یہ روایت بخاری شریف سمیت ساری حدیث کی کتابوں میں آئی ھے، اور راوی سارے ثقہ ھیں، روایت کے لحاظ سے اس پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی، مگر اس پر کچھ سوال وارد ھوتے ھیں جن کا جواب تو کوئی دیتا نہیں، مگر راویوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش ضرور کی جاتی ھے! ایک تھے ھشام ابن عروہ ابن زبیرؓ، جنہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام میں عراق میں جا کر اس حدیث کو140ھ میں بیان کیا، ان کے ماضی کی اتھارٹی پر امام بخاری نے اس حدیث کو لے لیا، اور ان کی آخری کیفیت کو نہیں دیکھا، جب کہ وہ سٹھیا گئے تھے - اب امام بخاریؒ کے بعد تو پھر دوسرے محدثین ان کی روایت پر ٹوٹ پڑے، جب کہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے جو براہ راست ان کے شاگرد تھے ان دونوں نے ان سے جادو کی حدیث نہیں لی، بلکہ امام مالک نے تو صاف کہہ دیا کہ ھشام کی عراقی روایات سے بُو آتی ھے، امام ابو حنیفہ کے اصولِ حدیث میں یہ بات طے شدہ ھے اور امام ابوحنیفہ کا حدیث لینے کے معاملے میں رویہ تمام ائمہ سے زیادہ سخت اور منطقی ھے، آپ فرماتے ھیں کہ جو واقعہ عقلاً اپنے وقوع پر بہت سارے افراد کا مطالبہ کرتا ھے، اس کو کوئی ایک آدھ بندہ روایت کرے تو وہ حدیث مشکوک ھو گی، اب آپ غور فرمایئے کہ ںبیﷺ پر جادو ھوا، 6 ماہ رھا، بعض روایات میں ایک سال رھا، اور کیفیت یہ بیان کی گئی ھے کہ، کان یدورُ و یدورُ لا یدری ما اصابہ او ما بہ، آپ چکر پر چکر کاٹتے مگر آپﷺ کو سمجھ نہ لگتی کہ آپ کو ھوا کیا ھے، بعض دفعہ آپ اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے ھوتے مگر آپ کو خیال ھوتا کہ آپ گئے تھے، اور بعض دفعہ دیگر معاملات میں بھی اس قسم کا مغالطہ لگا۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اس وقت نبیﷺ کی 9 بیویوں تھیں، اگر یہ معاملہ اس حد تک خراب تھا تو یہ سب بیویوں کی طرف سے آنا چاھئے تھے، جب کہ یہ صرف ایک بیوی حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب ھے، اگر یہ واقعہ ایسے ھی تھا تو عقل کہتی ھے کہ حضرت عائشہؓ کو سب سے پہلے اپنے والد کو خبردار کرنا چاھیئے تھا کہ آپ کے خلیل کے ساتھ یہ ھو گیا ھے، یوں یہ تمام صحابہ میں مشہور ھو جانا چاھئے تھا، نبی ﷺ پر جادو قیامت تھی کوئی معمولی زکام کا واقعہ نہیں تھا، نبوت اور وحی داؤ پر لگی ھوئی تھی، مگر یہ نہیں ھوا، خیر حضرت عائشہؓ کو دوسرے نمبر پر اپنی سوکنوں کے ساتھ اس کو شیئر کرنا چاھئے تھا اور ان سے بھی تصدیق کرنی تھی کہ کیا ان کو بھی نبیﷺ کی ذات میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر آئی ھے، وہ بھی نہیں ھوا، حضرت عائشہؓ نے ذکر بھی کیا تو صرف ایک بندے سے یعنی اپنے بھانجے عروہ سے، عروہ نے بھی اسے چھپائے رکھا اور کسی سے ذکر نہیں کیا سوائے اپنے ایک بیٹے کے، وہ بیٹا بھی اسے 70 سال سینے سے لگائے رھا اور جب حضرت عائشہؓ سمیت کوئی صحابی اس کی تصدیق کرنے والا نہ رھا تو 90 سال کی عمر میں عراق جا کر یہ واقعہ بیان کیا، اور مدینے والوں کو عراق سے خبر آئی کہ نبیﷺ پر جادو بھی ھوا تھا، اب اس پر میں اپنی زبان میں تو کچھ نہیں کہتا مگرفقہ حنفی کے امام ابوبکر جصاصؒ نے اپنی احکام القرآن میں اس پر جو تبصرہ کیا ھے اسی پر کفایت کرتا ھوں" کہ اس حدیث کو زندیقوں نے گھڑا ھے، اللہ انہیں قتل کرے، نبیﷺ پر ایمان اور اس حدیث پر یقین ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے، اگر آپﷺ پر جادو ھو گیا ھے تو پھر نبوت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور اگر نبی تھے تو پھر جادو کا امکان تک نہیں" افسوس یہ ھے کہ امام ابوحنیفہ کے اس حدیث کو مسترد کر دینے اور امام ابوبکر الجصاص کے انکار کے باوجود، ماشاء اللہ احناف ھی اسے اولمپک کی مشعل کی طرح لئے دوڑ رھے ھیں، کیونکہ اس سے ان کی روٹیاں جُڑی ھیں، یہ کالے کے مقابلے میں چٹا جادو کرکے کماتے ھیں، اور یوں کالے اور چٹے جادو کے تال میل سے جادو کی سائیکل کے یہ دو پیڈل چل رھے ھیں۔
