سائنسدانوں کی ریسرچ یہ ہے کہ روشنی کی سپیڈ ایک لاکھ 82 ہزار 2 سو میل فی سیکنڈ ہے۔ سائنسدان روشنی کی سپیڈ کو سب سے تیز رفتارچیز مانتے ہیں۔ اُن کی بات میں وزن بھی ہے۔ وزن اس لئے ہے کہ روشنی کی یہ سپیڈ اتنی سریع ہے کہ روشنی کی ایک لہر ایک سیکنڈ میں زمین کے گرد آٹھ مرتبہ گھوم جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ بیاسی ہزار دو سو میل فی سیکنڈ ہے۔ اگر روشنی کی ایک لہر اپنی پوری رفتار سے ایک سال تک چلتی رہے، تو ایک سال میں جتنا فاصلہ طے ہوگا اسے "ایک نوری سال کہیں گے"۔ اگر حساب کیا جائے تو ایک سال میں یہ فاصلہ 57 کھرب، 39 ارب میل ہوگا، جو کلومیٹروں میں 91 کھرب، 82 ارب کلومیٹر بنتا ہے۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ اگر روشنی کی ایک لہر ایک لاکھ بیاسی ہزار دو سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کائنات کے ایک سرے سے دوسرے کی جانب سفر کرتی ہے تو وہ اپنا سفر کم و بیش 3 ارب نوری سال میں مکمل کر سکے گی۔ اور شاید تب تک کائنات لاکھوں گناہ زیادہ پھیل جاے کیونکہ کائنات کا پھیلاو روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں سے کائنات کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اب آپ ایک نوری سال کے دوران طے کئے گئے 57 کھرب، 39 ارب میل کے فاصلے کو 3 ارب نوری سال سے ضرب دیں۔ ہمارا شعور اتنی لمبی چوڑی گنتی کو گن ہی نہیں سکتا۔ یہاں آکر انسان کا ذہن مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے، اور اپنے آپ پر اترانے والا انسان پھر یہ خوب جان لیتا ہے کہ اتنی زیادہ وسیع و عریض کائنات میں اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ پھر خدا کا وجود تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ آئن سٹائن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ اتنی بڑی منظم کائنات کو چلانے والا کوئی تو ہے۔
ہماری کائنات 13ارب 80 کروڑ (15 ارب) سال پرانی ہے، زمین کو تشکیل پائے ہوئے پانچ ارب سال ہو چکے ہیں، ہماری کائنات نے ایک خوفناک دھماکے سے جنم لیا تھا، یہ دھماکہ بگ بینگ کہلاتا ہے، بگ بینگ کے بعد کائنات میں 350ارب بڑی اور 720 ارب چھوٹی کہکشائیں پیدا ہوئیں، ہر کہکشاں میں زمین سے کئی گنا بڑے اربوں سیارے اور کھربوں ستارے موجود ہیں، یہ کائنات ابھی تک پھیل رہی ہے، یہ کہاں تک جائے گی، یہ کتنی بڑی ہے اور اس میں کتنے بھید چھپے ہیں ہم انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس کا صرف 4فیصد جانتے ہیں (اس 4 فیصد کو بھی صرف آبزرو کیاہے)، کائنات کے96فیصد راز تاحال ہمارے احاطہ شعور سے باہرہیں۔ ابھی تک اربوں کہکشائیں ایسی ہیں جن کی روشنی ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی اور کسی شے کو دیکھنے کیلیے اس کی روشنی کا آنکھ میں پڑنا ضروری ہے۔
یہ96 فیصد نامعلوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں، 44فیصد حصہ وہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اسے نہیں جانتے، سائنس دان اس 44 فیصد حصے کو "ڈارک میٹر" کہتے ہیں، یہ ڈارک میٹر سپر انرجی ہے، ہمارا سورج اس انرجی کے سامنے صحرا میں ذرے کے برابر ہے، سائنس دان کائنات کے باقی 52 فیصد نامعلوم کے بارے میں کہتے ہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم اسے نہیں جانتے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے، یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے، اس