میں دفاع والے پل سے اوپر چڑھا تو اتحاد والا سگنل گرین تھا، اسپیڈ مزید تیز کر لی سگنل کے قریب پہنچا تو بھی سگنل گرین ھی تھا مگر ایک سفید گاڑی والا پتہ نہیں کس غلط فہمی سے یو ٹرن کرنے سرخ سگنل میں سے گھوم کے سامنے آ گیا، 120 کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی اگر اس کی گاڑی سے ٹکراتی تو حشر نشر دونوں کا ھو جانا تھا، کچھ میں نے بریک اس طرح لگائی کہ سیٹ سے ہی اٹھ گیا اور کچھ اس نے یو ٹرن کرنے کی بجائے گھبرا کر گاڑی سامنے کی جانب ھی گھما دی، فائر بریگیڈ والے سگنل پہ کھڑے ھم پسینہ پسینہ کیفیت میں اللہ جی سے باتیں کر رھے تھے کہ کیا خوب بچایا ھے سبحان تیری قدرت، اور یہ کوئی پہلا موقع تھوڑی ھے آپ نے تو فلاں فلاں جگہ بھی کمال کیا تھا، یہ ساری گفتگو مناسب آواز کے ساتھ پوٹھواری میں چل رھی تھی اور ھم اپنی زندگی کے وہ تمام واقعات کوٹ کر رھے تھے جن میں ھماری جان جاتے جاتے بچی تھی، بلکہ کئی ایک میں تو ہمیں مردہ ھی سمجھ لیا گیا تھا۔
اتنی دیر میں پولیس کے ہوٹر نے ھمارا تراہ نکال دیا، ھماری بائیں طرف والے ٹریک سے ٹریفک پولیس والا اشارہ کر رھا تھا کہ گاڑی آگے نکال کر بس سٹاپ پر روک لو، گاڑی روکی گئی تو شرطہ نکل کر آیا اور ھم سے لائسنس اور گاڑی کی ملکیت کے کاغزات طلب کیئے جو نہایت شرافت کے ساتھ اس کے ہاتھ پہ رکھ دیئے گئے، اب سمجھ رھے تھے کہ وہ پچھلے سگنل کے واقعے کی وجہ سے یہ کارروائی کر رھا ھے، اچانک اس نے ھم سے استفسار کیا کہ وہ فون کدھر ھے جس پر بات کر رھے تھے، چند منٹ کے اندر یہ تیسرا تراہ تھا جو نکالا گیا، کونسا فون اور کونسی بات؟ ھم نے تعجب سے پوچھا، شرطے نے ہمیں غور سے دیکھا اور پہچان کر بولا مطوع غلط بیانی نہیں کرنی صاف صاف بتاؤ کہ تم باتیں کر رھے تھے ناں؟ جی ھاں میں باتیں کر رھا تھا مگر فون پر تو نہیں کر رھا تھا؟ اس نے سر تھوڑا سا آگے کرکے ھماری گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف دیکھ کر سوال کیا پھر کس کے ساتھ کر رھے تھے؟
اللہ کے ساتھ، ھم نے شرطے کا جوابی تراہ نکال دیا، اور اس کو سابقہ سگنل والا واقعہ بتا کر سمجھایا کہ میں اللہ پاک کا تفصیلی شکریہ ادا کر رھا تھا اور اسی کے ساتھ باتیں کر رھا تھا، مگر یا شیخ تم تو ھنس ھنس کر بالکل اس طرح باتیں کر رھے تھے جیسے کسی صدیق کے ساتھ بندہ بات کرتا ھے، اللہ ھمارا سب سے قریبی دوست اور محافظ ھے، میں اس کے ساتھ ھمیشہ اسی طرح بات کیا کرتا ھوں، اس نے پہلے ہمارے چہرے پھر نوکیا این 95 کی طرف دیکھا اور ھمارا مُلکیہ لائسنس ھمارے حوالے کرکے چلا گیا، دوسرے یا تیسرے دن بیل بجی باھر نکل کر دیکھا تو وھی شرطہ کھڑا تھا ساتھ ھی شرطے کی گاڑی کھڑی تھی وہ اپنے کسی مسئلے میں دعا کروانے آیا تھا، یا شیخ واللہ بڑی مشکل میں ھوں دعا کر دیں، میں نے کہا یار اللہ ھماری بات پنجابی میں سن لیتا ھے آپ کی عربی میں نہیں سنتا، وہ مشکلیں اس لئے بھیجتا ھے کہ بندہ اس سے مکالمہ کرے گڑگڑائے، اپنی غلطی کا احساس کرے اور اس بات پر اپنے ایمان کو یقین میں تبدیل کر لے کہ رب کی ڈالی ھوئی مصیبت رب ھی ھٹا سکتا ھے اور وہ رب ھر وقت دستیاب رھتا ھے کہ کوئی مصیبت زدہ خالی ہاتھ نہ لوٹ جائے، اب بھی کبھی کبھار نماز کے بعد اس سے مسکراھٹوں کا تبادلہ بھی ھو جاتا ھے مگر بندہ اللہ پاک سے جُڑ گیا ھے۔