سوال نمبر 2: تمام امور کے فیصلے شب براءت (پندرہویں شعبان) میں ہوتے ہیں جیسا کہ رزق کی تقسیم، موت و پیدائش کے فیصلے وغیرہ وغیرہ۔
جواب: جیسا کہ پہلے ہی یہ وضاحت اوپر کر دی گئی ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات قرآن مجید کا نزول نہیں بلکہ رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں کوئی ایک رات قرآن کا نزول نصِ قرآنی سے ثابت ہے اور جس رات قرآن کا نزول ہوا وہی رات شبِ قدر اور وہی مبارک رات ہے کیونکہ قرآن کا نزول پوری انسانیت کے لیے نجات کا ذریعہ ہے اسی لیے اس رات کو مبارک رات یا قدر والی رات کہا گیا ہے۔
سورہ دخان اور سورہ قدر کی روشنی میں تمام امور کے فیصلے بھی اسی رات ہوتے ہیں جس رات قرآن نازل ہوا چنانچہ سورہ دخان کی آیت نمبر چار فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ () اسی میں ہر محکم کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے () اور سورہ قدر کی آیت نمبر چار تَنَزَّلُ الْمَلَآئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبهِ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ () اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔
دونوں سورتوں کی آیت نمبر چار کے مطابق تمام امور کے فیصلے شب قدر (جسے شب مبارکہ بھی کہتے ہیں ) میں ہوتے ہیں لہٰذہ جو یہ کہے کہ پندرہوں شعبان کو تمام امور کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بے اصل ہے کیونکہ نص قرآنی سے تمام امور کے فیصلوں کا بیان شب قدر میں ہی ثابت ہے جو کہ قرآن کے مطابق رمضان میں آتی ہے نہ کہ پندرہویں شعبان۔
سوال نمبر 3: شبِ برات (پندرہویں شعبان) کو حدیث کی رو سے انگنت لوگوں کی بخشش ہوتی ہے اسی لیے پندرہوں شعبان کو شب براءت بھی کہتے ہیں۔
جواب: بہت سی روایات اس بارے میں ملتی ہیں لہٰذہ رب کریم کی رحمت کبھی رکتی نہیں اس لیے جو احادیث پندرہوں شعبان کے متعلق دستیاب ہیں ہم انکی فضیلت کے انکاری نہیں چاجائیکہ اس بارے جتنی بھی روایات ہیں سب ضعیف و کمزور ہیں۔ اللہ کریم بندوں کی بخشش کے لیے کسی خاص رات کا پابند نہیں ہاں کچھ اوقات ربِ کائنات کی رحمت زیادہ برستی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ تو وہ فرماتا ہے: کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا تاکہ میں اس کی مغفرت کروں۔
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
ویسے بھی ایک قائدہ ہے کہ فضائلِ اعمال ثابت کرنے والی ضعیف احادیث پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے تاکہ نیکیوں کی رغبت ہو لہٰذہ جتنی احادیث پندرہویں شعبان کے متعلق وارد ہوئیں ہیں اگر یہ قرآن و سنت سےٹکراو نہیں کرتیں تو اس پر عمل کر لینا خلاف اولیٰ نہیں ہے لیکن چونکہ اس رات کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ملتا اور بظاہر لگتا ہے کہ یہ تمام روایات شبِ قدر کے متعلق وارد ہوئی ہیں جن کو غلط فہمی کی بنا پر پندرہویں رات پر جوڑ دیا گیا۔
جس سے بہت سی صحیح باتیں پندرہوں شعبان میں جذب کر دی گئیں جیسا کہ نزول قرآن اور تمام امور کے فیصلے والی بات وغیرہ وغیرہ۔ پھر کیونکہ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس رات ملائکہ اور روح الامین اترتے ہیں اور تمام امور کے فیصلے فرما دیے جاتے ہیں یا ملائکہ کے سپرد کر دیے جاتے ہیں اسی لیے اسے مبارک رات کہا گیا۔ اسی سلسلہ میں پختہ گمان یہی ہے کہ اصل میں شب قدر ہی شب برات ہے کیونکہ اللہ کریم نے اس رات کو فضیلت بخشی ہے۔
