1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شائستہ مفتی/
  4. صدائے دشت ہوں اور راستے میں کوئی نہیں

صدائے دشت ہوں اور راستے میں کوئی نہیں

صدائے دشت ہوں اور راستے میں کوئی نہیں
تمھارے بعد مرے رابطے میں کوئی نہیں

میں پھول بن کے کھلوں اور پھر بکھر جاؤں
کسی کا ہاتھ مرے حادثے میں کوئی نہیں

بہار آئے گی اور پھر سجے گا گلشن بھی
ہمارے خواب کے اس دائرے میں کوئی نہیں

بچھڑ کے ملنا، بچھڑ جانا پھر سدا کے لئے
ذرا سا غور کرو فائدے میں کوئی نہیں

اکیلے شام سے پھرتے تھے سر پہ رات آئی
سہانی رات ہے اور رتجگےمیں کوئی نہیں

بڑے وثوق سے تنکوں کو جوڑ رکھا تھا
عجب نصیب کہ اب گھونسلے میں کوئی نہیں

کہاں گئے ہیں وہ یارانِ خوش خصال کہ اب
ڈھلی ہے رات مگر میکدے میں کوئی نہیں