حقیقتاً موذی جانور انسانی نفس ہے، ایسا موذی کہ جس کے کاٹے کا تریاق ملنا مشکل ہے۔ انسان اپنی عمر رواں میں برسوں اپنے نفس کو کھلاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے سانپ کو دودھ پلا کر پالا جاتا ہے لیکن اسکی جبلت ڈنگ مارنا ہی ہے، انسان جتنا کھلائے گا جتنا پلائے گا نفس کی زبان دراز ہوتی چلی جاتی ہے، گناہ کی لذت ناتمام خواہشات کی طرح لاشعورِ انسانی میں رس بس جاتی ہے، پھر گناہ گناہ نہیں بلکہ کسی خوبصورت شے کا نظارہ پیش کرتا ہے، دل برائی کو برائی نہیں سمجھتا، نفسیاتی خواہشات دل کو سیاہ کر دیتی ہیں، عقل کو فطور کھا جاتا ہے، دیھمک جسمِ کلی کو کھا جاتی ہے، بظاہر صحیح سالم انسان، انسان نہیں حیوان بن جاتا ہے۔
امام غزالی رحمتہ اللہ فرماتے تھے۔
نفس کا کتا غلیظ کام کروانے کے لئے اس وقت تک بھونکتا رہتا ہے جب تک وہ غلط کام کروا نہ لے اور جب انسان وہ کام کر لیتا ہے تو یہ کتا سو جاتا ہے لیکن سونے سے پہلے ضمیر کو جگا جاتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے۔
(الجاثیہ آیت چوبیس)
کیا تُو نے اسے دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی معبود بنائے بیٹھا ہو اور اللہ نے اسے کسی علم کی بِنا پر گمراہ قرار دیا ہو اور اس کی شنوائی پر اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہو اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو؟ پس اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا پھر بھی تم نصیحت نہیں پکڑو گے؟
یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ شیطان کا حملہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وہ آہستہ آہستہ حملہ کرتا ہے۔ کوئی چھوٹی سی برائی انسان کے دل میں ڈال کر یہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ اس چھوٹی سی برائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ کون سا بڑا گناہ ہے۔ پھر یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بڑے گناہوں کی تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ڈاکہ اور قتل ہی بڑے گناہ ہیں۔ کوئی بھی برائی جب معاشرے کا امن و سکون برباد کرے تو وہ بڑی برائی بن جاتی ہے۔
پھر بے شمار برائیاں ہیں جو شیطان بہت خوبصورت کر کے دکھا رہا ہوتا ہے اور جن سے اللہ کے فضل کے بغیر بچنا ممکن نہیں۔ مثلاً ایک اچھا بھلا شخص جو بظاہر اچھا بھلا لگتا ہے، کبھی کبھار مسجد میں بھی آ جاتا ہے، جمعوں میں بھی آتا ہوگا، چندے بھی کچھ نہ کچھ دیتا ہے لیکن اگر کاروبار میں منافع کمانے کے لئے دھوکہ دیتا ہے تو وہ شیطان کے قدموں کے پیچھے چل رہا ہے اور شیطان اس کو مختلف حیلوں بہانوں سے لالچ دے رہا ہے کہ آج کل یہی کاروبار کا طریق ہے۔
اگر تم نے اس پر عمل نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے اور وہ اس کہنے میں آ کر، ان خیالات میں پڑ کر، اس لالچ میں دھنستا چلا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جو تھوڑی بہت نیکیاں بجا لا رہا ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہیں اور مکمل طور پر دنیا داری اسے گھیر لیتی ہے اور ایسے لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہی ہے ہماری زندگی، شاید اب موت بھی نہیں آنی اور ہمیشہ اسی طرح ہم نے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر نہیں ہونا تو ایسے طریقے سے شیطان ایسے لوگوں کو اپنے قبضہ میں لیتا ہے کہ بالکل عقل ہی ماری جاتی ہے۔
پھر جب ایک برائی آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اٹھ جاتا ہے تو اس طرح پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر دوسروں کے حقوق مارنے والے بھی ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر غاضبانہ قبضہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بہن بھائیوں کی جائیدادوں کو کھا جانے والے بھی ہوتے ہیں، خونی رشتوں کو بھلا دینے والے بھی ہو جاتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی نیکی، ہر قسم کی برکت ان پر سے، ان کے گھروں سے اٹھ جاتی ہے۔
حکایات رومیؒ۔
اے بزرگو! ہم نے باہر کے دشمن کو مار ڈالا ہے لیکن اس سے بھی بدتر اور ذلیل دشمن باطن بچا رہ گیا ہے۔ اس دشمن کو مارنے کے لئے عقل و ہوش کی ضرورت نہیں۔ باطن کا شیر خرگوش کے قابو میں آنا والا نہیں ہے۔ یہ نفس دوزخ ہے اور دوزخ اژدھا کی مانند ہے کہ وہ دریاؤں سے بھی نہیں بھر سکتا۔ اگر تم سات سمندر بھی پی لو پھر بھی اس کی سوزش کم نہ ہوگی۔ اس دوزخ میں پتھر اور سنگدل انسان ذلیل ہو کر داخل کئے جائیں گے۔
