اس بار پاکستان میں کئی باتیں عجیب محسوس ہوئیں جن میں سے ایک ہمارا وی آئی پی کلچر رہا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم جس قدر غریب قوم ہیں الحمد للہ ہمارے اندر کا وی آئی پی کیڑا اتنا ہی مضبوط ہے۔ مثلاً اسلام آباد میں اس بار جوتے صاف کرنے یا پالش کرنے والوں کی بہتات نظر آئی۔ ہوتی پہلے بھی تھی مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گزشتہ تین برس میں اس تعداد میں ٹھیک ٹھاک بڑھوتری ہوئی ہے۔
اب عجب بات اس میں یہ ہے کہ اپنے جوتے صاف یا پالش کرنا یہ خالصتاً ذاتی کام ہے جو میرے خیال میں باقی کی دنیا میں انسان خود ہی کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد کے ہر سیکٹر مرکز میں گاڑی پارک کروانے والے نظر آئیں گے جو ہوتے تو زبردستی کے ہیں مگر بہرحال موجود ہوتے ہیں۔ کسی بھی ریسٹورینٹ یا ملبوسات وغیرہ کے باہر دروازہ کھولنے والا موجود ہوگا۔ امارات میں بعض اوقات ایسا دیکھنے کو ملتا تاہم آسٹریلیا میں ایسا کوئی چکر میری نظر سے نہ گزرا۔
اس نفسیات کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ "خدمات" فراہم کرنے والا جبکہ دوسرے حاصل کرنے والا۔ ممکن ہے میری سمجھ بوجھ اس معاملے میں کم ہوتاہم مجھے ایسا لگتا ہے کہ خدمات کا یہ مائیکرو لیول ہرگز کامیاب نہ ہو گر انہیں فراہم یا استعمال کرنے والوں میں سے ایک بھی ناپید ہوجائے۔ مثلا ً جوتے پالش کرنے والا موجود ہے مگر کروانے والا نہ ملے تو روزگار کا یہ طریق موجود نہ رہے۔ میرا سوال اس کلچر پر سوال اٹھانا نہیں بلکہ اس میں اضافے پر قدرے حیرت کا اظہار ہے۔
غربت یقیناً بڑھی ہے مگر چند دن قبل آئی ایٹ مرکز میں سڑک پر کھڑے سجی فروش پر غور کرتے معلوم ہوا کہ دس منٹ میں ہزار روپے فی سجی کے حساب سے جوان 14 عدد سجیاں بیچ گیا۔ خریدنے والوں میں پیادہ خواتین و حضرات کی تعداد زیادہ تھی، کوئی دو تین گاڑیوں میں بھی تھے، ایک آدھ بقول وحید مراد "بڑی گاڑی" والا دوست بھی تھا۔ یقینا ریاستی سطح پر حالات کا اندازہ لگانے کے لیے یہ سامپل سپیس مختصر ہے تاہم مشاہدہ یہی رہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے ممکن ہے غربت میں اضافے کے باعث اس قسم کی وی آئی پی ٹریٹمنٹ فروشی میں اضافہ ہوا ہو لیکن جب تک ان کو خریدنے والا مائینڈ سیٹ موجود نہ ہو مشکل ہے کہ رزق کے اس طرح کا وسیلہ عام ہو۔
میں اپنی اس سمجھ میں خود کو راسخ پاتا ہوں کہ وی آئی پی کلچر یا احساس برتری کے پیچھے کہیں نہ کہیں احساس کمتری چھپا ہوا ہوتا ہے۔ پیسہ ہے تو یقینا استعمال بھی ہونا چاہیے لیکن پیسہ اس کام کے لیے لگانا جو خالصتا آپ کا ذاتی کام ہو مثلا جوتے پالش کرنا، گاڑی پارک کرنا، گاڑی کا دروازہ کھولنا، ہوٹل کا دروازہ کھولنا، ہیٹر پڑا ہو بس بٹن آن کرنا ہو تب بھی آکر ہیٹر آن کر دینا۔۔ ممکن ہے میں غلط ہوں مگر کہیں نہ کہیں اس کی جڑ انسان کے ماضی میں پنہاں کسی قسم کے پرانے احساس محرومی سے جڑی ہو سکتی ہے۔
مجھے بہرحال بیروں یا ویٹرز کے کانسیپٹ سے بھی کوئی خاص اتفاق نہیں۔ میرا بس چلے تو ہر جگہ سیلف سروس کا نفاذ کر دوں۔