عربی زبان میں لفظِ دین کے چند معنی ہیں جس میں ایک معنی ہے: طریقہ اور روش۔ قرآن کی اصطلاح میں اس کا معنی یہ ہے کہ "اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے واسطے سے اپنے بندوں پر اپنی اطاعت کی جو باتیں مقرر فرمائی ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رحمت حاصل کریں، ان سب باتوں کے مجموعہ کو "دین" کہتے ہیں۔ دین، اللہ کریم کے جاری کردہ فرمودات و احکامات کی کامل اور پکی سچی پیروی کا نام ہے (اعجاز)۔ اہل لغت کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا لغوی معنی عاجزی کا اظہار اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اطاعت کرنا ہے۔ اس سے مراد شریعت اور شریعت کی اتباع و اطاعت بھی لیا جاتا ہے۔
عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔ نیز دین، دنیا و آخرت کے تمام گوشوں کو محیط ہے اس کے برعکس مذہب جز ہے جو شرعی عبادات، احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دین، صرف نظامِ اسلام یا اسلامی اصطلاح میں استعمال ہی نہیں ہوا بلکہ مختلف مذاہب میں بھی یہ لفظ ملتے جلتے معنی میں لیا جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے۔
لَكُم دِينُكُم وَلِيَ دِينِ۔
تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
لہٰذہ لفظی و لغوی معنی میں دین "طریقہ کار" کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ امتِ مسلمہ میں رائج دین ایک وسیع معنی و مفہوم کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کی تفصیلاً گفتگو اس مکالہ کا حصہ نہیں لہٰذہ دین کی بنیادی ضروریات و احکامات (شعبہ جات) کا اجمالی ذکر کرنا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(1)عقائد، (2) عبادات، (3) اخلاق، (4) معاملات، (5) معاشرت۔
عقائد کے تین اہم رکن ہیں۔
(1)توحید، (2) رسالت، (3) قیامت اور آخرت کا اعتقاد و یقین۔
عبادات میں سب سے اہم عبادتیں پانچ ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اور جہاد۔
اخلاق: اخلاق باطنی اعمال کو کہتے ہیں، اس کی اصلاح کی بھی سخت ضرورت ہے کیوں کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے "بعثت لأتمم مكارم الأخلاق" یعنی میری بعثت کی غرض اچھے اخلاق کی تکمیل ہے۔
معاملات: خرید و فروخت اور باہمی معاملات۔
معاشرت: یعنی باہمی رہن سہن کے لئے اسلام کے لاگو کردہ آداب و اصول، اگر ان آداب کی رعایت نہ کی جائے، تو کم از کم اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ کسی کو کسی سے تکلیف نہ پہنچے۔
درج بالا نکات دینِ اسلام کی بنیادی ضروریات ہیں اور ان معاملات پر چوں چڑاں کرنا یا پسِ پردہ ڈال دینا دنیا و آخرت کی ذلت کا سبب ہے لہٰذہ تحریر کی اصل میں جانے سے پہلے وضاحت کرتا چلوں کہ دین کے ان شعبہ جات پر من و عن عمل کرنے سے ہی نجات ممکن ہے لہٰذہ اگر کوئی ان معاملات کو پس پردہ ڈال کر لاکھ اچھے عمل کرے سب منہ پر مار دیے جائیں گے کیونکہ فرائض و واجبات اسلام کے بنیادی یا فنڈامینٹل اصول ہیں جن سے کنارہ کشی تباہی اور جہنم کا ایندھن ہے۔ چونکہ تقریباً تمام امتِ مسلمہ کی بنیاد اور اسلام کی اصل انہیں پانچ شعبوں کے گرد گھومتی ہی اسی لیے یہی پانچ نسلِ انسانی کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔
لیکن چونکہ اعمال کی اصل نیت ہے اس لیے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِی مَا نَویٰ۔
"اعمال کا دارومدار (نیکیوں کا انحصار) نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو۔ "
اگر کوئی انسان تمام دینی امور کو سر انجام دے لیکن وہ نیت سے محروم رہے یا اسکا ظاہری اور باطنی مختلف گمان کا حامل ہو ایسے شخص کے اعمال اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے، ہاں البتہ شرعی قانون اس پر ظاہری اعتبار کے مطابق لاگو ہونگے جیسا کہ عبداللہ بن ابی (منافق) کے بارے میں جب تک حکمِ ربی نہیں آیا اللہ کریم کے محبوب، وجودِ کائنات کی وجہ، سراپا حسن و کمالات، سید البشر، تمام جہانوں کے سردار، اللہ کریم کے محبوب بندے، جنابِ سیدنا محمد ﷺ نے اس کے جنازہ کا اہتمام فرمایا کیونکہ وہ ظاہری معاملات میں دین کا پیروکار تھا۔
