ناشتہ کرنے کے بعد وہ معمول کے مطابق اپنا محل نما عالی شان بنگلہ چھوڑ کر کسی ناراض بچے کی طرح بالکونی میں رکھی کرسی پر آ کربیٹھ جاتا اور سگریٹ سلگانے لگتا۔ اپنی مہجوری، مفارقت، اکلاپے، ہجر، خوف کو سگریٹ کے ایک ایک کش میں دھوئیں کی نذر کرتا، جو فضا میں تحلیل ہو کر چند ساعتوں کے لیے اُسے پرسکون کر جاتے، جیسے ہی سورج کی کرنیں اپنی تمازت میں تھوڑی شدت اختیار کرتیں، نیچے سڑک پر دور سے یوسف سبزی والے کی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں، وہ سبزی سے لدی ریڑھی کو لے کر آہستہ آہستہ چلتا اور گاہے گاہے آوازیں بھی لگاتا جاتا، گھروں سے عورتیں نکلتیں اُس سے بھید بھاؤ کرتیں اور سبزی خریدتی جاتیں۔ یوں ہی چلتے چلتے وہ اُس کی بالکونی کے نیچے سے گزر جاتا اور اُس کی آنکھیں دور تک یوسف کا تعاقب کرتیں۔
اکثر اوقات وہ یوسف کے نخیف و ناتواں ضعیف وجود کو دیکھ کر سوچتا کہ یہ بھاری بھر کم ریڑھی یوسف کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے یا یوسف اس کو دن بھر سڑکوں پر گھسیٹتا چلتا ہے۔ وہ سوچتا کہ آخر اس بزرگ کی کون سی ذمہ داریاں ہوں گی کہ اس بڑھاپے میں جب چارپائی بھی سکون کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہ دن بھر سڑکوں پر پیدل چلتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ یوسف کچھ دنوں کے لیے غائب ہوگیا، وہ ہر روز یوسف کی دور سے آنے والی آواز کا انتظار کرتا مگر آواز نا آتی۔ وہ بوڑھی کپکپاتی آواز ناجانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔
کافی دن خاموشی سے گزر گئے وہ ہر روز بالکونی میں رکھی کرسی پر بیٹھ کر لاشعوری طور پر یوسف کی آواز سننے کی کوشش کرتا مگر آواز نا آتی۔
آج کافی دن گزر جانے کے بعد اُسے دور سے یوسف کی ریڑھی نظر آئی، مگر آج وہ کوئی آواز نہیں لگا رہا تھا، بس چپ چاپ ریڑھی کو بڑی مشقت سے دھکیلتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے ریڑھی کے ساتھ وہ چل نہیں بلکہ رینگ رہا ہو۔
جیسے ہی وہ قریب آیا تو اُس نے دیکھا آج ریڑھی پر سبزی نہیں بلکہ گھر کا کچھ پرانا سامان رکھا ہے اُسے یہ دیکھ کر تفشیش ہوئی وہ ابھی یوسف کی ریڑھی پر رکھے سامان کو کھوج رہا تھا کہ یوسف ریڑھی کو دھکا لگاتے لگاتے گر گیا یہ دیکھ کر وہ اُس کی مدد کرنے کے لیے بالکونی سے نیچے آیا جب تک وہ گیٹ کھول کر باہر آیا وہ اُٹھ کر ریڑھی کو دھکیلتے ہوئے دوبارہ چل پڑا تھا۔
وہ یوسف سے چھپ کر اُس کا پیچھا کرنے لگا، کہ آخر یہ سامان لے کر کہاں جا رہا ہے یوسف چلتے چلتے ایک کباڑیے کی دُکان میں گیا اور اپنے پھولے ہوئے سانس سے کانپتی آواز میں کہنے لگا۔
میں یہ سامان بیچنے آیا ہوں بتاؤ کتنے دام دو گے؟
کباڑیے نے سامان چیک کیا اور کہنے لگا:
یوسف سامان تو خاصا پرانا ہے، لکڑی کو دیمک چاٹ رہی ہے، صوفوں کے کپڑے پھٹ چکے ہیں لکڑی کا رنگ اُتر چکا چل میں تجھے سارے سامان کے پانچ ہزار دیتا ہوں۔ بول کیا کہتا ہے؟
یوسف کے بوڑھے جھریوں زدہ چہرے پر چند ساعتوں کے لیے تفکر کی شکنیں اُبھریں پھر بجھی ہوئی آواز میں کہنے لگا! ہاں ٹھیک ہے دو پیسے
کباڑیے نے اُسے پانچ ہزار کا تُڑا مڑا سا نوٹ نکال کر دیا، جس کو یوسف اپنی جیب میں ڈال کر ریڑھی لیتا ہوا کباڑیے کی دُکان سے نکل گیا۔
وہ چھپ کر دروازے کی اوٹ میں کھڑا یہ سب دیکھتا رہا، جیسے ہی یوسف ریڑھی لے کر دُکان سے نکلا وہ دوبارہ اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔
چلتے چلتے اُس نے دیکھا کہ یوسف اپنی ریڑھی لے کر ایک چھوٹی سے گلی میں داخل ہوا ہے اور گلی کے پانچویں نمبر پر ایک ڈربے نما بنے گھر میں چلا گیا۔
وہ بھی وہاں سے چلتا ہوا واپس اپنے گھر آ گیا۔