یہ ایک بہت بڑا سوال ھے کہ شرک کے یہ اڈے جو زیادہ تر زندیقوں کے قبضے میں ھیں، عیسائی جادوگر اور بدقماش عامل اپنی دکانیں اسی حدیث اور ھمارے بزرگوں کے تعاون سے ھی چلا رھے ھیں، جہاں نہ صرف ایمان لٹتا ھے بلکہ مال کے ساتھ عصمتیں بھی بھینٹ چڑھتی ھیں، ھم آخر لوگوں کو کیسے روکیں اور کیسے یقین دلائیں کے اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں دے سکتا، اس صحیح حدیث کو بھی ھم آنکھ میں آنکھ ڈال کر نہیں سنا سکتے کہ " سارے زمین والے اور سارے آسمان والے، تیرے پچھلے جو مر گئے وہ بھی جو قیامت تک آنے والے ھیں وہ بھی ملکر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاھئیں تو نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے رحم مادر میں تیرے مقدر میں لکھ دیا تھا، اور اگر یہ سارے تجھے نفع دینا چاھیئں تو رائی کے دانے کے برابر نفع نہیں دے سکتے سوائے اس کے جو رحم مادر میں اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ھے، سیاھی خشک ھو گئی ھے اور قلم روک لیا گیا ھے، جو اللہ اپنے رسول کی ھی حفاظت نہیں کر سکتا، اس پر کوئی کیسے توکل کرے؟ ، وہ جوسورہ جن میں فرماتا ھے رسول کے آگے پیچھے نگران ھوتے ھیں جو اس کی حفاظت کرتے ھیں، پتہ نہیں وہ محافظ جادو کے وقت کہاں گئے ھوئے تھے، بہرحال لوگ ایک جملہ کہہ کر سارے قرآن اور توکل والی احادیث پر پانی پھیر دیتے ھیں کہ جی " جادو تو نبیوں پر بھی ھو جاتا ھے" اور جادو تو برحق ھے، اگر جادو برحق ھے تو پھر باطل کیا ھے،؟
کاش ھم ضد چھوڑ کر ایمان بالرسالت کا جائزہ لیں، کہیں یہ ویسا ھی ایمان تو نہیں، انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ، رسول اللہ تو وہ بھی مانتے تھے، مگر اس رسول کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا؟ ھم نے قتل کر دیا مسیح عیسی ابن مریم اللہ کے رسول کو، اور ھم نے بدنام کر دیا محمد رسول اللہﷺ کو، جادو کے غلبے کی دو صورتیں ھیں، تیسری ممکن نہیں ! ایک یہ کہ شیاطین کے ذریعے کسی پر غلبہ پا لیا جائے، اور جو سمجھتا ھے کہ شیطان نے نبی ﷺ پر غلبہ پا لیا تھا، اس نے اللہ کی بھی تکذیب کی اور رسول ﷺ کی بھی، کیونکہ اللہ پاک کے دربار میں ابلیس نے جو باپ ھے شیاطین کا اس نے اعتراف کیا کہ " لاُغوینھم اجمعین، الا عبادک منھم المخلصین، میں لازم اغوا کروں گا سب کو، سوائے تیرے ان بندوں کے کہ جن کو تو خالص کر لے، اب کون سا شیطان نبی پر غلبہ پا سکتا تھا، پھر اللہ کی تکذیب یوں کرتے اور راویوں کی پوجا کرتے ھے، کہ اللہ پاک فرما رھا ھے کہ، انَۜ عبادی لیس لک علیھم سلطان، میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا، اب دوسری صورت رہ گئی کسی کی قوت متخیلہ کا دوسرے کی قوت متخیلہ پر غالب آ جانا، یہ بھی نبیﷺ کی تکذیب اور لبید یہودی پر ایمان کے مترادف ھے، جس ھستی کا دل سوتے میں بھی رب کے ساتھ آن لائن رھتا تھا ان کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس یہودی کی قوت متخیلہ نے ھمارے نبی ﷺ کی قوت متخیلہ پر غلبہ پا کر انہیں وہ سوچنے اور کرنے پر مجبور کر دیا جو وہ چاھتا تھا، ۔
