بلب نے جلنے میں دل کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ رات کو یا پھر اندھیرے ہی میں جلتے ہیں۔ گھر میں جتنے بھی افراد رہتے ہیں بلب کی تعداد ان سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔
بلب کی بھی اتنی شکلیں ہیں جتنی کہ حضرتِ انسان کی۔ ان کی پاور صفر سے شروع ہوکر نجانے کہاں تک جاتی ہے بس ہارس پاور سے کم ہوتی ہے۔ یہ جتنا جلتے ہیں اتنا ہی انسانوں پر پیسوں کا لوڈ پڑتا ہے۔ ان کی موت فیوز ہونے سے واقع ہوتی ہے۔
بجلی ان کی خوراک ہے کبھی کبھی بیٹری بھی چبا جاتے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد میں چراغ اور لالٹین یا مشعل وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے۔ ان کی موت پر اکثر موم بتی جلنے لگتی ہے۔
اگر یہ ہاتھوں ہاتھ جلتے ہیں تو ٹارچ کہلاتے ہیں۔ ان میں جو آوارہ گرد ہیں وہ راتوں کو سڑکوں پر کھڑے جلتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ رات کام کی نہ ہوتی اگر یہ نہ جلتے۔ اس دنیا میں صرف میاں بیوی یا اسی قبیلے کے محبوب محبوبہ ہیں جو ان سے جلتے ہیں۔ دنیا کا ہر کام ان کے سہارے ہوتا ہے سوائے ہم بستری کے۔
بلب اب تو دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو انسان "جاں بلب" ہونے لگتا ہے۔ مرا ہوا انسان اور فیوزشدہ بلب ایک جیسے ہوتے ہیں دونوں گھر میں رہنے کے قابل نہیں ہوتے۔