خرّم امتیاز
انسانی فطرت ہے اسے ایک شخصی کمفرٹ میں رہنے کے لئے اپنے ہم مزاجوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ناگزیر ہوتا ہے، جن کے ساتھ اپنی مرضی کی سپیس اور باؤنڈریز کے اندر رہتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی شئیرنگ (یا کم از کم اظہارِ خیال ہی) ممکن ہو سکے۔ انسان کی ساری زندگی ہم مزاج ڈھونڈنے اور انہیں خود سے قریب کرنے کی تگ و دو میں گزر جاتی ہے
حقیقی زندگی میں چند ہم مزاجوں کا حصول خوش قسمتی سمجھا جاسکتا ہے، عموما ایسے ہی لوگ ہمارے بیسٹ فرینڈز ہوتے ہیں۔ لیکن ہم مزاجوں کے حصول میں سب لوگ اسقدر خوش قسمت نہیں ہوتے، پھر کچھ مسائل ہماری اپنی شخصیت کے بھی بیشتر لوگوں کو ہم سے دور کیےرکھتے ہیں۔
حقیقی زندگی میں ہمیں "بائی ڈیفالٹ دستیاب شخصیات" کو لامحالہ ہم مزاج بنانے کی کوشش کرنا پڑتی ہے، جو اکثر "ایڈجسٹمنٹ"، "کمپرومائز" یا پھر خود کو فریب دے کر انکے ساتھ سمے بتانے پر مرتکز ہوتی ہیں۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ایک دروازہ کھولا ہے جو ہمیں بہت آسانی سے دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود اپنے ہم مزاج تک پہنچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ گو کہ یہ تعلق عموما ورچوئل ہوتا ہے، لیکن اب ہم آئے دن مختلف شعبوں کے افراد کو برقی رابطوں کی بندش سے آزاد ہو کر کسی مشترکہ دلچسپی کی بدولت حقیقی زندگیوں میں مل بیٹھنے کے اسباب بناتے بھی دیکھ رہے ہیں۔ "بیٹھک" فیملی گروپ بذاتِ خود اسکی بہت عمدہ مثال ہے۔
سوال یہ کہ سب اچھا ہو رہا ہے تو پھر اکتاہٹ کیسی؟
انسانی فطرت اِس حوالے سے عجیب ہے، کہ جب من چاہی شے وافر دستیاب ہونے لگے تب بھی وہ یکسانیت کا شکار ہو کر فرار چاہنے لگتا ہے۔ ہم مزاجوں کے گروپ میں زیادہ لوگ شامل ہو جائیں تو انھیں فِلٹر کر کے اپنے لئے بہتر سے بہتر ہم مزاجوں کا "سَب گروپ" بناتا چلا جاتا ہے۔ پرفیکٹ ہم مزاج ملتا نہیں اور فِلٹرنگ کا یہ سلسلہ کبھی رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ یعنی ہم جسقدر لوگوں کے ساتھ انٹریکٹ کرتے ہیں اس کے نتیجے میں ہر کچھ عرصے بعد ہمیں کچھ لوگوں کو اپنی سوشل زندگی سے آؤٹ کرنے کی نوبت آن پڑتی ہے۔ سوسایٹی میں بڑھتی عدم برداشت بھی ایک اہم فیکٹر ہے مگر جب لوگوں کو زندگی سے فلٹر کرنا اسقدر آسان ہو جائے تو وہ باتیں جن پر حقیقی زندگی میں کمپرومائز کر کے تعلقات گھسیٹے جا رہے ہوتے ہیں، اس سے کئی درجے ہلکی نوعیت کی باتوں پر سوشل میڈیا پر یا تو دوست بلاک یا پھر اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کیے جا رہے ہوتے ہیں۔