اور یوں سال بھر نبیﷺ لبید اعصم یہودی کے رحم و کرم پر رھے، جب وہ چاھتا نبیﷺ کو نماز پڑھتے اٹھا کر گھر بھیج دیتا اور صحابہ منہ دیکھتے رہ جاتے، یہانتک کہ حضرت ذوالیدینؓ نے کنڈہ بجا کر کہا کہ سرکارﷺ ھمیں تو کسی طرف لگائیں، دو رکعت پڑھ کر اٹھ آئے ھیں، کیا نماز کم ھو گئی ھے یا آپ بھول گئے ھیں؟ ، آپﷺ نے غصے کے عالم میں فرمایا نہ نماز کم ھوئی ھے اور نہ میں بھولا ھوں، مگر ذوالیدیؓن نے اصرار کیا، جس پر آپ نے دیگر صحابہ کی طرف دیکھا اور انہوں نے بھی سر ھلا کر ذوالیدیؓن کی تصدیق کی تب نبی کریمﷺ نے جا کر باقی دو رکعت پوری کیں اور سلام پھیرا، کبھی وہ خیال ڈالتا کہ آپ جنابﷺ اپنی فلاں زوجہ سے مل آئے ھیں مگر وہ زوجہ انکار کرتیں، الغرض یہ ھے ھمارے آج کے فوٹو اسٹیٹ احناف کا موقف اور ایمان اپنے نبیﷺ کے بارے میں، مگر پہلے احناف ایسے نہیں تھے، کیونکہ وہ سفید جادو کی دکانیں نہیں چلاتے تھے، ابوبکر الجصاص جو محدث تھے اور علماء احناف میں مجتہد تھے، علامہ شاہ اسماعیل شہید نے انہیں تنویر العینین میں ان کو مجتہد لکھا ھے، الغرض وہ احکام القرآن میں اس حدیث پر بحث کرتے ھوئے لکھتے ھیں" جو لوگ نبی پر جادو کی تصدیق کرتے ھیں بعید نہیں کہ وہ نبی کے معجزات کو بھی من قبیل السحر قرار دے دیں یا خود نبی کو ھی ساحر قرار دے دیں، کتنی شرمناک بات ھے کہ ان لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ ان کے نبیﷺ پر جادو کر دیا گیا، یہانتک آپﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا ھے، کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا ھوتا تھا اور سمجھتا تھا کر لیا ھے، اور کوئی بات نہیں کہی ھوتی تھی مگر سمجھتا تھا کہ میں نے کی ھے، ۔۔ دراصل یہ حدیثیں ملحدوں کی وضع کردہ ھیں، جو رذیلوں اور اوباشوں کو اھمیت دیتے ھیں، جو بتدریج اس لئے گھڑی گئی ھیں کہ انبیاء کے معجزات کو باطل قرار دیا جائے اور ان میں شبہ ڈالا جائے اور لوگوں کو اس کا قائل کیا جائے کہ جادوگری اور معجزہ ایک ھی قسم سے تعلق رکھتے ھیں، اس قسم کی روایات بیان کرنے والوں پر تعجب ھوتا ھے کہ ایک طرف تو وہ انبیاء کی تصدیق کرتے ھیں اور معجزات کو ثابت کرتے ھیں مگر دوسری طرف وہ اس کی بھی تصدیق کرتے ھیں کہ جادوگر بھی یہ کام کر سکتا ھے، اب نبی پر ایمان اور جادو ایک سینے میں جمع نہیں ھو سکتے، "
یہ ھے لہجہ امام المحدث ابو بکر جصاص کا، منکرین حدیث کے فتوے داغنے والوں سے گزارش ھے کہ سارے فتوؤں کا رخ پھیرئیے اپنے ان اکابر کی طرف تا کہ آپ کو فتوے دینے کا کوئی مزہ بھی آئےاس روایت پر تفصیلی نظر ڈالی جائے تو پہلی بات یہ ھے کہ 140 سال تک یہ روایت سینہ بسینہ ایک فرد سے ایک فرد تک منتقل ھوتی رھی، اسے دوسرا آدمی دیکھنا نصیب نہ ھوا، 7 ھجری سے 140 ھ تک اس کا صرف ایک راوی چلتا ھے، یہ روایت ھشام سے سوائے عراقیوں کے اور کوئی روایت نہیں کرتا، حافظ عقیلی کے مطابق 132ھ میں ھشام سٹھیا گئے تھے، اور کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے 9 سال کی عمر میں شادی کی تھی، حالانکہ وہ ان سے 13 سال بڑی تھیں، گویا جب وہ 9 سال کی تھیں تو ھشام کے پیدا ھونے میں بھی ابھی چار سال باقی تھے، دماغ خراب ھونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ھو سکتا ھے، اسی زمانے میں انہوں نے حضرت عائشہؓ کی شادی بھی چھ سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں کرائی تھی، راوی اس کے بھی سارے عراقی ھیں اور وہ بھی 140 سال سینہ بسینہ چلتی ھوئی عراق سے مدینے آئی تھی، مدینے والوں کو نہ جادو کا پتہ تھا نہ چھ سال کی شادی کا۔