شاید کسی راوی کے بیان میں کمی بیشی سے شب قدر کی فضیلت کو پندرہویں شعبان میں جوڑ دیا۔ اب چونکہ فلوقت زمانہ میں صحیح اور پختہ بات کی تہہ میں جانا نا ممکن یا مشکل ہے اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ کریم ہمیں ان دونوں راتوں کی فضیلتوں سے نوازے، البتہ پندرہویں شعبان کے متعلق جو روایت قرآن و سنت سے ٹکرائے ہم اسے قبول نہیں کرتے۔
سوال نمبر 4: بہت سے مفسرین، سلف و صالحین اور امت میں بڑے بڑے اکابرین شب برات کی رات عبادت کرتے آئے ہیں اور اسی رات نزول قرآن اور تمام امور کے سر انجام دینے والی روایات کو نقل کرتے رہے ہیں، تو کیا وہ کم علم تھے یا انہیں دین کی ہم سے کم سمجھ تھی۔
جواب: سوال کے پہلے حصہ کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عبادت کا معمول ایک الگ مسئلہ ہے اور اس رات میں اضافات ایک الگ مسئلہ، اصل دین وہی ہے جو ہمیں قرآن اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے خالصتاً حاصل ہوا، دوسرا یہ کہ عبادت کا تعین کسی ایک رات یا کسی ایک دن فکس کر لینا اور پھر پورا سال وبالِ گناہ سمیٹنا بلکل بد دینی ہے۔
تیسری بات جو کہ بہت سے مفسرین سے منقول ہے اور یقیناً مفسرین کی سپیشلائزیشن خاص قرآن مجید کے مضامین پر ہوتی ہے اس لیے مفسرین کے قول کی اہمیت اکابرین کے قول سے افضل ہے کیونکہ اکابرین کا شعبہ عبادت و ریاضت ہے۔ اگر ان میں تقابل کی بات کریں تو عالم کا درجہ عابد سے زیادہ ہے۔ (حدیث میں ہے کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ امتی پر، ایک اور حدیث ہے کہ روزِ قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی، شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی)۔
چوتھی بات جب خود قرآن نے کھلی کھلی اور پکی سچی مہر لگا دی کہ لیلة القدر اور لیلة مبارکہ ایک ہی رات ہے، اور یہ رمضان میں ہی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ہے اور اسی رات تمام امور کے فیصلے کیے جاتے ہیں، رجسٹر کے رجسٹر ملائیکہ کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، روح الامین اترتے ہیں، رات سے لے کر طلوع تک سلامتی والی رات ہے، ہزار مہینوں سے بھی افضل، برکت والی ہے، کامیابی والی ہے، عزت والی ہے، نجات والی والی، بخشش والی ہے، براءت والی ہے لہٰذہ اس بات پر سب کا پکا سچا یقین ہے کہ شب قدر ہی شب نجات، شبِ براءت اور شب مبارکہ ہے۔
وہ فضائل شب قدر کے تھے اس کو پندرہویں شعبان سے ملانا قرآن کی معنوی تحریف ہے، شب براءت ہی شب قدر ہے۔ اوپر درجنوں تفاسیر کے حوالہ جات دیے جا چکے ہیں اور دوسری درجنوں تفاسیر میں بھی یہی فضیلت شب قدر کی ہے نہ کہ پندرہوں شعبان کی لہٰذہ اگر کوئی بندہ پندرہوں رات کو عبادت کا معمول بناتا ہے لیکن وہ باقی اضافات جو قرآن و سنت سے ٹکرائے ان پر عمل نہ کرے اور عقائد کو سیدھا سیدھا مکمل مکمل اپنائے وہ انشاءاللہ پندرہوں شعبان کے لطف و اکرام بھی حاصل کر لے گا۔
اب جس جس نے پندرہوں شعبان میں قرآن کا نازل ہونا لکھا اور امور کی سرانجام دہی لکھی اس نے یقیناً خطا کھائی اور خطا کھانا کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ بشریت کا خطا کھانا ہی بشر ہونے کی دلیل ہے، تمام انسان خطا کھا سکتے ہیں اور ہمیشہ پکی سچی بات قرآن اور جنابِ خاتم النبین رسول اللہ ﷺ کی ہے کہ انبیاء کرام سلام اللہ علیہ معصوم ہوتے ہیں اسی لیے وہ خطا پر کسی آں بھی قائم نہیں رہتے۔