لیکن چونکہ ربِ کریم نے آیت نازل کر دی اور آئندہ سے منافقین کیلئے اہتمامِ جنازہ و دعا پر پابندی لگا دی اس لیے اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی بھی منافقین کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی۔ جہاں قرآن نے منافقین کا جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا وہاں اللہ کریم نے اس کی حکمت بھی بتا دی، ارشاد ہوا اگر آپ ان (منافقوں ) کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے اللہ ان کو معاف نہیں کر ے گا "۔ اب چونکہ اللہ کریم نے ایک قائدہ نافذ کر دیا کہ اگر بالفرض آپ ﷺ منافق کے لیے دعائے مغفرت بھی کر دیں تو اللہ انکو معاف نہیں کرے گا۔
تو شریعت اسلامیہ ظاہری صورتِ حال کی پابند ہے کیونکہ شریعت میں کسی بھی حکم کا عمل ظاہری اعتبارات سے کیا جاتا ہے جب تک شریعت میں کوئی حکم اور حجت قائم نہ ہو جائے۔ چونکہ منافقین ظاہری اعتبار سے جماعتِ مسلمہ کی حیثیت سے دین میں بگاڑ پیدا کر رہے تھے لیکن چونکہ انہوں نے کھلم کھلا دینِ اسلام کی مخالفت نہیں کی بلکہ چھپ چھپ کر مسجدِ ضرار جیسی اینٹی مسلم تحریک چلانا شروع کر دی اور جب تک حجتِ خدا اور حکم خدا نہیں آیا کسی نے بھی مسجد ضرار کو گرایا نہیں۔
آپ ﷺ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ کے قریب ذواوان پہنچے تو جبرائیل امین سورہ التوبہ کی یہ آیات لے کر نازل ہوئے جن میں آپ کو منافقین کے ناپاک اغراض پر مطلع کر دیا گیا اور آپ کو وہاں نماز پڑھنے بلکہ کھڑے ہونے کی بھی ممانعت کر دی گئی اور بتلا دیا گیا کہ اس مسجد کی اصل غرض ضرار ہے یعنی مسلمانوں کو ضرر پہنچانا ہے اسی وجہ سے یہ "مسجد ضرار" کے نام سے مشہور ہوئی اس نام نہاد مسجد کی حقیقت کھول دی گئی۔ اور اس میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا۔
چنانچہ اصولِ شریعہ ظاہری و باطنی اعمال و عقائد پر مکمل جرح کر چکی ہے لہٰذہ بحیثیت مسلمان ہمیں سنت، عملِ صحابہ اور اسلاف کے عمل کو دیکھ کر ہی ظاہری و باطنی حکم پر کوئی حجت قائم کرنی ہوتی ہے۔ یہاں تک تمام بحث میں ہم نے دین اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ شریعت کسی پر کوئی بھی حکم ظاہری اعتبار سے نافذ کرتی ہے، جب تک کوئی واضح قرآنی حجت موجود نہ ہو۔
اصل دین (دینِ اسلام)، اللہ عزوجل کے احکامات کی پیروی اور جنابِ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور اتباع کا نام ہے کیونکہ اتباع و پیروی صدقِ دل سے مان لینے کا نام ہے، نتیجتاً محبت کے بغیر اتباع کا اصل کھوکھلا ہے اور حقیقی احکاماتِ خداوندی سیدنا کریم ﷺ کی اتباع و پیروی ہے کیونکہ احکامات خدا جنابِ رسول اللہ ﷺ پر الہام یا نازل ہوئے نہ کہ براہِ راست امت محمدیہ پر۔
فطری طور پر جو خالق کائنات اور مالک الملک رب کریم سے محبت کرنے والا ہوگا، اس پر یہ لازم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی پیروی کرے کیونکہ آپ ﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ کی محبت ممکن ہی نہیں، یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے "اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔ کمالاتِ محمدیہ (ﷺ) میں ایک کمال یہ بھی ہے جو جناب محمد ﷺ کو ایک نظر دیکھ لیتا یا زبانِ اقدس کی بھینی بھینی آواز سن لیتا بس وہ دیوانہ ہو جاتا پھر چاہے اس کیلئے کوئلوں پر اپنی ہڈیاں اور ماس ہی کیوں نہ جلوانا پڑتا، پھر بس زبان پر عشقِ رسول کی تاثیر ہمیشہ کیلئے جاری رہتی۔
اللہ کریم جلا شانہ نے تمام انسانوں پر محبتِ رسول فرض کر دی ہے اور میں نے فرض کا حکم بڑی سوچ سمجھ کر لگایا ہے کیونکہ جو بات قرآن کی زینت بن جائے وہ اصل الاصول ہوتی ہے، دین کی جڑ ہوتی ہے۔ ارشاد ہے، جس نے رسول (ﷺ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