امام مالک ھشام کے مشہور ترین شاگردوں میں سے ھیں مگر اس روایت کو چھوتے تک نہیں، اوربھی کوئی مدنی محدث اس سے واقف نہیں، اس روایت کے متن میں اتنا اضطراب ھے کہ یقین کرنا مشکل ھوتا ھے کہ یہ صحیح الدماغ آدمی کا بیان ھے، جتنے آدمی ان سے ملتے ھیں ھر ایک کو ایک نیا آئیٹم پکڑا دیتے ھیں، کسی میں تعویز نکالا جاتا ھے، اور بالوں میں سے گرھیں کھولی جاتی ھیں، یہ گرھیں مارنے ھی والے خوب جانتے ھیں کہ گرھیں کیسے کھولی جاتی ھیں، ھمارا تجربہ تو یہ ھے کہ بال ٹوٹ جاتا ھے مگر اس کی گرہ کھلنی مشکل ھے، کہیں کسی تانت میں گرہ مروائی جاتی ھے، کہیں کہا جاتا ھے کہ نبی پاکﷺ نے نکلوایا ھی نہیں تھا، جب نکلوایا ھی نہیں تھا تو پھر گرھوں والی کہانی خود بخود جھوٹ ثابت ھو جاتی ھے، کیونکہ بخاری و مسلم تو گرھوں والی بات روایت ھی نہیں کرتے اور نہ جادو نکلوانے کی بات کرتے ھیں، اب چونکہ سورہ فلق میں گرہ میں پھونک مارنے کا ذکر ھے، اس لئے گرہ تو لگوانی ضروری تھی، لہذا اگلے ایڈیشن میں جادو نکلوا کر گرھیں کھلوائیں گئیں، مگر مکے کے ابتدائی سالوں مین نازل ھونے والی مکی معوذتین کو گرہ میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کا جملہ دیکھ کر انہیں 7 ھ کے واقعے میں جوڑا گیا، امام ابو حنیفہ تو جادو کے قائل ھی نہیں، ابو بکر بھی قائل نہیں، مگر آج کے احناف اس کے ساتھ کچھ یوں چمٹ گئے ھیں گویا یہ فقہ حنفی کا ھی کوئی مسئلہ ھے، عمل نہ کریں تو عبادات کے مسائل میں 90 ٪ بخاری پر نہ کریں تو دین کا کچھ نہیں بگڑتا، اور عمل کرنے پہ آ جائیں تو جادو کو دین اور ایمان کا مسئلہ بنا دیں، جو چاھے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
معوذتین اور جادو!
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!
سورہ الفلق اور سورہ الناس جن کو جوڑ کر معوذتین کہا جاتا ھے، یعنی وہ دو سورتیں جن میں مختلف خطرات سے اللہ کی پناہ حاصل کی جاتی ھے، یہ سورتیں ابتدائی مکی دور میں 20 ویں اور 21 ویں نمبر پر نازل ھوئیں جب کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس مختلف قسم کے سماجی، اخلاقی، اور گروھی دباؤ کا سامنا کر رھی تھی، نبی کریم ﷺ کے خلاف ھر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رھا تھا، رات کے اندھیرے میں اگر آپ کے خلاف گٹھ جوڑ ھوتے تھے تو دن کی روشنی میں حرمِ مکی کے زائرین تک رسائی حاصل کرکے ان کے کانوں میں نبی ﷺکے خلاف زھر انڈیلا جاتا، ان سب کو مدنظر رکھتے ھوئے اللہ پاک نے ان میں سے ھر ھر فتنے کا نام لے کر اپنے نبیﷺ کو اپنی پناہ کی یقین دھانی کروا دی، کہ آپ ان الفاظ سے ھماری پناہ طلب کرکے بے فکر ھو جائیے، ھم جانیں اور آپ کے دشمن جانیں، ان سورتوں کے نزول کے ساتھ ھی نبی ﷺ نے ان کی تلاوت اور ورد کو معمول بنا لیا اور سوتے وقت بھی ان آیات کو پڑھ کر اپنے ھاتھوں پر پھونکتے اور پھر پورے بدن اطہر پر پھیر کر حصار بنا لیتے، آپ نے ساری زندگی اس کو اپنا معمول بنائے رکھا تا آنکہ مرض الموت میں جب کہ آپ کی ھمت جواب دے گئی تو سیدہ کائنات ام المومنین عائشہ صدیقہ طاھرہ طیبہؓ آپ کے دست مبارک کو سہارہ دے کر آپ کے چہرہ اقدس کے قریب کرتیں، جب آپ ان سورتوں کو پڑھ کر پھونک مار لیتے تو ام المومنینؓ نبی کے ھاتھوں کو ان کے بدن پر پھیر دیتیں، ظاھر ھے جب اللہ پاک نے قل کے حکم کے ساتھ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا اور آپ نے عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ آج مجھ پر ایسی آیات نازل ھوئی ھیں جیسی قرآن میں آج تک نازل نہیں ھوئی تھیں، تو آپ نے انہیں بطور ورد کے اختیار فرمایا، ان آیات میں صرف ایک آیت " و من شر النفثاتِ فی العقد" کو لے کر انہیں جادو کی دلیل بنا دیا گیا ھے کہ اگر جادو نہیں ھوا تھا تو پھر گرھوں میں پھونکیں مارنے والیوں کے شر سے پناہ کیوں مانگی گئی ھے؟