اگر ایک طرف قرآن و سنت ہو اور دوسری طرف ساری انسانیت تو یقیناً عقل مندی یہی ہے کہ قرآن و سنت کو اپنا لے کہ یہی سواد اعظم والی جماعت ہے اور یہی اللہ کی مضبوط رسی۔ اگر کوئی انہیں چھوڑ کرکوئی دوسری نجات کی راہ پانا چاہتا ہے تو وہ گمرہ و بد دین ہے۔ قرآن ہی پہلی اور آخری کسوٹی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ ہمارے اکابرین بڑے پرہیز گار و متقی تھے اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے (آمین) لیکن بات ہم قرآن کی ہی مانیں گے اور مشائخ و عظام کی صرف وہ باتیں جو قرآن کے عین مطابق ہوں۔
سوال نمبر 5: حکمت والے کام کی آیت کی تفسیر میں حضرت اکرمہ رحمت اللہ اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا کہ لیلۃ المبارک سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے
جواب: اس کا بھی وہی جواب ہے کہ آخری بات اور حجت صرف قرآن کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے حضرت اکرمہ نے یہ بات کسی اور پیراہے میں کی ہو۔
عظیم مفسر و فقیہ امین الشنقیطی رحمہ اللہ (م 1394ھ) فرماتے ہیں: فَدَعْوى أنَّها لَيْلَةُ النِّصْفِ مِن شَعْبانَ كَما رُوِيَ عَنْ عِكْرِمَةَ وغَيْرِهِ، لا شَكَّ في أنَّها دَعْوى باطِلَةٌ لِمُخالَفَتِها لِنَصِّ القُرْآنِ الصَّرِيحِ
اس بات کا دعویٰ کرنا کہ لیلہ مبارکہ سے مراد نصف شعبان کی رات ہے جیسا کہ عکرمہ و غیرہ سے مروی ہے یہ دعویٰ باطل اور قرآن مجید کی آیات کے صریح خلاف ہے اور اس متعلق جو بعض احادیث مروی ہیں جو صراحتًا قرآن مجید کے خلاف ہیں وہ ناقابل اعتماد ہیں جیسا کہ ابن العربی اور کئی ایک محققین نے کہا ہے
فالعَجَبُ كُلُّ العَجَبِ مِن مُسْلِمٍ يُخالِفُ نَصَّ القُرْآنِ الصَّرِيحَ بِلا مُسْتَنَدِ كِتابٍ، ولا سُنَّةٍ صَحِيحَةٍ
پس انتہائی تعجب ہے ایک مسلمان پر کہ بغیر کسی دلیل کے واضح قرآن مجید کی آیات کی مخالفت کرتا ہے۔ (اضواء البیان 172/7)
سوال نمبر6: بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر بخشش، اللہ تعالیٰ کا بخشش کے لیے پکارنا، قبرستان جانا، روزے رکھنا وغیرہ وغیرہ ان احادیث کی پھر کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔
جواب: ان تمام روایات میں سے وہ حصہ جو نصِ قرآن کے خلاف ہو ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور باقی کو قبول کر لیا جائے گا کہ اعمال کی کثرت کرنے یا ابھارنے والی ساری احادیث چاہے ضعیف ہی ہوں ان کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ لہٰذہ اس رات قبرستان جانا، بخشش طلب کرنا وغیرہ جائز و افضل ہے۔ لہٰذہ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جو بددینی اس امت میں مشہور ہو گئ ہے کہ ان دنوں پٹاہے اور آتش بازی کی جاتی ہے جو کہ حرام اور ناجائز ہے لہٰذہ اس سے بچنا فرض ہے۔
آخر میں ایک مودبانہ عرض ہے کہ چاہے شعبان ہو یا رمضان، عمال کو صرف ایک دو ماہ کے لیے خود پر فرض نہیں کرنا چاہیے، اور علم وہی حاصل کرنا چاہیے جو پکا اور سچا ہو۔ کسی بھی شخص کو میری اس تحریر سے سو فیصد اختلاف ہو سکتا ہے لہٰذہ میں نے اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