1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ریٔس احمد کمار/
  4. عشق جس نے بھی کیا

عشق جس نے بھی کیا

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے جن ادیبوں نے اردو ادب کی خدمت خون جگر سے انجام دی ہے ان میں ایک نام پرویز مانوس کا بھی ہے۔ وادی گلپوش کے سرینگر ضلع سے تعلق رکھنے والے پرویز مانوس 6 مارچ 1966 کو چھاپہ پورہ علاقے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سرینگر میں ہی حاصل کی اور بعد میں مزید تعلیم پیرپنچال خطے کے ضلع پونچھ میں مکمل پائی۔ پرویز مانوس پیشے سے ایک مدرس ہیں اور انہوں نے محکمہ تعلیم میں 1986 میں ملازمت اختیار کی ہے۔

1985 میں اپنا ادبی سفر شروع کرنے والے پرویز مانوس نے پہلے شاعری میں اپنی قسمت آزمائی کی جس میں وہ کامیاب ہوتے ہوئے اپنا پہلا شعری مجموعہ "بیتے لمحوں کی سوغاتیں" قارئین کے سامنے پیش کرکے دادوتحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آج بھی وہ اپنے شعری کلام مسلسل سوشل میڈیا پر شئیر کرکے ادبی حلقوں میں پزیرائی حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ پرویز مانوس نہ صرف وادی گلپوش بلکہ قومی سطح پر بھی ایک معروف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ خاکسار کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ کچھ نظموں کو جو انہوں نے تخلیق کیں ہیں ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے جو وادی سے شائع ہونے والے معروف اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔

اردو کے اس ادبی ستارے نے خود کو شاعری تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اردو ادب میں افسانوی مجموعوں سے اضافہ کرتے رہے۔ 1995 میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "ستارے کی موت" منظر عام پر آیا، 2014 میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ "مٹھی بھر چھاؤں" اور 2014 میں ہی تیسرا مجموعہ "گونگی رات کا کرب" بھی شائع ہوا۔ افسانوی مجموعوں کے علاوہ موصوف کے اب تک تین ضخیم ناول بھی سامنے آئے ہیں جیسے سارے جہاں کا درد، برگشتگی اور حال ہی میں عشق جس نے بھی کیا۔ عشق جس نے بھی کیا ایک ضخیم ناول ہے جو 290 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے درخشاں پبلیکیشنز کے زریعے شائع کروایا گیا ہے اور اس کا دیدہ زیب سرورق ایس طارق نے تیار کیا ہے۔

ڈاکٹر الطاف انجم نے اس ناول پر ایک طویل مکالمہ تحریر کیا ہے جو تیرہ صفحات پر مشتمل ہے۔ موصوف لکھتے ہیں "پرویز مانوس نے اپنی بات کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے بعض مقامات پر موقع و محل کے اعتبار سے اشعار تخلیق کئے ہیں یا دوسرے شعراء کے اشعار نقل کئے ہیں جن سے عبارت میں شگفتگی اور بلاغت پیدا ہوئی ہے"۔ سرکردہ کالم نویس الطاف جمیل شاہ اس ناول کا پیش لفظ لکھتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ "وادی کشمیر میں ناول کے حوالے سے ماضی کی تاریخ تابناک رہی ہے کیونکہ کرشن چندر، حامدی کشمیری، عمر مجید، شبنم قیوم، نور شاہ، دیپک بدکی، عبدلغنی شیخ، فاروق رینزو، ترنم ریاض اور رحیم رہبر جیسے ادیبوں نے ناول کی زلفیں سنوارنے میں اپنے قلم اور قرطاس کو آزمایا ہے جبکہ دور حاضر میں اب یہ حالت ہے کہ کبھی کبھار ہی سننے میں آتا ہے کہ کشمیر کے کسی ادیب نے ناول تخلیق کیا ہے"۔

اس ناول پر تبصرہ رقم کرتے ہوئے نامور کالم نگار سبزار احمد بٹ لکھتے ہیں کہ "موصوف کا یہ ناول عشق جس نے بھی کیا ایک بہت ہی دلچسپ اور منفرد انداز کا ناول ہے"۔ حرف تشکر تحریر کرتے ہوئے ناول کے خالق کہتے ہیں کہ گزشتہ تیس برس کے دوران جموں و کشمیر میں ناول نگاری میں کافی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک میں آج بھی باضابطہ کثرت سے ناول لکھے جاتے ہیں۔

