حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میری محبت اپنے باپ، اپنی اولاد اور سارے لوگوں سے زیادہ ہو جائے۔ " (بخاری، ایمان، باب حب الرسول من الایمان)۔
میں کسی مبالغہ آرائی میں بات نہیں کروں گا اور نہ دین و شریعت کے متضاد کوئی بات۔ قرآن نے رسول اللہ ﷺ کی پیروی و اتباع کو خدا کی محبت و پیروی کو قرار دیا ہے لہٰذہ اصل دین محبت رسول اور اطاعتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة، نوافل، فرائض، صدقات، جہاد، خسنِ اخلاق، وغیرہ وغیرہ ثانوی حیثیت کی حامل ہیں۔ اسی لیے احمد رضا کا قلم چلا اور جب انکا قلم چلا تو دنیا نے شانِ محبوبِ ربی کو ایک نئے ولولانہ جذبہ سے جانا۔
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں۔
اَصْلُ الْاُصُول بَنْدَگی اُس تاجْوَر کی ہے۔
اصل عبادت یا عبادت کا مغز محبتِ رسول، اتباع رسول اللہ ﷺ ہے اور اتباع رسول اللہ ﷺ ہی ساری شریعت کا خلاصہ ہے۔ وہ شخص مسلمان رہ ہی نہیں سکتا جو صرف اعمال کو شریعت سمجھے یا آخروی نجات کو صرف اعمال کا دارومدار سمجھے۔ محبتِ رسول اللہ ﷺ دین کی کسوٹی ہے اب جس میں جتنی محبت ہوگی اسکا دین اتنا ہی پختہ کامل و پائیدار ہوگا۔ نماز، روزہ، زکوٰة، حج، جہاد دینِ اسلامیہ میں ثانوی یا سیکنڈری حیثیت رکھتے ہیں۔
پہلے دین کی جڑ کو مضبوط کرنا لازم و ملزوم ہے وگرنہ محبتِ رسول کے بغیر کیے اعمال منہ پر مار دئیے جائیں گے، نمازیں رد کر دی جائیں گی، زکوٰة و صدقات جہنم کا سبب بن جائیں گے، حج دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "آپ (اللہ ﷺ) کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول (اللہ ﷺ) سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ " (التوبہ 24)
دینِ اسلام نے بڑی وضاحت اور کیٹیگوریکلی تمام امت پر محبتِ رسول فرض کر دی ہے چناچہ جو اس سے منہ پھیرے تو اللہ اسکو فاسقوں میں لکھ دیتا ہے جسے پھر ہدایت نہیں ملتی۔ لہٰذہ اللہ کا کسی کو فاسق لکھ دینا جہنم کی مہر ثبت کرنے کے مترادف ہے، پھر نہ تو انہیں ہدایت نصیب ہوتی ہے نہ ہی انہیں کوئی نجات کی راہ ملتی ہے اور وہی نرے نقصان اٹھانے والے ہیں۔
ایک روایت سیدنا عبداللہ بن ہشامؓ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ سیدنا عمر بن الخطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یقیناََ آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس (جان) کے۔ جس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں۔ "
یعنی اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ زبانِ رسالت ﷺ سے یہ بات سننی تھی کہ سیدنا عمرؓ نے عرض کیا "ہاں! اللہ کی قسم، اب آپ ﷺ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ " رسول اللہ نے ارشاد فرمایا "ہاں اب اے عمر۔ " یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا (صحیح بخاری)۔ لہٰذہ عشقِ نبی میں کمپرومائز کرنے والا دینِ اسلام سے ایسے ہی نکلتا ہے جیسے تیر شکار سے۔
اگر اے مسلماں تجھے تیری جان محبت رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عزیز ہے تو سن لے آخرت کا عذاب بہت دردناک ہے۔