اللہ عزوجل دوزخ سے کہے گا کیا تیرا پیٹ بھر گیا؟ وہ کہے گی کہ مزید لائے جائیں۔ پھر اللہ عزوجل لامکاں سے اس پر قدم رکھ دے گا اور وہ کن سے ساکن ہو جائے گی۔ طلحہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (رحمت کے) فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویریں ہوں۔ "(بخاری و مسلم) تو جس گھر میں بے زبان جانور کتا ہو وہاں ملائیکہ نہیں آتے تو سوچیے جس انسان کے اندر کتا ہو اسکا کیا عالم ہوگا؟ شاید کوئی ذہن یہ اعتراض کرے کہ انسان کو کتے سے کیوں تشبیح دی، اس سلسلہ میں ارشاد ربانی ہے۔
(سورۃ الاعراف: 175تا 176)
اور اے محمد ﷺ ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے اسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتّے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں۔ "
نفس کا کتا بھی آگے اپنی مزید نسلیں پیدا کر چکا ہے، لالچ کا کتا، تکبر کا کتا، بددیانتی کا کتا، خرص کا کتا، دولت کا کتا، عہدے کا کتا، حسد کا کتا، کس کس کتے کو مارا جائے؟ ایک حکایت مشہور ہے کہ شاہی دور میں بادشاہ کا ایک بستی کے قریب سے گزر ہو رہا تھا کہ اسے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں۔ بادشاہ کو بہت سے کتوں کا ایک ساتھ بھونکنا انتہائی ناگوار گزرا اور اُس نے اپنے وزیر سے اس بابت دریافت کیا۔
وزیر بادشاہ کے غصے کو فوراً سمجھ گیا اور اُس نے بادشاہ کی سخاوت کے پیش نظر عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے بھونکے نہیں بلکہ بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ بادشاہ کی سخاوت اور دریا دلّی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اس لئے کتوں کا بھوکا رہنا وہ اپنی توہین سمجھتا تھا۔ اُس نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ پورے شہر میں منادی کرا دو کہ تمام لوگ اپنے کتے لے کر دربار آئیں اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔
وزیر نے بادشاہ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے پورے شہر میں یہ اعلان کرا دیا کہ لوگ کتے لے کر دربار میں آئیں۔ اگلے روز بادشاہ نے تمام کتوں کے لئے انتہائی اعلیٰ قسم کا کھانا تیار کروایا۔ وقت کی پابندی کے پیش نظر تمام لوگ کتوں کو لا چکے تھے۔ اب کھانا تیار ہو چکا تھا اور کتوں کے لئے رنگ برنگے کھانے دستر خوان پر سجا دئے گئے تھے لیکن جب کتوں کو کھانے پر چھوڑا گیا تو تمام کتے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے۔ کسی کتے کا پاؤں دوسرے کا منہ، کسی کی گردن دوسرا کتا دبوچے ہوئے ہے، کوئی کتّا دوسرے کی دُم کاٹ رہا ہے تو کوئی کان چبا رہا ہے۔
کتوں کے ساتھ ساتھ دربار اور دسترخوان بھی خون سے لہو لہو ہو چکے تھے۔ بادشاہ حیران تھا کہ اتنے لذیذ اور عمدہ کھانوں کے ہوتے ہوئے کتّے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کا بدن کیوں نوچ رہے ہیں؟ اُس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے وزیر سے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وزیر نے سہمے ہوئے عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے ہیں اور اپنا کتا پن دکھا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کی عادت اور فطرت میں شامل ہے اور یہی کتا پن کی اصل پہچان ہے۔
ثابت ہوا کہ جانوروں میں سب سے موذی جانور نفس کا کتا ہے، لیکن اس کتے کو مارا کیسے جائے؟
تزکیہ نفس کیا جائے، علماء و صوفیاء کی صحبت میں بیٹھا جائے، خداوند سے مدد طلب کی جائے، ذکر و ازکار کیے جائیں، صوم و صلاة کی پابندی کی جائے، تکبر، خرص و لالچ سے بچا جائے، نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کی جائے، نفس نماز چھوڑنے کا کہے تو بندہ خدا ایک کی بجائے دو نمازیں پڑھے، فرضی روزے پر نفس کے کتے بھونکیں اور پیٹ کی آگ بجانے کیلیے نفلی روہ رکھ لیا جائے، فجر قضا کا کہے تو تہجد شروع کر لیں۔
نفس کے بھونکنے پر لاحولا کی کثرت کی جائے، اپنے آپ کو دینی کاموں میں مصروف رکھا جائے، نفس گوشت کھانے کا کہے تو پیٹ کو دال کھلاؤ، دال کا کہے تو فاقہ کرو، یقین جانیں جوں جوں آپ نفس کے مخالف جائیں گے نفس اتنا ہی کمزور تر ہوتا جائے گا، بندہ ایک قدم بڑھاتا ہے تو خالق دس قدم بڑھاتا ہے، اسی کی مدد سے ہی اس موذی جانور سے چھٹکارہ مل سکتا ہے، اسی کی مدد ہی زہر کا تریاق ہے، اسی کی قدرت سے اس موذی جانور کو لگام ڈالی جا سکتی ہے۔
تکبر اور غرور سر اٹھائے تو فقرا کیساتھ وقت گزارا جائے، دولت قدم بڑھائے تو صدقہ خیرات کی کثرت کی جائے، شہرت راستہ روکے تو تبلیغ دین کیلیے نکل جائے، مال کی خرص پھن پھیلائے تو بین خرید لی جائے، الغرض نفس کی ہر چال کو الٹا کیا جائے، قیام الیل کا انتطام کیا جائے، جوں جوں انسان خدا کی طرف بڑھے گا راستے صاف ہوتے جائیں گے، فاصلے سمٹتے جائیں گے، اندھیرے چھٹتے جائیں گے۔ آخر کار اسی جدوجہد سے اس موذی جانور کو ذبح کیا جا سکے گا۔