جب بھی صحاح ستہ کے شیعہ مصنفین کے شیعہ شیوخ کا ذکر ھوتا ہے تو سارے اھلسنت احباب اپنی متاع گراں بچانے کے لئے ایک فارمولہ لاتے ہیں کہ اس وقت کے شیعہ صرف شیعہ ہوتے تھے، جبکہ موجودہ شیعہ شیعیت کی بجائے رفض کے مریض ہیں۔
اھل ایمان سے گزارش ہے کہ شیعہ حضرت علیؓ کے زمانے سے شروع ہوئے ہیں، اور حضرت علی کے ساتھ مل کر انہوں نے حضرت معاویہؓ کے شیعوں کا خوب قتلِ عام کیا تھا، شیعہ کسی زمانے میں بھی تسبیح اور مسواکیں نہیں بیچتے تھے بلکہ سیدھا سیدھا قتل کرتے تھے، حضرت عمار بن یاسرؓ بھی شیعہ تھے اور حضرت علیؓ کے شیعہ تھے درجنوں کو مارنے کے بعد شامی لشکر کی جانب سے شھید کیئے گئے تھے اور جب ان کی شھادت پر حضرت عمرو ابن العاصۨ گھبرائے ہوئے امیر معاویہؓ کے خیمے میں داخل ہوئے اور کہا کہ عمارؓ شھید ھو گئے ہیں تو امیر معاویہؓ نے کہا کہ سیکڑوں ھزاروں ھو گئے ھیں تو ایک عمارؓ کے مارے جانے سے حواس باختہ کیوں ھو گئے ہو؟ عمرو ابن العاصؓ نے عرض کیا کہ سرکار عمارؓ اور دوسروں میں بہت فرق ھے عمارۨ کے بارے میں میرے ان کانوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ھے کہ اے عمار تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، عمارؓ کی شھادت نے ہمیں باغی ثابت کر دیا ہے اور کئی لوگ ہتھیار رکھ کر ایک طرف ھو گئے ہیں۔
خیر تو شیعہ تو حضرت علیؓ کے زمانے سے ھی مارتے اور مرتے آئے ہیں، یہ درمیان میں اللہ لوک شیعہ کہاں سے ٓ گئے؟ شیعہ محدثین بھی امیر معاویہؓ کے بارے میں وھی عداوت اور بغض رکھتے تھے جو آج کے شیعہ رکھتے ہیں، ھاں یہ کہیں کہ اس وقت کے اھل سنت اور تھے اور آج کے اھل سنت اور ہیں، شیعہ ھمیشہ سے ایک جیسا تھا فرق اھلسنت میں ھے اس وقت کے محدثین اور اسماء الرجال کی کتب کے مصنفین، نیز بخاری، و مسلم اور دیگر مصنفین کھلے ڈھلے دل و دماغ والے اور 75 فیصد شیعہ ہی تھے کیونکہ امیر معاویہؓ کی حد تک ان کو شیعہ کے رویئے سے کبھی تکلیف نہیں ھوئی تھی بلکہ ان سے روایتیں لے کر انہوں نے شیعہ کی خاموش تائید کی اور ان کو اھلسنت میں کھپانے اور اکاموڈیٹ کرنے میں اھم کردار ادا کیا۔ البتہ آج کے اھل سنت نے امیر معاویہؓ کو بھی ایمانیات میں شامل کر لیا ھے اور ان کی مخالفت کو کفر سمجھتے ہیں۔
رفض اور روافض۔۔
رفض کا مطلب ھے انکار کرنا۔
یعنی جو لوگ حضرت ابوبکر صدیقؓ اورحضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کا انکار کرتے ہیں، یہ کوئی شرعی جرم نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اتنا بڑا گناہ ھے جیسے کوئی اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرے، یا الیکشن کے نتیجے کو تسلیم نہ کرے، اس کی بنیاد پر کسی کے دین اور ایمان کا فیصلہ کرنا دین میں اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پہلے رافضی حضرت سعد بن عبادہؓ رئیسِ خزرج تھے، جن کے مناقب ابوبکر صدیقؓ سے کم نہیں ھیں وہ مکی دور میں اسلام لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں اسلام قبول کرکے رسول اللہؓ کو مدینہ ٓنے کی دعوت دی، یہ واحد انصاری ہیں جن کو مکے والوں کے تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا، غزوہ احد میں ان کا دیا گیا بیان ایسا جی دار تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور دمک اٹھا تھا، لوگ ایک اور دو مہاجر ساتھ لے کر جاتے تھے اور حضرت سعد بن عبادہؓ روزانہ 80 مہاجروں کو کھانا کھلاتے تھے۔
