زنداں میں اوندھے منہ پڑی ایک آزاد منش چڑیا، درد کا استعارہ بنی ہوئی تھی۔ اُس کے تندرست و توانا پروں میں طاقتِ پرواز تو تھی مگر فضائیں اُس کے مخالف کر دی گئی تھیں۔ ایک لمبی اُڑان بھرنے کی خواہش نے اُس کے اندر ایک طوفان برپا کر رکھا تھا، وہ ایک ایسی اُڑان بھرنا چاہتی تھی، جس میں فضائیں اُس کے موافق ہوں، آسمان سے نیچے نظر آنے والے گلستان، نخلستان، پھل، پھول، شجر، ڈالیاں، خوشبوئے بہار ہوا میں ضم ہو کر اُسے چہچہانے پر اُکسائیں۔
اِسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ شب و روز زنداں کی سلاخوں سے سر ٹکراتی، قلابازیاں لگاتی مگر اُسے آزاد نا کیا جاتا۔ مسلسل ٹکرانے کے باعث اُس نے اپنے تندرست و توانا پَر لہولہان کر لیے تھے، اور اُس کی سسکیوں کے واحد گواہ قید خانے کے درودیوار بن گئے۔
قید خانے کے کونے میں پڑے خوابوں کے تعفن زدہ لاشوں سے جب بد بو کے بھبھو کے اُٹھتے تو اُسے گھٹن محسوس ہوتی۔
چاروں طرف پھیلی اداسی، تنہائی جب اُسے مضطرب کرتی، اور جب سوچوں کے لامتناہی سمندر میں ڈوب ڈوب کر ابھرتی اور ابھر اُبھر کر ڈوبتی تو کہتی۔
اذیت کی اس اندھی کھائی میں پڑے رہنے سے بہتر ہے میں یہاں سے اُڑ جاؤں، اُڑنے کے لیے طاقتِ پرواز بھی جمع کر لیتی مگر پھر حوصلہ ہار کر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جاتی۔
پھر ایک دن اُس نے اپنے اندر کے ڈر وسوسوں کو خیر باد کہا اور زندان سے ایک لمبی اُڑان بھری۔ اُسے لگا وہ کھلی، صاف ستھری، خوبصورت فضا میں آگئی ہے۔ لمبی لمبی سانسیں لے کر سکون اپنے اندر اُتارنے لگی۔ شوخیِ پرواز میں وہ کبھی اپنے پروں کو جھاڑتی پھڑ پھڑاتی تو کبھی یونہی دائیں بائیں اُوپر نیچے جھومتی، وہ ابھی ان آزاد فضاؤں میں جھوم ہی رہی تھی کہ فضا کے گدھوں نے اُسے اپنے خونخواروں پنجوں میں دبوچ لیا۔ عقاب اپنے نوکیلے ناخن باہر نکال کر اُس کی طرف بڑھنے لگے، چالاک کوؤں نے جب معصوم شکار کو دیکھا تو خوشی سے اُس کے اردگرد رقص کرنے لگے، کوئی اُس کی دُم کو چھیڑتا تو کوئی اُس کے پروں کو نوچتا۔
یہ دیکھ کر اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، وہ اُن خونخواروں کی گرفت میں بے بس و لاچار پھڑپھڑانے لگی سارے منظر یکسر بدل گئے، وہ فضا جو کھلی اور خوبصورت تھی اُس پر تنگ کر دی گئی۔ وہ اپنا زخمی وجود لے کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر اُن خونخواروں کے درمیان سے اُڑی اور واپس اپنے قید خانے میں آ گئی۔
ڈر، خوف، کراہت اور اذیت کی ملی جلی کیفیت نے اُسے دم بخود کر دیا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر تھر تھر کانپتی جاتی اور روتی جاتی۔ کبھی اپنے پروں کو جھاڑتی تو کبھی زخموں کو سہلاتی۔ اُڑان کے اس ایک واقعے نے اُس کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بات بات پر رونے لگتی، ہلکی سی آہٹ پر ڈر جاتی، رات کو سوتے ہوئے اچانک اُٹھ کر بیٹھ جاتی، کئی مہینوں تک یہ واقعہ اُس کو حراساں کر تا رہا۔
کبھی کبھی سلاخوں کے پیچھے سے وہ جب آسمان پر اپنے جیسی چڑیوں کو اُڑتا ہوا دیکھتی تو سوچتی یہ بھی تو اُس کی ہم نسل ہیں، یہ کس قدر خود اعتمادی سے اُڑتی ہیں۔ پھر اُسے ہی کیوں قید میں رکھا گیا، فضا اُس کے لیے ہی کیوں تنگ کر دی گئی؟
ان سوالوں کے جواب میں اُس کے اندر سے ہمیشہ ایک آواز اُبھرتی۔
"بہادری، حوصلہ، خوداعتمادی"
بس ان سب چیزوں کو پانے کے لیے اُسے ہمت کرنے کی ضرورت تھی۔ پھر اُس نے اپنی مہینوں سے سر اُٹھاتی آواز پر لبیک کہا اور اس بار اپنے ساتھ خود اعتمای، بہادری اور حوصلے کو لے کر اُڑی، فضا کے گدھوں، عقابوں، شِکروں، چالاک کوؤں نے پھر اُس پر جھپٹنا چاہا مگر اس دفعہ وہ ڈری نہیں سہمی نہیں اُن کے سامنے ڈٹ کر اُن کا مقابلہ کرنے لگی، اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے خوبصورت منزلوں کی تلاش میں اُڑان بھرتی چڑیا سب سے ٹکرا گئی بالکل ایسے جیسے ایک ممولہ شہباز سے لڑ جاتا ہے۔ اُن کو مخاطب کرکے کہنے لگی:
"مجھے کمزور سمجھ کر وار کرو گے تو آنکھیں نوچ لوں گی۔ میری بہادری، میرے بلند و بانگ حوصلے سے ابھی تم لوگ واقف نہیں ہو، جلد ہی میرے آہنی پروں سے ٹکڑا کر خود کو زخمی کر لو گے"۔
یہ کہہ کر وہ اپنے مضبوط، طاقتور پروں سے اپنی کھلی موافق فضا میں ایک لمبی اُڑان بھر گئی۔
فضا میں سورج اپنی تمازت پھیلا رہا تھا، ہر چیز اُس کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں تھی، اُس کے پروں میں کئی سو پاور کے بلب ایک ساتھ جل رہے تھے۔
وہ جو درد کا استعارہ بنی اوندھے منہ پڑی تھی اپنے زورِ بازو سے اپنے کردار کی مضبوطی سے، ہمت و استقلال کا استعارہ بن گئی۔