عرض کی تھی کہ روایتیں بنانے اور پھر ان کو مارکیٹ میں لانچ کرنے والے لوگ نہایت ذھین اور ماھرین نفسیات تھے۔ ایک ھی موضوع پر تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ بیس پچیس روایتیں مختلف شہروں سے فلوٹ ھوتی تھیں جن کے راوی بھی کم و بیش کر دیئے جاتے تھے۔ پھر ان کو جمع کرکے پلازا بنا کر امت کو اس کے جھروکوں میں بٹھا دیا جاتا تھا۔
عثمان الشحام کے حوالے سے ھی ناصر الدین الالبانی اپنے سلسلۃ الصحیحہ میں اس روایت کو لائے ہیں اور عثمان کو علی شرط مسلم قبول کیا ھے، یعنی ایک راوی جب بخاری یا مسلم قبول کر لیں تو دوسرے اس کو دودھ کا دھلا ھوا سمجھتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ھے کہ کسی شیعہ راوی کی حدیث اس کے مذھب کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی۔ کسی نے نہ سوچا کہ سرکار شیعہ اھلسنت کے مذھب کی حدیث آپ کو پکڑا کر مسلم شریف کا راوی بن جائے گا، اس کے بعد علی شرطِ بخاری کا تاحیات لائسنس لے کر نکلے گا اور باقی کتابوں میں جو چاہے گا بیان کرے گا، وہ ابوبکر صدیقؓ کے فضائل کی حدیث پکڑا کر لائسنس لے گا اور باھر نکل کر حضرت علیؓ کو خدا قرار دے دے گا، وہ متعے کے خلاف حدیث دے گا اور لائسنس لے کر مکے میں ستر متعے بھی کرے گا۔
کسی مسلم کو قتل کرنے کے بارے میں قرآن کا تفصیلی بیان۔
قرآن نے کسی مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا حرام کیا ھے جب تک کہ اس کا قتل حق ثابت نہ ھو، البتہ قتلِ خطا کا امکان ظاھر کیا ھے کہ آپ نے شکار سمجھ کر تیر مارا اور وہ کھیت میں کسی پیشاب کرنے والے کو لگا اور وہ مر گیا، اس قتل کا قصاص نہیں بلکہ دیت ھے۔ اور غلام آزاد کرنا ھے۔ دیت کی مختلف قسمیں گنوانے کے بعد کیونکہ مقتول مسلم مختلف اسٹیٹس کا ھو سکتا ھے لہذا دیت کی ادائیگی کا طریقہ اور نصاب بھی الگ ھو گا۔
اس کے بعد فرمایا کہ جس نے مسلم کو جان بوجھ کر عمداً قتل کیا تو اس کا ٹھکانہ جھنم ھے جس میں ھمیشہ رھے گا اور اس پر اللہ کا غضب ھے اور اس پر اللہ کی لعنت ھے اور اس کے لئے عظیم عذاب تیار کر رکھا ھے۔ پھر نصیحت فرمائی کہ اے ایمان والو جب اللہ کی راہ میں لڑنے نکلو تو خوب چھان پھٹک کر لیا کرو اور جو شخص اپنے اسلام کا اظہار کرے تم اس کو مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ھو، ۔
[وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (92) وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (93) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (94) النساء
اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جس نے درجنوں صحابہؓ کو شھید کر دیا تھا اور بقول راوی جس شخص کے قتل کا ارادہ کرتا اس کو قتل کرکے ھی رھتا، اس حال میں وہ حضرت اسامہ کی تلوار یا نیزے کے آگے چڑھ گیا، جب اس نے دیکھا کہ بچاؤ کی کوئی صورت نہیں تو فورا کلمہ پڑھ لیا مگر حضرت اسامہؓ نے وار کر دیا اور اس کو قتل کر دیا، جب رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا علم ھوا تو حضرت اسامہ سے تحقیق فرمائی اور پوچھا کہ تم نے کلمہ توحید سن لیا تھا، انہوں نے عرض کیا کہ اس نے چال کے طور پر کلمہ پڑھا تھا اپنی جان بچانے کے لئے (یعنی میں نے کوئی درس قرآن یا جمعے کا خطبہ تو اس کو دیا نہیں تھا کہ جس کو سن کر اس کا ایمان بنا اور وہ ایمان لے آیا، اس کی تلوار سے میرے ساتھیوں کا خون ٹپک رھا تھا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میری مغفرت کی دعا فرمایئے مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اسامہ جب کلمہ استغاثہ لائے گا تو کیا جواب دو، حضرت اسامہ بار بار مغفرت کی دعا کی درخواست کرتے رھے اور رسول اللہ ھر بار یہی جواب دیتے کہ کلمے کو کیا جواب دو گے؟ یہانتک کہ حضرت اسامہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں خواھش پیدا ھوئی کہ کاش میں نے آج اسلام قبول کیا ھوتا اور میرے دامن پر کلمہ گو کے خون کا داغ نہ ھوتا۔
خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے قتل کی کوشش کرنے والوں کو بھی معاف فرما دیا اور اور منافقوں کی ھر قسم کی ایذا اور سازشوں کے علی الرغم ان کو قتل نہ کرایا، مگر یہ روایت رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کا کوئی اور رخ دکھا رھی ھے۔
