بھارتی فلموں کا شاید ہی کوئی ناظر ہو جو ہدایتکار راجو ہیرانی کا پرستار نہ ہو۔ منا بھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منا بھائی، تھری ایڈیٹس اور پی کے جیسی ذہن ساز فلموں کے خالق کی نئی فلم "سنجو" جس کا بیتابی سے انتظار تھا مجھے مخمصے میں ڈالنے کا باعث بنی کہ فلم کی تعریف کی جائے یا نہیں۔ جب آپ تخلیق کار کو ذاتی طور پر پسند کرنے لگو تو پھر اس کی تخلیق میں کیڑے نکالنا یا اسے ریجیکٹ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس جذباتی وابستگی کا نقصان البتہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر غیر مستحق تخلیقات بھی تعریف و اسناد کے ڈونگرے سمیٹ لے جاتی ہیں۔
سنجو جس کی مارکیٹنگ معروف اداکار سنجے دت کی لائف بائیوگرافی بتا کر کی جا رہی تھی، اصل میں سنجے دت کی زندگی کے صرف اُن موٹیویشنل، انسپریشنل اور ایموشنل پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جن کے ذریعے سنجے دت کے کردار کو ایک سوفٹ امیج دے کر فلم بینوں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ اور جن ایشوز پر فلم بین سنجے دت سے نفرت کر سکتا تھا ان ایشوز کو یا تو دکھایا ہی نہیں گیا یا پھر گول مول یا مزاحیہ انداز میں سرسری سا تذکرہ کر دیا گیا۔
فلم میں آپکو دیکھنے کو ملے گا:
سنجو کا نوجوانی میں بری طرح نشے کی لت کا شکار ہونا اور پھر اس سے چھٹکارا پانا، یہ مجھے بہت موٹیویشنل لگا، مگر سنجے جس آسانی سے خطرناک ڈرگز کا عادی بن گیا وہ ناقابلِ یقین لگا۔
فلم میں سنجے کا اپنے خلاف دہشت گردی کےمقدموں سے لڑنا، جیل میں بدترین سختیوں کا سامنا کرنا، سزا کاٹ کر رہا ہونا اور پھر انڈر ورلڈ سے اپنے کنکشنز ختم کرنے کے جذباتی مناظر دکھائے گئے ہیں۔ مگر فلم میں اس کے جرائم مثلا انڈر ورلڈ کے لوگوں سے غیر قانونی اسلحہ خریدنے کی کوئی تسلی بخش منطق نہیں بتائی گئی۔ اگر اسے خوف تھا تو ایک سلیبرٹی باپ کے بیٹے کو لائسنس یافتہ اسلحہ خریدنے میں بھلا کیا رکاوٹ درپیش تھی یہ ہمیں نہیں بتایا گیا۔
ناں ہی بتایا گیا کہ نشے سے چھٹکارہ پا کر اچھا بچہ بننے کے بعد وہ وہ انڈرورلڈ کیساتھ کیونکر منسلک ہو گیا تھا؟ وہ انڈر ورلڈ میں کیا کیا ایکٹیویٹیز کرتا رہا؟ کن جرائم پیشہ افراد کو کیا کیا فیوورز دیتا اور لیتا رہا اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ صرف انڈر ورلڈ سے قطع تعلق کرنے کا ایک جذباتی سین دکھا کر اسے ہیرو بنا دیا گیا۔
فلم میں سنجو کی تیسری بیوی جسے اسکے ساتھ بہت مخلص دکھایا گیا ہے مگر اس کی پہلی دو بیویوں اور بالخصوص اسکی پہلی بیٹی جو سنجےسے قطع تعلق کیے ہوئے ہے انکا تذکرہ تک نہیں ہے۔
دنیا سنجے کو ایک فلمسٹار کی حیثیت سے جانتی ہے مگر فلم میں اس کے فنی کیرئر، معروف فلموں، گیتوں اور بیشمار افیئرز کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ماسوائے "منا بھائی" کے جو ڈائریکٹر راجو ہیرانی کی اپنی ہی فلم ہے۔
فلم کا ایک اہم پیغام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے گھناؤنے بزنس، بریکنگ نیوز کلچر، منفی رپورٹنگ اور کسی سلیبریٹی کی زندگی پر اسکے منفی اثرات کو بےنقاب کرنا بھی ہے۔ اور ڈائریکٹر راجو اپنا یہ پیغام اپنے فلم بین تک پہنچانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