اب سب سے پہلے نوٹ کرنے کی بات یہ ھے کہ یہ حکم کہ" قل اعوذُ برب الفلق" تو مکے کے ابتدائی مشکل دور میں نازل ھوا، نبی نے بحیثیتِ "نبی "اللہ کے حکم کی پیروی شروع کر دی جو کہ آپ کا فرضِ منصبی تھا، پھر اس کے باوجود اگر 12 یا 15 سال کے بعد مدینے میں آپﷺ پر جادو ھو گیا اور یہ سورتیں اللہ کے وعدے کے مطابق آپ پر جادو ھونے کو نہ روک سکیں تو اب یہ جادو کا علاج کیا اور کیسے کریں گی؟ ایک معتزلی شیخ جو کہ اللہ کو بھی معطل مانتا تھا، اس کے پاس ایک شخص آیا کہ میری اونٹنی کوئی چوری کرکے لے گیا ھے تو آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ پاک اسے لوٹا لائے! اب شیخ نے دعا شروع کی " ائے اللہ تو نے تو نہیں چاھا تھا کہ اس شخص کی اونٹنی چوری ھو، مگر چور کھول کر لے گیا، ائے اللہ اس کی اونٹنی لوٹا کر لے آ، اس کی یہ دعا سن کر وہ اونٹ چرانے والا دیہاتی بھی تڑپ اٹھا، اس کے ایمان اور ضمیر نےاللہ کی ھستی بے ھمتا کے بارے میں شیخ کے الفاظ اور ان سے مترشح عقیدے کو قبول نہ کیا وہ پکارا " یاشیخ الغبی! ابے بیوقوف مولوی جب چور کا ارادہ پہلے ھی میرے رب کے ارادے کو شکست دے چکا ھے تو اب وہ رب میری اونٹنی کیسے لوٹا سکتا ھے؟ کیا وہ چور کی منت سماجت کرکے واپس لائے گا؟ ، چور نے تو میری اونٹنی چرائی تھی مگر احمق انسان تُو تو میرے ایمان پر ڈاکا ڈالنے لگا ھے؟
15 سال معوذتین پڑھنے کے بعد بھی اگر لبید ابن عاصم اللہ کی حفاظت اور نبیﷺ کی عصمت میں نقب لگا چکا ھے تو اب ان سورتوں سے اس شگاف کو کیسے پر کیا جا سکتا ھے؟ یہ تو سکندر کے گرنے کے بعد پاکستانی پولیس کی ھوائی فائرنگ جیسی بات ھو جائے گی! کیا ھم پی ایچ ڈی لوگوں سے اس دیہاتی کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی زیادہ نہیں؟
یہ سوال ھمارے ذھن میں پیدا کیوں نہیں ھوتا کہ جب اتنے عرصے کا ورد نبی ﷺ کی حفاظت نہیں کر سکا اور عین وقت پر جواب دے گیا، تو اب نبی ﷺکو یہ کہنا کہ " قل اعوذُ برب الفلق' کوئی عقل و فہم میں آنے والی بات ھے، یا کوئی یہ ثابت کرنا چاھتا ھے کہ نبیﷺ نے ان سورتوں کا ورد کبھی نہیں کیا تھا، بلکہ ان کو رکھ کر بھول گئے تھے اور فرشتے نے آ کر یاد دلایا کہ جناب معوذتین نام کی دو سورتیں بھی آپ پر 15 سال پہلے نازل کی گئی تھیں، وہ ڈھونڈیں کدھر رکھی ھوئی ھیں؟ ساری مصیبت ھمارے جادوئی ماحول کی پیدا کردہ ھے، راویوں کے زمانے میں بھی جو جو طریقہ جادو کا مروج تھا وہ سارا انہوں نے قسطوں میں نبیﷺ پر جادو والی حدیث میں ڈالا، بخاری میں چند لائنیں ھیں، اور پتلے اور سوئیوں کا کوئی ذکر نہیں، مگر بعد والوں نے" خالی جگہ پُر کرو" کا کام خوب کیا، اور ایک پتلا انہوں نے نبی کا بنوایا، شکر ھے عربوں میں دال ماش کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ ماش کی دال کا پتلا بناتے، پھر اس میں سوئیاں چبوتے ھیں، پھر سوئیاں نکالتے وقت نبی ﷺکے چہرہ اقدس کے تآثرات بھی نوٹ کرتے ھیں کہ حضور سوئی نکلنے پر منہ کیسا بناتے ھیں، لکھتے ھیں سوئی نکلنے پر تکلیف کا اظہار کرتے، پھر راحت محسوس کرتے!
