حیض و نفاس اور نکاح و طلاق کے مسائل ھمارے روز مرہ کے حقیقی مسائل ھیں، ان کا سامنا کیئے بغیر چارہ نہیں، جس طرح نبئی کریم ﷺ مردوں کے لئے اسوہ ھیں اسی طرح نبی کریم ﷺ کی ازواج کو مومن عورتوں کے لئے بطور اسوہ چنا گیا ھے اور عورتوں کے مسائل ھمیں ازواجِ مطھرات سے ھی ملیں گے ان کا اور کوئی متبادل نہیں یہانتک کہ نبی ﷺ کی بیٹیاں بھی اس معاملے میں اسوہ نہیں لہذا ان کی کوئی ایسی خبر آپ کو احادیث میں نہیں ملے گی کہ جس کا تعلق زن شو کی ذمہ داریوں سے ھو۔
یہ بات اللہ پاک نے ازواج مطھرات سے خطاب میں واضح کر دی تھی کہ تمہاری غلطی امت میں سرائیت کر جائے گی اور تمہیں اس کا وبال اٹھانا پڑے گا یوں گناہ اور فحاشی میں تمہیں اپنی پیروی کرنے والی عورتوں کے گاناہ میں بھی سے حصہ ملے گا اور تمہارا عذاب دگنا چگنا ھو جائے گا۔
ا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (الاحزاب-30)
اسی طرح اگر تم اللہ اور رسول کی تابعداری کرو گی اور تمہیں دیکھ کر دوسری عورتیں تمہاری پیروی میں اللہ اور رسولﷺ کی تابعداری کریں گی تو تمہیں ان کے اجر میں سے حصہ ملے گا اور تمہارا اجر بھی دگنا چگنا ھوتا رھے گا، اے نبی کی بیویوں تم جیسی دنیا کی کوئی عورت نہیں اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کرو۔
امن یقنت منکن للہ ورسولہٖ وتعمل صالحا نؤتھآ اجرھا مرتین و اعتدنا لھا رزقاً کریماً۔ یٰنسآءَ البنیِّ لستن کاحدٍ من النساءِ ان التقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہٖ مرضُ وقلن قولاً معروفاً۔ (الاحزاب-31-32)
چنانچہ یہ ازواج مطھرات کی دینی ذمہ داری تھی کہ وہ کمبل کے اندر کی زندگی بھی امت کے ساتھ شیئر کریں کیونکہ یہ دین کا حصہ ھے، اور اللہ پاک ھماری ماؤں پر ریت کے ذروں اور پانی کے قطروں اور درختوں کے پتوں اور آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ رحمت کرے اور برکتیں نازل کرے کہ ان حیا کی پتلیوں کو پتہ نہیں کس طرح دل پر پتھر رکھ کر وہ زندگی ھمارے ساتھ شیئر کرنی پڑی اور وہ باتیں جو ھماری مائیں ھم کو ھمارے باپوں کے بارے میں نہ بتائین، ان کو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بتانی پڑیں، ۔
مدینہ صدیوں سے یہودی پس منظر کا حامل تھا اور اھل کتاب کی شریعت کے تابع، مسلمان ھو جانے کے بعد صحابہؓ کو اپنی عائلی زندگی کو بھی یہودیت میں سے نکال کر اسلام کی طرف لانا تھا، یہود حیض کے دوران عورت کا بستر الگ کر دیتے تھے اور اس کے ھاتھ کا پکا ھوا نہیں کھاتے تھے، اس کا کپڑا بھی اپنے ساتھ چھونے نہیں دیتے تھے الغرض عورت اچھوت بن کر رہ جاتی تھی، ۔
اللہ کے رسول ﷺ اس میں انقلابی تبدیلی لائے۔
لہذا امھات المومنین کے ذریعے ھمیں خبر ملی کہ اس حالت میں نہ صرف بستر شیئر کیا جا سکتا ھے بلکہ اگر انٹر کورس نہ کیا جائے تو باقی عورت ھر طرح سے حلال ھے اور اس سے بوس و کنار جائز ھے، یہ ان لوگوں کے لئے غنیمت ھے کہ جن کہ رہ کھہہ کے ایک ھی بیوی ھوتی ھے دوسرا کوئی آپشن نہیں ھوتا۔