راوی کہتا ھے کہ ایک آدمی ایسی مجلس میں آیا جس میں رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے، وہ بندہ آیا اور مجمعے کو سلام تک نہ کیا بلکہ تھوڑی دیر کھڑا رھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کو پوچھا کہ میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ھوں کہ کیا تجھے یہ خیال نہیں آیا کہ اس مجلس میں تیرے جیسا کوئی بھی نہیں؟ اس نے کہا کہ یہ بات تو ھے، اس کے بعد وہ اندر چلا گیا اور نماز پڑھنے لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس بندے کو کون قتل کرے گا؟ ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ میں، وہ تلوار لے کر اندر گئے اور اس بندے کو قیام کی حالت میں دیکھا تو سوچا کہ بھلا میں اس آدمی کو کیسے قتل کر سکتا ھوں جو اللہ کے سامنے کھڑا ھے جبکہ مجھے نمازی کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ھے، واپس آئے تو رسول اللہ نے پوچھا کیا ھوا؟ عرض کیا کہ میں بھلا نمازی کو کیسے قتل کر سکتا ھوں جو رب کے سامنے قیام میں کھڑا ھے، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ اس بندے کو کون قتل کرے گا؟ تو عمر فاروقؓ نے عرض کیا کہ میں قتل کرونگا (یاد رکھیں جس روایت میں خلفاؓ کی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ھو یعنی ابوبکرؓ عمرؓ عثمانؓ علیؓ وہ روایت ان خلفاء کی خلافت کے بعد وضع کی گئی ھے) حضرت عمر تلوار لے کر اندر گئے تو اس کو سجدے میں پڑے پایا، دل میں سوچا جو شخص اللہ کے سامنے سر ڈالے پڑا ھے میں بھلا اس کو کیسے قتل کر سکتا ھوں؟ واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا (مہ) کیا کرکے آئے ھو؟ عرض کیا کہ وہ تو سجدے میں پڑا ھے میں اس کو کیسے قتل کر سکتا ھوں؟ اب پھر رسول اللہ ﷺ نے سوال کیا کہ اس بندے کو کون قتل کرے گا؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ میں قتل کرونگا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجھے ملے گا تو قتل کرو گے ناں، حضرت علیؓ اندر گئے تو دیکھا وہ نکل گیا تھا، واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا بنا؟ عرض کیا واقعی وہ تو موجود ھی نہیں تھا۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے اگر تم اس کو قتل کر دیتے تو میری امت میں کبھی دو آدمی بھی آپس میں اختلاف نہ کرتے۔ اھل کتاب اکہتر فرقوں میں تبدیل ھو گئے تھے جبکہ تم بہتر فرقوں میں تقسیم ھو جاؤ گے اور ایک کے سوا سب جھنم میں جاؤ گے۔
إِنَّ هَذَا الأَوَلَ قَرْنٌ يَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي، لَوْ قَتَلَهُ مَا اخْتَلَفَ اثْنَانِ مِنْ أُمَّتِي "، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقَتْ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَإِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا وَاحِدَةً، وَهِيَ الْجَمَاعَةُ "۔ اللَّفْظُ وَاحِدٌ غَيْرَ أَنَّ فِي رِوَايَةِ الثَّقَفِيِّ: " أَوَلُ "، وَعِنْدَهُ: " فِي أُمَّتِي "۔
و الخبر من أقوى طرق حديث (افتراق الأمة)
فإن سقط، سقط معه حديث افتراق الأمة!
أخرجه الضياء المقدسى فى المختارة من أربع طرق بأربع أسانيد معا۔ ليس فيها الا ثقة۔
ضیاء المقدسی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند 72 فرقوں والی سند سے قوی ھے اگر اس روایت کا انکار کر دیا جائے تو بہتر فرقوں والی پوری کہانی ہی ختم ھو کر رہ جاتی ھے۔
دیکھا آپ نے کہ عدل کرنے والوں میں بہترین جج محمد رسول اللہ ﷺ ایک فرد کے کسی ایسے جرم میں کہ جس کے کرنے کا اس کو ابھی خیال بھی نہ آیا ھو گا کس طرح قتل کرنے کا حکم دے رھے ہیں؟
اس کہانی کے بھی مختلف روپ ہیں، کئی موڑ ہیں، کئی شکلیں اور اشکال ہیں۔
مگر روایت سے پتہ چلتا ھے کہ صحابہؓ کی آپس کی جنگوں کا سبب بھی اس شخص کی نحوست تھی کیونکہ اس بیچارے پر یہ چارج شیٹ لگی کہ (اگر تم اس کو قتل کر دیتے تو میری امت میں کبھی دو آدمی بھی اختلاف نہ کرتے) گویا اب قیامت تک سارا اختلاف اس مسکین کے کھاتے میں ڈال دیا جبکہ بخاری شریف کے مطابق حضرت عمرؓ سورہ الفرقان کے بارے میں ھشام ابن حکیمؓ کو گھسئٹتے ھوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے تھے، اور یہی حال ابئی ابن کعبؓ نے کسی دوسرے صحابیؓ کا کیا تھا جو الگ قرآن پڑھ رھے تھے، تو دو آدمیوں نے اختلاف تو پہلے ھی شروع کر دیا تھا، بلکہ واقعہ افک میں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے سامنے بیٹھ کر سعد ابن عبادہؓ نے کہا تھا کہ کوئی عبداللہ ابن ابئی کو ہاتھ لگا کر تو دیکھے، اور اوس و خزرج ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگ گئے جس پر رسول اللہ ﷺ منبر سے اتر کر اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