الغرض الفاظ بھی بڑے ظالم ھوتے ھیں، پتھر اور مٹی کی دیواروں کو پھلانگا جا سکتا ھے ان میں نقب بھی لگائی جا سکتی ھے مگر الفاظ کی اسیری سے رھائی ناممکن ھے کیونکہ الفاظ کی دیواریں انسان کے اندر ھوتی ھیں، اور نادیدہ ھوتی ھیں، صرف اس ایک لفظ نفاثات، یعنی پھونکوں نے کس طرح لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ھے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا ھے، پتھر کی دیواروں کے پیچھے اسیری غنیمت ھے کہ اس اسیری میں بڑی بڑی انمول تفسیروں اور تحریروں نے جنم لیا ھے، ابن تیمیہ کی جیل کی تحریریں، سید قطب کی جیل کی تفسیر، مودودی صاحب کی تفھیم کی تکمیل، اور امام سرخسی کی اندھے کنوئیں میں سے اپنے شاگردوں کو ڈکٹیٹ کروائی گئی وہ تفسیر جو دو بیل گاڑیوں پر لاد کر لائی گئی، مگر الفاظ کی اسیری انسانی صلاحیتوں کو بانجھ بنا دیتی ھے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی 16 سال میں شادی اور 19 سال میں رخصتی کی حدیث بھی بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں موجود ھے، مگر 6 سال کے لفظ کے اسیروں کی نظروں میں اس کی اھمیت ھی کوئی نہیں، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے تو اپنی شرح بخاری میں اس کا ترجمہ تک کرنا پسند نہیں فرمایا کجا یہ کہ اس کی تفسیر سے نبی کے دامن پر لگا دھبہ صاف کرنے کو کوشش کی جاتی، اب دیکھیں ھمارے اسلاف ان الفاظ کا کیا ترجمہ کیا کرتے تھے، اس صورتحال میں کہ جب مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے کام بانٹے ھوئے تھے، کچھ حاجیوں کو گھیرتے اور نبی کی ذات کے بارے میں ان کے کان میں پھونکتے، کچھ تجارتی قافلوں کو نشانہ بناتے اور ان میں گھوم پھر کر اپنے جوھر دکھاتے، کچھ اردگرد کی بستیوں میں چلے جاتے، پھر واپس آنے والے حرم میں بیٹھ کر رات کے اندھیروں میں اپنی اپنی کار گزاری سناتے اور ان کے" گرو" ان میں کمی بیشی کی نشاندھی کرکے کل کے لئے نئے اھداف مقرر کرتے اور لائحہ عمل تیار کرتے، اس پس منظر میں ان سورتوں کا نزول ھوا، یہ وھی پھونکیں ھیں جن کے بارے میں اللہ پاک نے پہلے سورہ الصف اور پھر سورہ توبہ میں ذکر فرمایا ھے، یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون، اور یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھھم، و یابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون، یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں کے زور سے بجھانا چاھتے اور اللہ اپنے نور کی تکمیل سے کم کسی بات پر راضی نہیں ھے، اگرچہ یہ کافرون کو کتنا بھی ناپسند ھو، یہ وھی پھونکیں ھیں جب کو اقبال نے کہا ھے "
نور خدا ھے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!
یہ وہ پروپیگنڈے کی پھونکیں ھیں جن کو جادوگرنیوں کی پھونکیں بنا کر پھر جادو کی دیو مالا تیار ھوئی ھے!