حضرت سعد بن عبادہؓ نے نہ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کی اور نہ ہی حضرت عمرؓ کی بیعت کی اور اس سارے عرصے میں نماز بھی مسجد نبوی کی بجائے اپنے گھر میں ادا کرتے رھے، جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے سعد بن عبادہؓ کو بھی بیعت کی دعوت دی مگر انہوں نے حسب معمول انکار کر دیا، جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جب دو پڑوسیوں کی آپس میں نہ بنتی ھو تو ان میں سے ایک کو پڑوس چھوڑ دینا چاہئے، حضرت سعد بن عبادہ اشارہ سمجھ گئے اور فرمایا کہ میں مدینہ چھوڑ کر شام جا رھا ھوں، یوں خزرج کا سردار اپنا موطن چھوڑ کر مہاجر بن کر شام چلا گیا، جہاں ان کو جنات نے زہریلے تیر سے قتل کر دیا وہ نہا رھے تھے کہ تیر کا نشانہ بنے اور ان کا پورا بدن نیلا پڑ گیا۔ یہ جنات بھی ایسے خبیث تھے کہ ابوجھل اور عتبہ و شیبہ کو نہ مارا، عبداللہ ابن ابئی کو بھی نہ مارا اور مسیلمہ کذاب کو بھی نہ مارا جس نے ھزاروں کو شھید کیا تھا جس میں 400 تو حفاظ صحابہ تھے، جنات نے بس سعد بن عبادؓہ رئیس خزرج کو قتل کرنے کی سپاری لی تھی۔
حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا بھی روافض میں شمار ہوتی ہیں اس لئے کہ انہوں نے مرتے دم تک حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو نہیں مانا، نہ ھی حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کے جیتے جی ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کی، گویا کسی کی حکومت کی بیعت کرنا یا نہ کرنا ووٹ دینے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرنے کا سا معاملہ ھے جنت اور جھنم کا معاملہ نہیں ہے، رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت ھی ایک ایسی بیعت تھی جو جنت اور جھنم کا فیصلہ کرنے والی تھی، باقی سب دل کے معاملے تھے کسی کا دل مانے یا نہ مانے اس سے اس کے اسلام و ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
رہ گئی گالی گلوچ کی بات تو یہ کسی بھی سلیم الفطرت انسان کا کام نہیں۔ گالی دینا نیکی یا تبلیغ کا کام ھوتا تو اللہ پاک موسیؑ کو دعوئی خدائی کرنے والے فرعون کو گالی دینے کا حکم دیتا، گالیاں گلی کے لونڈے دیتے ہیں اور گالی نہ دین ہے نہ مذھب۔ اگر کافر کافر کے نعرے نہ ھوں اور سب کو ایک ھی لاٹھی سے نہ ہانکا جائے تو خود شیعہ ہی ایسے لوگوں کو لگام ڈال دیں، مگر جب اھلسنت سب شیعہ کو رافضی کہتے اور کافر کافر کے نعرے لگاتے ہیں تو پھر شیعہ بھی ان کے پیچھے کتے چھوڑ دیتے ہیں کہ اب بھگتو ان کو۔
مسئلے کا دیرپا حل یہی ہے کہ جس طرح آپ کے اسلاف محدثین نے شیعہ سنی بھائی بھائی کی فضا بنا رکھی تھی، اسی بنیاد پر امت کی یکجہتی اور وحدت کو قائم کیجئے۔