اگلی صبح وہ معمول سے ذرا ہٹ کر جلدی جلدی اُٹھا اور ناشتہ کرکے اپنے عالیشان محل نما بنگلے سے نکل پڑا، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا یوسف کے گھر پہنچا، گھر کیا تھا وہ ایک مرغیوں کا ڈربہ معلوم ہوتا تھا اس ہر ایک لکڑی کا دروازہ لگا ہوا تھا جو نا جانے کب سے دیمک کی زد میں آ چکا تھا، دروازے کی لکڑی اپنا اصل رنگ کب کا کھو چکی تھی، اب لکڑی کا یہ دروازہ کسی بوڑھے کے چیچک زدہ چہرے کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔
اُس نے دروازے کو ہلکا سا تھپتھپایا تو وہ کسی ہوا میں ڈولتے ہوئے خشک پتے کی طرح خود بخود کھلتا چلا گیا، دروازے کے سامنے ایک پھٹا پرانا بوسیدہ لیر لیر ہوا پردہ لگا ہوا تھا جس کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا گویا فضا کے گدھوں نے اس کو گوشت سمجھ کر نوچ لیا ہو۔
وہ اندر داخل ہوا تو اندر یوسف نہیں تھا وہ ساتھ جانوروں والی حویلی میں اپنی ریڑھی پر منڈی سے لائی ہوئی سبزی لاد رہا تھا
گھر میں چھوٹے چھوٹے سے دو کمرے تھے ایک سامان سے بالکل خالی پڑا تھا اور دوسرے میں ایک خستہ حال سی بان کی چارپائی پر ایک نوجوان لڑکی بے سدھ پڑی تھی جس کو دیکھ کر یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بان کی چارپائی اُس لڑکی کا بستر مرگ ہو وہ ابھی یہ سب دیکھنے میں مصروف تھا کہ یوسف گھر میں داخل ہوا اور سامنے اُسے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔
آپ؟ آپ کون ہیں میاں اور میرے گھر میں کیا کر رہے ہیں؟
ارے یوسف چاچا تسلی رکھو! میں تم سے سبزی خریدنے آیا ہوں۔
سبزی خریدنے گھر تک آ گئے آپ؟
ہاں ہاں وہ اصل میں میرے ملازم چھٹی پر گئے ہیں اور میں خود کبھی گروسری کرنے نہیں گیا اس لیے میں نے سوچا کیوں نا یوسف سبزی والے سے اس دفعہ سبزی خرید لی جائے۔
گروسری؟ یہ کیا ہوتا ہے یوسف کے اس معصومانہ سوال پر وہ مسکرایا اور کہنے لگا
سبزی خریدنے کو کہتے ہیں یوسف چاچا۔
اتنے میں وہ باہر گیا اور ریڑھی سے سبزی چیک کرنے لگا، سبزی تو ایک دم تازی ہے یوسف چاچا میں یہ پوری ریڑھی کی سبزی لینا چاہتا ہوں یہ کہہ کر اُس نے اپنی جیب سے پیسے نکالے اور یوسف کی ہتھیلی پر رکھ دیے، یوسف نے زندگی میں پہلی دفعہ اتنے پیسے ایک ساتھ دیکھے تھے، کہنے لگا
میاں یہ تو بہت بہت زیادہ ہیں میں یہ پیسے نہیں لے سکتا۔
ارے یوسف چاچا آپ کی سبزی بھی تو بہت زیادہ ہے اتنے پیسوں میں ہی آئے گی پوری ریڑھی کی سبزی پیسے دوبارہ یوسف کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بات بدلنے کو بولا!
وہ اندر لڑکی کون ہے؟
اس پر یوسف نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگا!
بیٹی ہے میری، ٹی بی کی مریض ہے میاں، بس اس کی سانسوں کا ناطہ اس کے بدن سے جڑا رہے تب ہی تو دن بھر اس بڑھاپے میں گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہوں۔۔
وہ یوسف کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر اُس کے کندھے پر اپنا دست شفقت پھیرتے ہوئے بولا!
ان پیسوں کو اپنی بیٹی کے علاج ہر صرف کرنا وہ جئیے گی، بہت سال جئیے گی تمہارا سہارا بن کر ہمیشہ تمہارے ساتھ کھڑی رہے گی۔ یہ کہتے ہوئے اُس کی اپنی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں۔
یوسف ہاتھوں میں اتنے سارے پیسے پکڑ کر بے یقینی کے جہانِ ہست و بود میں مسرت و انبساط کی قلابازیاں لگاتا ہوا اچانک ہوش و خرد کی دنیا میں واپس آیا اور ریڑھی لے کر سبزی اُس کے گھر تک چھوڑنے چلا گیا۔ تو دوسری طرف بالکونی میں تعاقب کرتی ہوئی اُن آنکھوں نے یوسف کی عزت نفس مجروح کیے بنا آج ابو بن ادھم والی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