زید بن وثنہؓ کو کفار نے پکڑ لیا اور انہیں قتل کرنے کے ارادے سے حرم سے باہر لے چلے۔ راستہ میں ابو سفیان نے (جو اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے) ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، بتاؤ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری جگہ محمد ﷺ کو (نعوذ باللہ) پھانسی دی جاتی اور تم گھر میں آرام سے رہتے؟ زید بن وثنہؓ نے جواب دیا اللہ کی قسم! مجھے ہرگز یہ بات بھی گوارہ نہیں کہ میں چھوڑ دیا جاؤں اور اس رہائی کے بدلے محمد ﷺ کو اسی جگہ رہتے ہوئے جہاں آپ ﷺ اس وقت تشریف فرما ہیں کوئی کانٹا بھی چبھے۔ "یہ سن کر ابو سفیان حیران رہ گیا اور یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ہم نے کسی کو کسی سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت اصحابِ رسول آپ ﷺ سے کرتے ہیں۔ (الہدایہ و النھایہ)
حضرت خبیب بن عدیؓ کفار کی ایک سازش میں ان کی زد میں آ گئے۔ کفار نے انہیں چند دن تک بھوکا پیاسا قید رکھا پھر انہیں سولی پر لٹکانے کیلئے ایک مقام پر لے آئے۔ تختۂ دار پر کھڑا کرنے کے بعد ان ظالموں نے کہا کہ اگر اسلام چھوڑ دو تو جان بخشی ہو سکتی ہے مگر حضرت خبیبؓ کا جواب تھا کہ جب اسلام نہ رہا تو جان رکھ کر کیا کروں؟
ظالم کفار نے نہ صرف انہیں سولی پر لٹکایا بلکہ نیزوں سے ان کے جسم کو اذیت بھی دینے لگے۔ ایک شقی القلب نے نیزہ سے جگر چھید کر کہا، اب تو تم ضرور یہ پسند کرتے ہو گے کہ میری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور میں چھوٹ جاتا۔ یہ سننا تھا کہ سیدنا خبیبؓ نہایت جوش سے بول اٹھے "اللہ کی قسم! مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میری جان بچ جائے اور اس کے عوض محمد ﷺ کے پائے مبارک میں کانٹا چبھے۔ " (الہدایہ والنھایہ)
اللہ کریم کا ارشاد ہے کافروں کو تم (آپ اللہ ﷺ) نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم! اللہ ﷺ) جب آپ اللہ ﷺ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ اللہ ﷺ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
جہاں ربِ کائنات نے تمام مسلمانوں پر محبت رسول اللہ ﷺ فرض کر دی ہے اسی طرح اللہ کریم نے امت کی محبت بھی جنابِ رسول اللہ سیدنا کریم ﷺ کے دل میں القاء کر دی ہے تاکہ محبت، رسمِ محبت میں ادا ہو۔ ساری کائنات کی محبتوں کا مرکز جناب محمد رسول اللہ ﷺ ذات گرامی ہے۔ تمام محبتوں کی اصل محبت رسول ﷺ ہے، تمام اصلوں کی اصل ذات، حبیبِ خدا سیدنا محمد رسول ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، تمام موجودوں کا منبع، تمام کائنات کی حقیقت، جنابِ رسول ﷺ ہیں۔
پھر کمال دیکھیں کہ آپ ﷺ سے محبت کے بدلے محبت ہی ملتی ہے، ارشاد ہے بےشک تمہارے پاس تم ہی میں سے، عظیم الشان رسول (ﷺ) تشریف لائے، جو چیز تمہیں مشقت میں ڈالے، وہ انہیں (ﷺ) بہت ناگوار گزرتی ہے تمہاری بھلائی کے بہت ہی متمنی ہیں۔ مومنوں پر بہت ہی مہربان و رحیم ہیں۔ (التوبہ)
ایک دفعہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مجھے شفاعت اور نصف امت جنت میں داخل کرنے کے درمیان اختیار دیا گیا، (کہ چاہے تو آدھی امت بخشوا لیں، چاہے شفاعت کا اختیار لے لیں) میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا ہے۔ (اے میرے غلامو!) کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ صرف متقی لوگوں کے لئے ہے؟ نہیں، یہ گناہوں اور خطاؤں کی گندگی میں لتھڑے ہوئے لوگوں کے لئے ہے"۔ (ابن ماجہ)