شفیق باپ سنیل دت کا اپنے بیٹے سنجے کے ساتھ تعلق فلم کا اہم حصہ ہے۔ سنیل دت نے کس طرح ہر موقع پر اپنے بیٹے کی رہنمائی کی، کس طرح مشکل وقت میں بیٹے کا ساتھ دیا، قانونی جنگ لڑی اور کسطرح فلمی گیتوں کے ذریعے بیٹے کی رہنمائی کے لئے پیغامات دیئے وہ قابل دید، جذباتی اور تحسین کے لائق ہے
فلم کا منتخب کردہ بنیادی موضوع اور کہانی اوور آل بہت خشک اور سنجیدہ ہے، جسے بیلنس کرنے کیلئے راجو ہیرانی نے اپنے روایتی انداز میں مزاح شامل کرنے کی کوشش کی ہے جسے میں کوئی بہت یادگار کامیڈی تو نہیں سمجھتا مگر یہ بیشتر مقامات پر سینما بینوں کو ہنسانے میں کامیاب دکھائی دی۔ صرف اسی مقصد کیلئے فلم میں سنجے کے دوست کملیش کے روپ میں ایک فرضی مزاحیہ کردار بھی شامل کیا گیا۔
فلم میں صرف دو گانے ہیں دونوں بیحد اچھے ہیں۔ مگر ایڈٹ کرتے ہوئے گانا " میں بڑھیا تُو بھی بڑھیا" آدھا کاٹ دیا گیا، جس سے مزہ کرکرا ہوا، دوسرا گیت "کر ہر میدان فتح" بہت موٹیویشنل ہے، یہ گیت اور چند دوسرے انسپریشنل مناظر فلم دیکھتے ہوئے ناظر کو جذباتی کر دیتے ہیں
فلم میں سب سے زیادہ محنت اداکار رنبیر کپور کو سنجے دت جیسا دکھانے پر کی گئی ہے۔ بلاشبہ اس نوعیت کی فلم کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ مجھے راجو اور اسکی ٹیم اس کوشش میں ستر فیصد کامیاب دکھائی دیے۔ فلم میں رنبیر کو سنجے دت کے پانچ چھ مختلف ادوار جیسے اوتار میں نظر آنا تھا، کہیں نوجوان، کہیں پتلا، کہیں باڈی بلڈر، کہیں موٹا اور کہیں بوڑھا۔ ۔ یہ سب ٹرانسفارمیشن بیحد عمدگی سے فلمائی گئی ہے۔
اسی ٹرانسفارمیشن کا کمال ہے کہ رنبیر کپور کی ایکٹنگ کی بجائے فلم بین اس کی ٹرانسفارمیشن، سنجے دت جیسے حلیے، ڈیل ڈول اور حرکات و سکنات ہی کو نوٹس کرتا رہ جاتا ہے اور رنبیر کپور کی اداکاری اس ٹرانسفارمیشن تلے کہیں دب جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں رنبیر کپور نے فلم میں سنجے دت کی نقل اچھی اتاری ہے مگر سنجو کے کردار میں مجھے رنبیر کی اداکاری بہت زیادہ متاثر نہیں کر سکی، بلکہ رنبیر کپور کی نسبت اس کے دوست کملیش (وکی کوشال) کی اداکاری زیادہ جاندار لگی۔ پریش راول منجھے ہوئے اداکار ہیں۔ وہ سنیل دت جیسے دکھائی اور سنائی تو نہیں دیے مگر ایک باپ کے کردار میں انکی اداکاری متاثر کن تھی۔
راجو ہیرانی کی ہدایتکاری اچھی ہے، محنت نظر بھی آئی، مگر اس کی گزشتہ فلموں کے مقابلے میں یہ فلم اور اسکا امپیکٹ بہت زیادہ سٹرونگ نہیں لگا۔ سینیما سے اتر جانے کے بعد یہ بھی "دنگل" کیطرح ایوریج فلموں کی لسٹ میں ہی شمار ہو گی۔
فلم سنجو کی جسقدر ہائپ بنا دی گئی ہے ہو سکتا ہے یہ سینما میں بزنس کے ریکارڈ قائم کر دے، مگر آجکل بزنس کے پیچھے ڈسٹریبیوشن، مارکیٹنگ اور دیگر فیکٹرز بھی ملوث ہیں جبھی "ریس تھری" اور "ٹائیگر زندہ ہے" جیسی فلمیں بھی ریکارڈ بزنس کر جاتی ہیں۔
باوجود تمامتر خوبیوں اور خامیوں کے میں یہ فلم ایک بار ضرور دیکھنے کا مشورہ دوں گا کیونکہ شاید پہلی بار بالی ووڈ میں کسی فلم انڈسٹری کے سلیبریٹی کی زندگی پر بائیوگرافی بنائی گئی ہے۔ سنجے دت کی زندگی کے مختلف ادوار کی ٹرانسفارمیشن، سنجے دت کے کیس کی عدالتی ہسٹری اورالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے کردار بارے پیغام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک اہم فلم ہے۔