عورت کا پکایا ھوا جائز ھے لہذا اس کے ھاتھ کی پکی نہ صرف ھانڈی بلکہ روٹی جو براہ راست اس کے ھاتھ سے پکتی ھے وہ بھی پاک ھے اور خود نبئی کریم ﷺ نے کھائی ھے، رمضان میں اگر سحری کا وقت تھوڑا ھے تو بیوی جنابت میں پکائے اور شوھر بھی حالتِ جنابت میں کھا کر سحری کر لے اور بعد میں غسل کرکے نماز پڑھ لے تو یہ بھی نبئی کریم ﷺ کی عائلی زندگی سے ملتا ھے۔
یہود کسی قانون پر اتنا نہیں تلملائے تھے جتنا اس قانون پر تلملائے تھے، جب انہوں نے سنا کہ محمدﷺ حالت حیض و نفاس میں بھی اختلاطِ زن کی اجازت دیتے ھیں تو انہوں نے کہا کہ " اس شخص نے تو قسم کھا رکھی ھے کہ ھر حال میں ھماری مخالفت کرنی ھے۔
حضرت عاشہؓ سے کہا گیا کہ مجھے مصلی پکڑاؤ، انہوں نے کہا کہ مجھے حیض ھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ حیض تیرے ھاتھ کو نہیں ھے۔
آپ اعتکاف کی حالت میں سر حجرے کے اندر کرتے اور حضرت عائشہؓ سر کو دھو دیتیں حالانکہ حالتِ ایام میں ھوتیں۔
غسل انزال پر فرض ھے یا مجرد دخول پر، یہ بھی ایک مسئلہ تھا، حدیث دونوں ی طرح کی ملتی تھی اگرچہ اس کا موقع الگ الگ تھا مگر صحابہؓ کو کنفیوزن بن گئی تھی۔
الماء من الماء، پانی کے بدلے پانی ھے، یہ مسئلہ اصل میں احتلام سے متعلق تھا اور حدیث اسی کا قانون بتا رھی ھے کہ اگر کسی بندے نے خواب دیکھا ھے مگر پانی نہیں ھے تو غسل بھی واجب نہیں ھے، پانی کے بدلے پانی ھے خواب کے بدلے نہیں، اور اگر کسی نے کپڑے گیلے دیکھے ھیں مگر خواب یاد نہیں تو بھی غسل کرے گا کیونکہ پانی کی موجودگی نے غسل واجب کر دیا ھے۔
کچھ لوگ اس کو ازدواجی تعلق سے متعلق سمجھ کر مباشرت کرتے اور انزال سے پہلے الگ ھو جاتے تو غسل نہیں کرتے تھے کہ پانی کے بدلے پانی ھے۔
ازدواجی تعلق کے لئے دوسری حدیث تھی کہ، (اذا مس الختان الختان فقد وجب الغسل - صحیح مسلم) جب عضو سے عضو مل جائے تو غسل واجب ھو جاتا ھے۔
اس اختلاف پر ازواج مطھرات سے رجوع کیئے بغیر چارہ نہیں تھا، اور ازواجِ مطھرات کو بتائے بغیر چارہ نہیں تھا کیونکہ یہ دین کا حصہ تھا دوسرا لوگ ان کی رائے نہیں شارع نبی ﷺ کا عمل دریافت کرنا چاھتے تھے، خیر جب ایک زوجہؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ فلاں زوجہ کے پاس جاؤ اس کے پاس تمہارے لئے کوئی خبر ھو گی، یعنی ایک شوھر کی بیویاں آپس میں تو اس کے معاملات ڈسکس کر سکتی ھیں مگر باھر بیان نہیں کر سکتیں، مسئلہ معلوم ھونے کے باوجود چونکہ دین کا معاملہ تھا براہ راست متعلقہ فرد سے سننا ضروری تھا ورنہ حضرت عائشہؓ ھی روایت کر دیتیں مگر انہوں نے دوسری کے پاس بھیجا جس نے خبر دی کہ نبئی کریم ﷺ نے بغیر نزول بھی چھوڑ دیا اور خود بھی غسل کیا اور مجھے بھی غسل کا حکم دیا، گویا نبی ﷺ کے عمل سے آپ کے الفاظ کی تخصیص ھو گئی۔
