعہ ان آوازوں کو سن لے اور جونہی انسان یہ غلطی کر بیٹھتا ہے کتوں کی واوو واوو اسے سرور مہیا کرنا شروع کر دیتی ہے۔ دشمن کی شطرنج کا پیادہ سیدھا بادشاہ کو نشانہ بناتا ہے جس کے بعد بچاؤ کا کوئی ممکن راستہ نہیں بچتا۔ امارہ وہ کتا ہے جس کو لگام کی ضرورت ہے، اور اگر نفس کو لگام نہ دی جائے تو وہ پاگل گھوڑے کیطرح بیگانہ ہو جاتا ہے۔
ابیات باھو میں حضرت سلطان باھو نے نفس کو بڑے اچھے انداز میں قلم بند کیا ہے میں یہاں صرف اردو ترجمہ پیش کیے دیتا ہوں چناچہ
آپؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ نفس ایک ظالم اور بدبخت دشمن ہے۔ جس سے رحم کی کوئی توقع نہیں۔ یہ محض اللہ پاک کے فضل سے ہی جان چھوڑے گا۔
جان لے کہ مرشدِ کامل کے ہاتھ پردست بیعت کئے بغیر نفس کی مخالفت کرنا، اُس کے حالات سے باخبر رہنا اور اُسے اپنے قابو میں قید کرنا بہت مشکل و دشوار کام ہے۔ اگرچہ تمام عمر ریاضت کے پتھر سے سر ٹکراتا پھرے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اِس لئے کہ نفس بادشاہ ہے اور شیطان اُس کا مقرب وزیر ہے۔
مرشدِ کامل سب سے پہلے وجود کے اندر اِن دونوں دیووں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے جس سے طالب اللہ شیطانی معصیت اور نفسانی خواہشات سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ گو آوارہ کتون سے بچنے کیلیے مرشد کا ہاتھ اور راہنمائی ضروری ہے کیونکہ اصلاً کسی بھیڑیے یا کتے کے کاٹنے سے زیادہ سے زیادہ موت واقع ہو سکتی ہے لیکن نفس ایمان کا دشمن ہے اور اس کا کاٹا اخروی حیات کی بربادی ہے۔