بھٹی صاحب کو ہمیشہ سے بزنس کرنے کی کھرک رہتی تھی۔ کھرک تو ویسے سچی بات ہے ہلکی پھلکی مجھے بھی ہوتی تھی مگر سست آدمی خواری سے دور بھاگتا ہے سو میں کم از کم اس محنت سے بھاگتا ہی رہا۔ قریب چھ برس قبل بھٹی صاحب نے Software Developer اور Database Architect ہونے کے باوجود اپنی پرائیویٹ چھ ہندسوں پر مشتمل ملازمت چھوڑ کر ایک عملی مگر عام کاروبار سے ہٹ کر دھندہ شروع کیا۔ اس بزنس کا نام تھا پھل سبزی ڈوٹ پی کے۔
اسلام آباد کے ایک سیکٹر میں شروع ہونے والے اس بزنس کی بنیادی تھیم منڈی سے معیاری مال لا کر بذریعہ ویب سائٹ آرڈرز گھروں تک پہنچانا تھا۔ میں اس بزنس شریف میں بھٹی صاحب کا انوسٹمنٹ پارٹنر تھا۔ ہمارے ساتھ ایک اور دوست بھی شامل تھا۔ باقی کام اور ڈیلیوریز کرنے کے لیے مزید لڑکے موجود رہتے تھے۔ مجھے تو چلیں آپ کدو سمجھ لیں کوئی مسئلہ نہیں مگر بھٹی صاحب اور ہمارا تیسرا پارٹنر، یہ دونوں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں چیتے تھے۔ دونوں کے پاس اپنی گاڑیاں تھیں، بھٹی صاحب ایپلیکیشن ڈیویلپمنٹ اور ہم باقی کے دو آئی ٹی انفراسٹرکچر کے بندے تھے، سو آئی ٹی والا معاملہ گھر کی کھیتی تھا۔
میں ان دنوں ابو ظہبی ہوتا تھا اور آسٹریلین امگریشن پر کام کا آغاز شروع کرنے والا تھا۔ اسی بیچ پاکستان چکر لگا اور پھل سبزی ڈاٹ پی کے میں عملی حصہ لینے کا موقع ملا۔ اس تجربے کے دوران ایک وقت میں ہم نے آفس ہی کو پھل سبزی کی دوکان کا درجہ بھی دے دیا۔ گردن میں سریے کا مسئلہ چونکہ نہیں تھا لہٰذا ہم منڈیوں میں بھی پھرتے پائے جاتے، سامان بھی اکثر خود ہی لادتے اور کئی بار ڈلیوری بھی خود دینے نکل پڑتے۔ اور یہاں سے شروع ہوتا ہے اس ویڈیو سے متعلق ہمارا مدعا، مگر دو گھڑی یہیں رک کر ایک دو باتیں اور۔
ہم ڈلیوری کرنے والوں کو، پھل سبزی بیچنے والوں کو، پیٹرول پمپ پر کھڑے لوگوں کو، منڈی میں جانور بیچنے والوں کو خود سے کمتر کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر موجود اس خناس کا تعلق دوسروں کے مالی حالات سے ہے؟ کیا اچھی انگریزی ہماری دوسروں کے لیے تعظیم و تکریم کا پیمانہ ہے؟ کیا ہمارا احترام اور بات کرنے کا طریقہ دوسروں کی اچھی وضع قطع کا متقاضی ہے؟ اور اگر ان سب سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو کیا ایسا ہونا چاہیے؟
دو تین نئے پرانے واقعات ایسے ہیں جو فی الوقت میرے ذہن میں آرہے ہیں۔
غالباً یونیورسٹی دور تھا، میں اور ایک قریبی دوست کارخانو پشاور سے واپس آرہے تھے۔ شکل صورت میں ہم کم و پیش ایک سے ہی تھے، دوست نے البتہ جینز شرٹ پہنی تھی جبکہ میں افغانی سٹائل کرتے میں ملبوس تھا۔ کارخانو سے نکلتے ہوئے پولیس نے پبلک ٹرانسپورٹ وین کو روکا اور مجھ سمیت دو تین بندوں کو خشک لہجے میں باہر نکال کر تلاشی شناخت وغیرہ چیک کی۔ مجھے برا تو لگا تھا لیکن تب دوست کے ساتھ شغل میلے میں بات آئی گئی ہوگئی۔
اسی طرح اس بار پاکستان گیا تو فرسٹ کزن کی شادی تھی۔ شادی کے لیے شاپنگ کرنی تھی۔ مجھے اور کزن کو کپڑے خریدنے تھے، ہم دونوں بائیک پر ہی طارق روڈ نکل گئے۔ آؤٹ لیٹ کا اب مجھے نام یاد نہیں لیکن طارق روڈ پر وہ کرتوں کی اچھی بڑی آؤٹ لیٹ ہے۔ بائیک سے اتر کر ہم نے سگریٹ پھونکی اور اس دوران میں نوٹ کرتا رہا کہ آؤٹ لیٹ کے باہر کھڑا ہر آنے والے کے لیے دروازہ کھول رہا تھا (جس سے مجھے ویسے بھی سخت چڑ ہے کہ یہ بلاوجہ کا وی آئی پی کلچر ہے)۔ اس کے باوجود مزے کی بات یہ کہ گارڈ نے ہمیں بائیک سے اترتا دیکھا اور ہمارے لیے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ مجھے اس پر کافی ہنسی بھی آئی اور میں نے کزن کو بھی یہ بات نوٹ کروائی۔ اچھا ہم باہر نکلے تو اسی گارڈ نے ہمیں اندر سے کوئی چار چھ جوڑوں سے لدا دیکھ کر خود دروازہ کھول دیا۔ ہم آگے بڑھ کر ایک بار پھر ہنس دیے۔
پھل سبزی ڈاٹ پی کے میں بھی ہمیں ایسے کئی تجربات دیکھنے کو ملے۔ مطلب پھل سبزی کے دوکان نما آفس میں دیکھ کر لوگ جس طرح ہمیں ٹریٹ کرنے کی کوشش کرتے مجھے پورا یقین ہے کہ بھٹی صاحب کو ان کے اسلام آباد والے آفس میں دیکھ کر یا مجھے ابو ظہبی آفس میں دیکھ کو انہی لوگوں کا رویہ یا برتاؤ بالکل الگ ہوتا۔
خیر۔۔ پھل سبزی ڈاٹ پی کے تو آخر میں ہمیں ختم کرنا پڑا۔ کیوں ختم کیا اس کا جواب کسی دن بھٹی صاحب ترنگ میں ہوئے تو لمبے چوڑے مضمون کے ذریعے شاید دے دیں۔ سوال آج کا البتہ یہ ہے کہ ریسٹورینٹ یا کیفے کھولنے میں، ڈلیوری کرنے میں، پیٹرول پمپ پر جاب کرنے میں، اوبر یا ٹیکسی چلانے میں یا پھر جانوروں کے بیوپار میں ایک پڑھا لکھا بندہ کیوں داخل نہیں ہو سکتا؟ اور اگر ہو جاتا ہے تو اس کے انگریزی بول لینے میں ایسی حیرت کیوں؟
ایک ذیلی سوال بھی۔۔ کاروبار اور کلچر کو مکس کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