اب ترجموں میں نگاہ ڈال لیں، یہ ان اسلاف اور علماء کا ترجمہ ھے جو جادو کی حقیقت سے انکار کرتے ھیں، لہذا وہ گرھوں میں پھونکیں مارنے والی جادوگرنیوں کی بجائے کانوں مین پھونکیں مارنے والی جماعتیں مراد لیتے ھیں
1-قاضی بیضاوی اپنی شرح میں اس کی ترجمانی یوں کرتے ھیں، قیل المراد بالانفث فی العقد، ابطال عزائم الرجال، کہا گیا ھے کہ پھونک مارنے والیوں سے مراد وہ عورتیں ھیں جو مردوں کے مستحکم ارادوں کو اپنے حیلوں سے پاش پاش کر دیتی ھیں (ھند زوجہ ابوسفیانؓ اور ام جمیل زوجہ ابو لہب ذھن مین رھے، جو عورتوں میں اس مہم کی سرخیل تھیں )
2- عبدالحق حقانی لکھتے ھیں، پس آیت کے معنی یہ ھوئے کہ عورتوں کے شر سے پناہ مانگنی چاھئے جو مردوں کی ھمتوں اور مستحکم ارادوں کو مکر کی پھونک مار کر کمزور کر دیتی ھیں
3- عبید اللہ سندھی لکھتے ھیں ' اور ھمیں ان جماعتوں کے شر سے بچا جو زھریلی پھونک مار مار کر عقیدے کو کمزور کر دیتی ھیں، آگے تفسیر میں لکھتے ھیں کہ کچھ لوگ ان سے مراد کوئی جادو گرنی فرض کر لیتے ھیں جو اپنے جادوگروں سے جادو کراتی ھے اور قرآن میں ان کے شر سے پناہ مانگی جا رھی ھے وغیرہ، ان کے نزدیک اس قسم کی تاویل اگرچہ ھو سکتی ھے تا کہ اس کا آیت کے ساتھ تال میل پیدا کیا جائے، مگر اس آیت سے جادوگرنیاں مراد لینا قرآن مجید سے ثابت نہیں ھے اور یہ بات قرآن اور نبوت کی شان کے بھی خلاف ھے، اس لئے ھم عورتوں کی جگہ جماعتوں کو لیتے ھیں اور جماعت کو عربی میں مؤنث کے صیغے میں لیا جاتا ھے، یعنی ان جماعتوں کے شر سے پناہ مانگی جاتی ھے جو اپنے غلط پروپیگنڈے سے انسان کی فطری ترقی کو روکتی ھیں، (المقام المحمود ص 217)
4- صوبہ خیبر پختونخواہ کے مشہور عالم شیخ محمد طاھر پنج پیری کہتے ھیں، النفٰثٰتِ فی العقد سے مجالس میں پھونک مارنے والے مراد ھیں، اور اس کی بہترین تفسیر وھی ھے جو خود قرآن نے کی ھے، یریدون لیطفئوا نور اللہ بافوھھم (الصف-التوبہ) سورہ الفلق میں اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺکو دعا سکھائی ھے کہ جو لوگ نورِ اسلام کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاھتے ھیں آپ ان کے عزائم اور مقصد سے اللہ کی پناہ طلب کریں!
اب ما تتلوا الشیاطین، اور النفاثات سے یہ استدلال کرنا کہ چند شیطانی کلماتِ خبیثہ سے کوئی جادوگر مافوق الفطرت کام یا خلاف عادت کرشمہ سر انجام دے سکتا ھے نیز کسی کو نفع یا نقصان دے سکتا ھے تو یہ ایک باطل اور قرآن و سنت کی تمام تعلیمات کے خلاف عقیدہ ھے اور قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کے خلاف کسی بھی روایت کو قبول کرنا سارے سرمایہ دین اور متاعِ ایمان سے ھاتھ دھونا ھے، دنیا میں کوئی ایسا علم اپنا وجود نہیں رکھتا جس میں مجرد چند الفاظ کو لکھ کر کہیں دبا کر کسی کو مافوق الفطرت طریقے سے نفع یا نقصان پہنچایا جا سکے، اگر یہ طاقت دنیا میں جاری و ساری کرنی ھوتی تو اللہ پاک اپنے کلام سے یہ کام لیتا، جیسا کہ اس نے خود سورہ الرعد میں ارشاد فرمایا ھے" ولو انَۜ قرآناً سیرت بہ الجبالُ او قطعت بہ الارضَ او کلم بہ الموتی، بل للہ الامرُ جمیعاً (الرعد 31) اور اگر کوئی ایسا کلام ھوتا جس سے پہاڑ چلائے جا سکتے، یا زمین پھاڑی جا سکتی(یا فاصلے جھٹ پٹ طے کیئے جا سکتے) یا جس کے ذریعے مردے سے کلام کیا جا سکتا تو وہ یہی قرآن ھوتا، مگر اللہ نے یہ سارے کام اپنے ھاتھ میں رکھے ھیں۔
تو جب اللہ نے اپنے کلام میں یہ تاثیر نہیں رکھی بلکہ نبیوں سلام اللہ علیھم اجمعین سمیت تمام لوگوں کو اپنے در کا غلام اور سوالی رکھا ھے تو لبید ابن اعصم نام کے کافر یہودی کے کلام میں یہ تاثیر مان لینا کہ وہ تین میل دور ایک کنوئیں سے اللہ کے محبوب، نبیوں کے امام، صاحب معراج اور مقام محمود کے مکین ﷺ کے دل و دماغ کو کنٹرول کر رھا تھا، لبید کافر کو اللہ سے بالاتر اور اس کے کلام کو اللہ کے کلام سے زیادہ پر تاثیراور طاقتور ماننا ھے (معاذ اللہ،) (ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ، انک انت الوھاب)