ناول عشق جس نے بھی کیا جن اہم کرداروں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے وہ ہیں گلفام عثمانی، گلنار بیگم، شہریار، جبار، ماہرہ، مولوی خلیل الرحمن، نور صبا اور دلاور۔ ایک عدد سیمنٹ فیکٹری اور دوعدد گاڑیوں کے شوروم کے مالک گلفام عثمانی کو یہ ساری دولت اپنے والد شہباز علی سے وراثت میں ملی تھی۔ اپنے باپ نے اسے انتیس برس کی عمر میں ہی دلہے کا سہرا پہنا کر شادی کے بندھن میں باندھ لیا تھا۔ لیکن دادا بننے سے پہلے ہی شہباز علی مالک حقیقی سے جاملے۔ بارہ برس تک گلفام عثمانی کی بیوی گلنار بیگم ماں بننے سے قاصر رہی حالانکہ کافی سارے ڈاکٹروں سے تشخیص بھی کرائی مگر کبھی وہ خوشی نصیب نہ ہوئی جس کی انہیں تلاش تھی۔

ایک دن ایک فقیر ان کے گھر آیا اور گلنار بیگم نے اسے دودھ پلا دیا۔ واپس مڑتے ہوئے اس نے خون سے ایک عجیب سی شکل بنائی۔ دوسرے دن جب گلنار نے اپنے شوہر کو بریف کیس پکڑایا تو اسی وقت اسے چکر سا محسوس ہوا۔ ڈاکٹری معائنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک بچہ پل رہا ہے جو بعد میں شہریار کے نام سے جاننے لگا۔ شہریار کو ماں باپ نے کافی نازونعم سے پالا مگر حد سے زیادہ لاڑ پیار کی وجہ سے وہ کافی ضدی بن گیا۔ ایک دن اس نے قیمتی ایکویریم توڑ دیا جس وجہ سے اس میں رکھی ہوئی تمام مچھلیاں مرگئیں۔ ایک اور مرتبہ اس نے استانی کی جو اسے گھر میں ہی پڑھاتی تھی چوٹی کاٹ دی اور خود بھاگنے میں سفل ہوا۔

ایک دفعہ مقامی پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے اسے دیگر چار ساتھیوں سمیت اسٹنٹ کرتے ہوئے پکڑ لیا تو والد کی سفارش پر ہی اس کی بعد میں رہائی ممکن ہوسکی۔ بی بی اے کرنے کے لیے اسے دیرہ دون بھیج دیا گیا تاکہ اس کے رویے میں تبدیلی لائی جاسکے لیکن وہاں بھی اس نے ہوسٹل میں ہنگامہ مچا دیا اور ہوسٹل کے وارڈن نے سیدھے گلفام عثمانی کو فون پر مطلع کیا۔ سید خلیل الرحمن ایک دورافتادہ گاؤں سے اس پوش کالونی میں ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل خلیل الرحمن بچوں کو دینی تربیت بھی کرتے تھے۔ اس کی دو بیٹیاں نورصبا، حورصبا اور ایک بیٹا عدیل تھا۔ اس کی بیوی پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔

گلفام عثمانی نے بھی خلیل الرحمن کو شہریار کی دینی تربیت کی غرض سے گھر پر بلالیا جو اسے قران وغیرہ کی تعلیم دینے لگا۔ ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں جب اعتکاف کرنے کی خاطر اس نے مسجد میں قیام کیا تو اس کی دختر نورصبا نے ہی اسے باقی اسباق پڑھائے۔ شہریار کچھ عجیب قسم کے سوالات دونوں باپ بیٹیوں سے پوچھتا رہا، جیسے عشق کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ نفس کیا ہے؟ درویش اور صوفی میں کیا فرق ہے۔ نور صبا نے شہریار کو تمام سوالات کے مطمئن جوابات دیے جسے وہ کافی متاثر ہوا۔ پڑھانے کے دوران ہی شہریار کو اسے دلی لگاو ہوا۔ اس کی سحر انگیز آنکھیں، حسن اخلاق، ندامت، لباس اور بات کرنے کا طریقہ شہریار کو مقناطیس کی طرح اپنی جانب کھینچنے لگا۔ دھیرے دھیرے وہ اس کی محبت میں ڈوبتا ہی چلا گیا اور بات وہاں تک پہنچی کہ وہ تنہائیوں میں صرف نورصبا کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔

جبار گلنار بیگم کا بھائی جو پہلے پہلے میاں بیوی کے دکھ درد میں شامل ہو کر ایک مخلص اور ایماندار شخص کے طور پر خود کو پیش کرتا تھا بعد میں ایک آستین کا سانپ ثابت ہوگیا۔ اس نے اپنی بیٹی ماہرہ کو بہن کے گھر میں اس غرض سے بٹھایا تاکہ وہ کوچنگ سینٹر میں اپنی تعلیم مکمل کرپائے۔ گاؤں میں کوچنگ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اس نے بیٹی کو بہن کے گھر چھوڑ دیا۔ ماہرہ ہر طرح سے شہریار کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی تھی اس کا باپ بھی اپنی بیٹی کو شہریار سے ہی شادی کرانا چاہتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ شہریار اکیلے اتنی دھن دولت کا وارث ہے۔

دوسری طرف جب شہریار اپنی ضد پر قائم رہا یعنی وہ نورصبا سے ہی نکاح کرنا چاہتا تھا تو والدین نے اس پر یہ کہتے ہوئے کہ وہ معمولی حسب نسب کے ہیں مختلف قسم کے دباؤ ڈالے۔ شہریار گھر سے باہر کسی دور انجان جگہ بھاگ کر چلا گیا۔ جبار نے دلاور کے زریعے خلیل الرحمن پر غلط الزامات لگواکر شہر بدر کروادیا۔ اسی کالونی میں نور محمد نامی شخص بھی رہتا تھا اور خلیل الرحمن کے ساتھ اس کے بھائی جیسے تعلقات تھے جو بہت ہی دیندار شخص تھا۔ اس کا ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے موت واقع ہوا تھا اور اس کی بیوی رخسانہ محلے والوں کے گھروں کی صفائی وغیرہ کا کام کرتی تھی۔ خلیل الرحمن ہمیشہ اسے ہرممکن مدد کے لئے تیار رہتا تھا۔

ایک دن رخسانہ کی بچی بیمار ہوئی تو خلیل الرحمن رات کے گیارہ بجے دوائی لے کر گیا۔ موقع غنیمت جان کر دلاور نے اس پر سنگین الزامات لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسجد کمیٹی کے ممبران نے خلیل الرحمن اور رخسانہ دونوں کو اہل عیال سمیت کالونی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اچانک فون رسیو کرنے کے دوران جب گلنار کو پتہ چلا کہ اصل ملزم اس کا ہی بھائی ہے تو انہوں نے دونوں باپ بیٹی کو گھر سے بھگادیا۔ وہاں سے نکلتے ہی اس کا حادثہ پیش آتا ہے اور وہ بری طرح زخمی ہوتا ہے جبکہ اس کی بیٹی ماہرہ موقع پر ہی جانبحق ہوجاتی ہے۔

گلفام عثمانی مسجد ممبران کو اصل حقیقت سے آشنا کرتا ہے جو اپنے سنائے ہوئے فیصلے پر نادم ہوجاتے ہیں۔ ادھر گلفام عثمانی اور اس کی اہلیہ اپنے بیٹے کی تلاش میں مسلسل تک دو کررہے ہیں۔ ایک دن گلفام عثمانی اپنے دفتر میں پرانی فائلوں کو دیکھ ہی رہے تھے تو واجد خان جو آئی جی سی آئی ڈی تھے کا فون آیا۔ اس نے اسے باخبر کیا کہ ان کی ٹیم نے گرافکس کے زریعے ان کے بیٹے کی تصویر ملا کر ایک رپورٹ تیار کی، وہ زندہ اور سلامت ہے جو نورانی بابا کے نام سے مشہور ہے۔ دوسرے ہی دن ٹیم کے ساتھ وہ دور پہاڑی کے نزدیک ایک دور افتادہ گاؤں میں پہنچے اور نورانی بابا سے ملنے کی کوشش کی۔

شہریار گھر سے بھاگ کر مسخان بابا نامی پیر بابا سے ملے تھے جس نے اس کی روحانی تربیت کی تھی اور اصل و حقیقی عشق سے باخبر کیا تھا۔ تب سے شہریار نورصبا کے عشق میں نہیں بلکہ خالق کائنات کے عشق میں ڈوب گیا اور نورانی بابا کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ایک مہینہ پہلے بھی دونوں میاں بیوی نورانی بابا سے ملے تھے لیکن اس وقت اس نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی بلکہ یہ کہتے ہوئے انہیں رخصت کیا تھا کہ ان کا بیٹا زندہ ہے جو حقیقی عشق میں غرق ہوا ہے اور ایک دن ان سے ضرور ملے گا۔ پرویز مانوس کا یہ ناول ایک منفرد تخلیق ہونے کے علاوہ سبق آموز بھی ہے جس سے قاری کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اردو ادب میں یہ واقعی ایک اہم اضافہ ہے۔