غیر مادی دنیا کو "اینٹی میٹر" کہتے ہیں، یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے، کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے، سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھا، یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا، یہ لوگ اگر "اینٹی میٹر" کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی، دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمیں ٹھوس مایہ گیس اور پلازمہ کی بحثوں سے آگے کا سوچنا ہوگا۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اینٹی میٹر کو ہم سائنس کے کن اصولوں پر پرکھ سکتے ہیں۔ جو دکھتا ہے وہی ہوتا ہے یا جو نہیں دکھتا وہی کسی شے کو دیکھنے کا ذریعہ ہے یا جو نہیں دکھتا وہی سب کچھ ہے۔ اربوں کھربوں کہکشاوں سے بنی کائنات، اربوں کھربوں نہ سلجھنے والے سوالات اور اربوں کھربوں وحشت ناک حقیقتیں۔ پردوں کے پیچھے پردہ۔ ہر سوال کے پیچھے ایک سوال۔ جوابات کی دوڑ میں سوالات کی برمار۔ یہ ہے حقیقت۔ ہزاروں میل میں سمائی اس زمین کا باسی یہ سمجھتا ہے کہ بس یہی سب کچھ ہے، کائنات کے مقبابل تو شاید ہمارا گھر زمین کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتا یا شاید کچھ ہے ہی نہیں۔
سوال صرف یہ ہی نہیں کہ کائنات کیا ہے، اصولاً سوال تو یہ ہے کہ کائنات کیوں ہے؟ کیا انسانیت کا کوئی مقصد ہے؟ تسحیر کائنات کی گتھی تو نہ سلجھنے والے سوالات سے بھری ہے لیکن کیا انسان نے انسانیت کو تسحیر کر لیا ہے؟ انسانی تخلیق شاید کائنات سے بھی پچیدہ ہے، حد کا پچیدہ انسان، جیتی جاگتی مشین، ربِ کائنات کا مظہر، ایک حقیقی آرٹیفیشل اینٹیلیجنٹ۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن سوالات ابھی باقی ہیں۔ کیا اس کائنات میں ہم اکیلے ہیں یا کوئی ہے جس کا ادراک انسانیت کے پردہ شعور سے باہر ہے۔ شاید ہماری اس کہکشاں ملکی وے کے اربوں ستاروں یا کسی سیارے میں کوئی ہم جیسا اور بھی ہو۔ ہمیں ہماری ملکی وے سے نکلنے کیلیے لاکھوں سال درکار ہوں گے۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں یعنی ایک سیکنڈ میں لگ بھگ تین لاکھ کلو میٹر کا سفر۔
یقیناً یہ فزکس کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ کوئی مادی شے اس رفتار سے سفر کر ہی نہیں سکتی۔ یا تو ہمیں ایسی انرجی کی ضرورت ہوگی جو روشنی کی رفتار پا سکے یا پھر ہمیں خود انرجی میں بدلنا ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ تخیلاتی باتیں ہیں لہذہ انسانیت کو انسانیت کا جان لینا ہی اصل کامیابی ہے۔ ساٹھ سال اوسط عمر کا حامل دعوی خدائی اور خرص و لالچ میں ڈھوب گیا ہے۔ تسخیرِ انسانیت اصولاً تسخیرِ کائنات سےزیادہ مشکل ہے۔ ایک ذرے کے برابر اس زمین کی حیثیت بھی نہیں، بلکہ ہماری اس کہکشاں کی حیثیت بھی کائنات کے مقابل ایک ذرہ بھی نہیں۔
زمان و مکاں اور وقت کے دھارے میں قید انسانیت یقیناً ترس کھانے کے لائق ہے۔ سوال و جواب کے نشیب و فراز انسانیت کے بہت بہت اور بہت کمزور ہونے کیلیے کافی ہے۔ اکیلا، تنہا انسان کسی مسیحا کا انتظار کرتے کرتے یقیناً تھک جائے گا۔ ایک ذرہ خاک گھمنڈ اور تکبر کی اتھا گہرائیوں میں گرتا گرتا فنا کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے جس کا شاید اس کائنات میں کوئی دوسرا دوست اور ساتھی نہیں۔ کوئی نہیں جو انسانیت کا مدد گار ہو۔ یقیناً انسان حد کا تنہا ہے، ہاں انسانیت تنہا ہے۔