کپتان جلسے کرے گا، اچھی بات ہے بالکل کرے، یہ اسکا حق ہے۔ سیاسی جلسے پہلے بھی بڑے کیے۔ 2013 میں تو ریکارڈ بڑے جلسے کیے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کا جذباتی سپورٹر ڈیڈیکیٹڈ ہے وہ نکلتا ہے جلسوں کیلئے۔ لیکن اگر کوئی اس واہمے میں ہے کہ کپتان کے سپورٹرز کی آواز پورے پاکستان کی آواز ہے تو یہ ہرگز درست نہیں۔
ایک تو جلسے انتخابی نتائج میں کنورٹ ہوں یہ ضروری نہیں۔ یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے۔ مذہبی رہنماؤں کے بڑے اجتماعات بھی اسکی مثال ہیں، الیکشن ڈے پر نشستیں مگر وہ اس تناسب سے نکال نہیں پاتے۔ پورے ضلع سے پچاس ہزار جذباتی بندہ اکٹھا کر لینا مختلف بات ہے مگر الیکشن ڈے پر پچاس ہزار ووٹر ہر حلقے سے نکالنا بالکل الگ بات ہے۔ بالخصوص اس شخص کیلئے جسکی حالیہ حکومت میں انتہائی پراُمید عوام تک ناصرف متوقع ثمرات نہیں پہنچ پائے بلکہ تنگدستی میں بیحد اضافہ بھی ہوا۔ کرپشن سکینڈلز اور نااہلی کی داستانیں اسکے علاوہ ہیں۔
دوسری بات، مجھے پتا ہے یہ بات تحریک انصاف کے دوستوں کو پسند نہیں آئے گی۔ لیکن عمران کے لگ بھگ چار سالہ اقتدار کا تجربہ کر لینے کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ عمران کے پاس اب اقتدار میں آ کر پاکستان کے عوام یا اسکے اداروں کو دینے کیلئے ماسوائے کھوکھلی جذباتیت کے کچھ بچا ہے۔ وہ اور اُسکا سو کالڈ ویژن آلریڈی ٹرائی ہو چکا ناں۔ یا پھر اگر اسکے گزشتہ ویژنری دعووں میں سے کوئی چیز ٹرائی ہونے سے رہ گئی ہو تو بتا دیجئے۔
اب جو نیا بیانیہ گھڑا گیا ہے انٹرنیشنل سازش/غداری والا۔ جس میں امریکہ تک کو اپنی لوکل سیاست کا ہدف بنا لیا گیا ہے۔۔ ایک تو معذرت کیساتھ، ابھی تک اس سازش والی بات سے میں خود کو لاجیکلی قائل نہیں کر پایا۔ آپکو کیا لگتا ہے کیا ہمارے اداروں، بزنس اور ملکی قیادت کو ایسا موقف رکھنے والا شخص قابلِ قبول ہو گا؟
مزید اگر اس پراپیگنڈے کا ڈراپ سین بھی گزشتہ ہڑبونگ دعووں مثلا "پینتیس پنکچرز" جیسا ہوا تو معقول اور پراگریسیو حلقوں میں خان کا کیا قد کٹھ رہ جائے گا کہ محض اپنی ڈوبتی ہوئی ڈومیسٹک سیاست کو بچانے کیلئے ناصرف ملک میں امریکہ مخالف جذبے بھڑکا دیے بلکہ ویسٹرن ورلڈ کیساتھ خوامخواہ ایک مخاصمت بھی قائم کر لی۔
یعنی اقتدار میں آ کر سطحی جذباتیت بیچنا اور امریکہ کیساتھ سینگ پھنسانے کے سوا اب کیا ویژن بچا ہے عمران کے پاس؟
اور بغیر کسی سازشی ثبوت کے "امریکہ نامنظور" والے ٹرینڈ چلانے والے امیچوور لوگوں کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ مجھ سمیت بہت سے پروفیشنلز، سروسز اور کمپنیوں کا ذریعہ آمدن بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی و یوروپی کلائنٹس کی مرہونِ منت ہے۔ آج یہ سب کلائنٹس اپنا کام بھارت یا کسی دوسرے ملک منتقل کرلیں، تو جس سچویشن کا ہمیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اسکا تو اندازہ لگانا بھی تکلیف دہ ہے۔