اسی طرح غسل کا معاملہ ھے کہ عورت کو حالت جنابت یا حالتِ ایام کے بعد ایک جیسا ھی غسل کرنا ھے یا کوئی فرق ھے، حضرت عائشہؓ نے بتایا کہ نبئی کریم ﷺ غسلِ جنابت میں بال باندھ کر جُڑا بنانے کا حکم دیتے اور وضو کے بعد پھر پانی سر پر ڈال دینے کا حکم دیتے، جبکہ ایام کے غسل میں بال کھول کر غسل کا حکم دیتے، کیونکہ غسلِ جنابت روزمرہ کا معمول تھا، اس میں عورت کو خاص طور پر سردی کے صحرائی موسم میں بال بھگو کر پشت پر لٹکا دینا مرض اور موت کا سبب بھی بن سکتا تھا کیونکہ اسی جگہ سے رگیں نکل کر باقی بدن تک جاتی ھیں عورت کو چھوٹ دے دی گئی کہ وہ جوڑا بنا کر بال گیلے ھونے سے بچا لے، کچھ لوگوں میں تشدد کا رجحان دیکھنے میں آیا تو حضرت صدیقہؓ نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھا سیدھا عورت کو ٹنڈ کرا دینے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے،؟ پھر یہ کہ ھر بال کے نیچے پانی پہنچانے کی بات چل پڑی کہ اس کے بغیر بندہ پاک نہیں ھوتا، حضرت صدیقہؓ اس مسئلے پر اپنے بھانجے کو چارپائی کھڑی کرکے اس پر کپڑا ڈالا اور بیٹھ کر وضو کیا اور باقی گلاس پانی سر پر ڈال کر دکھایا کہ میں سر پر اتنا پانی ھی ڈالتی تھی اور اللہ کے رسولﷺ میرے سامنے ھوتے تھے مگر مجھے کبھی مل مل کر اس پانی کوسر کے بالوں کی جڑوں تک پہنچانے کا حکم نہیں دیا صرف پانی ڈال دینا کافی ھے، ھر بال کو بھگونا ھمارے فقہاء کا تشدد ھے، یہ رجحان بعض صحابہؓ میں بھی تھا مثلاً حضرت ابن عمرؓ آنکھوں کی پتلیاں کھول کھول کر پانی اندر پہنچاتے تھے جو آگے چل کر ان کی آنکھوں کے مرض اور پھر نابینا پن پر منتج ھوا، حضرت ابوھریرہؓ وضو میں ھاتھ کہنیوں تک دھونا شروع ھو گئے تھے کہ قیامت کو سارے بازو چمکیں گے، جتنے پانی سے نبئی کریم ﷺ غسل فرما لیا کرتے تھے آج اتنے پانی سے ھماری داڑھی بھی نہیں دھوئی جاتی لوگ داڑھی ٹونٹی کے نیچے رکھ کر بند کرنا ھی بھول جاتے ھیں، غسل ایام میں بال کھولے جائیں گے اور خوب مل مل کر نہایا جائے گا۔
الغرض دین کے معاملات میں غسل و جنابت کے مسائل بتانا ازواج النبی ﷺ کا شرعی فرض تھا، ان کا تقابل ھم اپنی ماؤں بہنوں، بیویوں سے نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ پاک نے خود کہہ دیا ھے کہ وہ ناقابلِ تقابل ھیں" یا نساء النبیِ لستن کأحدٍ من النساء " اے نبی ﷺ کی بیویوں تم کسی بھی اور عورت جیسی نہیں ھو، اللہ پاک نے بھی علم والوں سے بیان کرنے کا عہد لیا ھے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ (ال عمران- 187)
اور جب اللہ نے اھل علم سے عہد لیا کہ وہ اس کو بیان کریں گے چھپائیں گے نہیں۔
اسی عہد کی وجہ سے بعض صحابہؓ نے ایک حدیث ساری زندگی چھپا کر رکھی مگر مرتے وقت بیان کر دی یہ کہہ کر کہ اگر یہ آیت نہ ھوتی تو میں کبھی بیان نہ کرتا۔
چنانچہ شرع میں شرم اور مسئلے میں حیا نہیں اور اس سلسلے میں ازواج النبیﷺ پر طعن نہیں کیا جا سکتا نہ ھی ان کا تقابل کیا جا سکتا ھے۔۔
واللہ اعلم بالصواب، وما علینا الا البلاغ