1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. مطربہ شیخ/
  4. سودائے جنوں

سودائے جنوں

کتاب کے عنوان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ رومانوی شاعری پر مبنی کلام ہے یا پھر افسانوی مجموعہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتاب دلچسپ جاسوسی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ اردو ادب میں جاسوسی کہانیوں کے لئے "ابن صفی" کا نام سر فہرست ہے اور ہمارے والدین سمیت ہم سب ہی ان کی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے دیوانے ہیں۔

جن افراد کے والدین اس وقت ستر اور اسی برس کی عمر کے پیٹے میں ہیں انہوں نے اپنے بچوں کو ابن صفی اور انکی کتب سے محبت ورثے میں دی۔ ان میں میرے والدین بھی شامل ہیں۔ اردو ادب میں جاسوسی ادب کی ابتداء انگریزی ادب کے جاسوسی تراجم سے ہوئی۔ اردو میں باضابطہ طور پر پہلے جاسوسی ناول نگار "ظفر عمر علیگ" ہیں۔

ظفر نے پہلا جاسوسی ناول "نیلی چھتری" 1916ء میں لکھا اور انہوں نے علی گڑھ میں موجود اپنی کوٹھی کا نام بھی "نیلی چھتری" رکھا۔ اس ناول کی بے پناہ شہرت کے بعد انھوں نے مزید ناول لکھے جن میں "بہرام کی گرفتاری"، "چوروں کا کلب" اور "لال کٹھور" نامی ناول کافی مشہور ہوئے۔

میں نے کوشش کی کہ اردو میں وہ خواتین منصفین ڈھونڈ لوں جو جاسوسی کہانیاں و ناول لکھتی ہوں۔ لیکن مل نہ سکیں۔

انگریزی میں اگاتھا کرسٹی کے ناولز کی بابت میں تبصرہ کر بھی چکی ہوں اور بچپن سے ہی انکی زبردست مداح ہوں اور اب خوش قسمتی سےاردو میں حنا خراسانی رضوی صاحبہ کی کتاب مل گئی۔

سن دوہزار چوبیس میں اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام "اوج پبلیکیشنز ملتان" نے کیا ہے۔

عصر حاضر جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، اس جدیدیت میں سراغرسانی آسان ہے یا مشکل یہ بھی ایک سوال ہے۔ لمحہ بہ لمحہ کی روداد و مقامات کا تعین کرتے اسمارٹ فونز اور سی سی ٹی وی کیمرے۔ لیکن پھر بھی جرائم کی بڑھتی تعداد اور انسانی ذہن کی چالاکیاں و عیاریاں، ذہانت و فطانت۔ قانون کے ہاتھ جو واقعی لمبے ہوتے ہیں اور اگر قانون سازی بہترین ہو بمعہ فرائض کی دیانت داری تو مجرم قانون کی گرفت میں ضرور آتے ہیں۔

کتاب میں سات کہانیاں ہیں۔ ساتوں کہانیاں بظاہر سادہ لیکن حقیقت میں پیچیدہ و انسانی کردار و نفسیات کے ظالمانہ پہلووں کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن قانون تمام جرائم کے آڑے آیا۔

قتل۔ منشیات۔ محبت و عشق میں مبتلا جنونیت اور رشتوں کے تقدس پر مبنی ان کہانیوں کا مطالعہ بہترین ذہنی تفریح کے طور پر دلچسپ تجربہ رہا۔

"مدعی سست گواہ چست" موبائل فون ویڈیو کی بلیک میلنگ کی پرلطف کہانی ہے۔ پرلطف کیوں؟ اسلئے کہ کسی فرد کی بے ضرر نفسیاتی عادت پر کہانی کے تانے بانے بنے گئے ہیں۔

"سیر کو سوا سیر" نشہ فروخت کرنے والے مجرمان کے خلاف قانونی کشمکش کی جاندار کہانی ہے۔

کتاب کی پہلی کہانی "سودائے جنوں" محبت، دھوکہ، قتل۔ بھروسے و اعتبار کے قتل کی دلگیر کہانی ہے۔۔ آخری کہانی "دام نسیاں" خوفناک ہے، حقیقتی خوفناک کیونکہ بے بس انسان کے انتقام کا قصہ ہے۔ عورت جب بے بس ہو اور جب کچھ نہ بن سکے تو انتقام لیتی ہے اور کسطرح لیتی ہے۔ یہ کہانی سوچ کے نئے در وا کرتی ہے۔

غرض کتاب کی ہر کہانی پرلطف سراغرسانی کی کڑیوں اور کرمنالوجی کی باریک گھتیوں اور قانونی چارہ جوئی پر مبنی ہے۔

حنا خراسانی رضوی صاحبہ کا قلم بہت رواں دواں اور بے لاگ ہے، ذہن کہانی بنانے کی خداداد صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ امید ہے کہ حنا صاحبہ مزید کہانیاں بھی لکھیں گی اور ہم اردو ادب میں عصر حاضر کی جدید و دلچسپ کہانیاں پڑھیں گے۔

کتاب بذریعہ ناشر منگوائی جا سکتی ہے۔