آج وہ دور آ گیا ہے کہ ہر مذہبی تہوار کے اختتام پر شکر بجا لانے کو جی کرتا ہے، کیونکہ اب ہمارے تہواروں کو منانے کا طریقہ انتہائی پُرشور اور عوام الناس کیلئے اذیت ناک بنتا چلا جا رہا ہے۔
ہمارے بچپن میں میلادالنبی کا تہوار بہت خوشی اور طمانیت کا باعث ہوتا تھا۔ ہم اس دن کا انتظار کیا کرتے تھے، ایک سادگی اور لطف کا سماں ہوتا تھا، جھنڈیاں، چراغاں، جلوس، سبیلیں وغیرہ۔۔ گھر گھر اشیائے خوردونوش بانٹنا۔۔ گھر والے خود ہمیں جلوس میں بھیجا کرتے تھے۔ تب نعتیں بھی پُرسوز اور وجد کی کیفیت برپا کرنے والی ہوا کرتی تھیں۔
مگر اب اس تہوار کو اذیت ناک حد تک وبال جان بنا دیا گیا ہے۔ بالخصوص گنجان آباد شہری علاقوں میں سجاوٹ کے نام پر ہر دوسری گلی میں رستہ بند یا پھر ٹریفک بلاک، اسقدر بے جا شور و غوغا مچا رکھا ہے کہ سر میں درد ہونے لگے۔ ہر گلی میں دو چار مقامات پر اونچی آواز میں ڈیک پر نعت کے نام پر بے ہنگم میوزک چل رہا۔ پٹاخوں اور فائرنگ کا شور اس کے علاوہ ہے۔ پھر ہندؤں کی طرز پر انکے مذہبی تہواروں کا ہر ہر انداز کاپی کیا جا رہا۔ مثلا شبیہ کے نام پر مقدس مقامات کے ماڈل بنائے جاتے ہیں، نجانے اس سے کیا پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی؟ دن کے اختتام پر جب عوام آپے سے بالکل باہر ہو جاتی ہے تو براہ راست انڈین گانے یا فاسٹ میوزک والی قوالی ساؤنڈ سسٹم پر لگا کر دھمال اور ڈانس شروع ہو جاتا ہے
مساجد بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاوڈ اسپیکرز کا ناجائز استعمال کر رہی ہیں۔ اور عوام کی بھی ایک بڑی تعداد گلی محلوں میں بجلی کے کُنڈے لگا کر گلیاں روشن کئے ہوئے ہے۔ کوئی انہیں روک نہیں سکتا، کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس دونمبری سے ٹوکنے والا توہین کا مرتکب ہوگا۔
عقیدت کے نام پر اربوں روپے ایک ہی دن میں ہوا میں اڑا دیے جائیں گے، جبکہ اس رقم کو چیریٹی کی شکل دے کر اجتماعی طور پر بیشمار مثبت اور فلاحی کام سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔ بہت سی زندگیاں آسان بنائی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے نبی پاک ﷺ کی حقیقی تعلیمات پر بات کرنے اور اُنکے فلاح انسانیت کے پیغام کو آگے بڑھانے کیلئے کسی کے پاس وقت ہے اور ناں ہی اس میں کوئی دلچسپی۔
نجانے کب آج کا دن تمام ہوگا اور کب بقیہ عوام کو سکون کا سانس حاصل ہوگا۔