اب دیکھئے اس سورت الفلق میں ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے، نہ کہ خود مخلوق سے، اور رات کے اندھیرے کے شر سے پناہ مانگی جب وہ چھا جائے، اب نہ تو رات بذات خود کوئی نقصان دہ چیز ھے بلکہ اللہ نے اسے اپنی نشانی گردانا ھے اور نہ اندھیرے میں کوئی نفع نقصان کی صلاحیت ھے، بلکہ اندھیرے میں حشرات الارض نکل آتے ھیں سانپ بچھو اور درندے وغیرہ جو انسان کے فطری دشمن ھیں ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے، نیز رات کی سیاھی کو پردے کے طور پر استعمال کرکے کچھ لوگوں کی سر گوشیوں یعنی منصوبہ بندیوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے، اب گرھوں میں پھونکیں مارنی والییوں کے شر سے پناہ مانگنا، نہ تو کسی گرہ میں کوئی شر یا خیر ھوتی ھے اور نہ ھی کسی پھونک میں کوئی خیر اور شر ھوتی ھے، اصل چیز جو خیر اور شر ھے وہ ان منصوبہ بندیوں اور سرگوشیوں کے مقصد میں ھے، نبی کریم ﷺ بھی رات کی تاریکی میں ھی دارِ ارقم میں ساتھیوں کے ساتھ ملا کرتے تھے، یہ خیر کی سرگوشیاں اور خیر کا اجتماع ھوتا تھا۔
اسی طرح حسد کرنے والے کے شر سے پناہ مانگی گئی ھے جب وہ حسد میٹیریلائز کرے حسد کو عمل میں لا کر کوئی وار کرے، اس وار سے پناہ مانگی گئی ھے، صرف حسد دل میں رکھنا کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود صاحبِ حسد کے لئے نقصان دہ ھے، ذرا " اذا حسد " کی اصطلاح کو غور سے پڑھیں، کیونکہ بنو امیہ میں ابوجہل اور ولید ابن مغیرہ مکمل طور پر حسد کی وجہ حضورﷺ کی رسالت کو نہیں مان رھے تھے کہ اس طرح بنو ھاشم کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی یہانتک کہ آخر کار نبی پاکﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے، آگے چل کے یہود مدینہ اسی بیماری کا شکار ھوئے کہ نبی کو اولاد کی طرح پہچانتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ھیں، مگر اس حسد میں مبتلا ھوگئے کہ بنو اسماعیل کی اجارہ داری قائم ھو جائے گی اور نبی ﷺ کو شہید کرنے پر آمادہ ھو گئے مگر دونوں گروہ اللہ کے وعدے کے مطابق آپ کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں میں ناکام ھو گئے پھر لبیداعصم کیسے کامیاب ھو گیا؟ سورہ فلق میں تو عقد میں پھونکیں مارنی والیاں ذکر ھیں مگر لبید بن اعصم تو مرد تھا؟
کیا جادو صرف عورتوں سے ھی ھوتا ھے، یہ جادو ھے یا بچہ جو صرف دائیاں پیدا کرتی ھیں؟ عربوں کی اصطلاحات کو قرآن حکیم نے استعمال فرمایا ھے، مثلاً حمالۃ الحطب، لکڑیاں اٹھائے پھرنے والی، یہ ابولہب کی بیوی کی ھجو ھے، کیونکہ یہ اصطلاح چغل خور کے لئے استعمال ھوتی تھی کہ اس کو آگ لگانے کے لئے کسی سے لکڑی مانگنے کی ضرورت نہیں ھوتی، اپنی لکڑیاں خود ساتھ اٹھائے پھرتا ھے، جہاں چاھتا ھے جب چاھتا ھے آگ لگا دیتا ھے، تو اس کو لکڑیاں اٹھانے والی کہا گیا یعنی چغل خور، اسی طرح عقدہ میں گرہ لگانے کی اصطلاح بھی استعمال ھوتی تھی جیسے ھمارے یہاں مکار عورت کے لئے آسمان ٹاکی لگانے کی اصطلاح استعمال ھوتی ھے، گرہ یا عقدہ اورعقیدہ تو وہ ھوتا ھے کہ جو غیر متحرک ھوتا ھے، ادھر ادھر نہیں ھوتا-
جس گرہ کو ڈھیلا رکھنا مقصود ھوتا تھا، عرب اس میں کوئی چیز پھنسا دیتے تھے، مثلاً کوئی چھوٹا سا ڈنڈہ ٹائپ چیز، ان جماعتوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ڈنڈے کی جگہ اپنی پھونکیں یعنی اپنے وسوسے استعمال کرتی ھیں عقائد کو ادھر اُدھر کرنے کے لئے، اور یہ بات ھر وہ شخص جانتا ھے جس نے اسلام کے ابتدائی دور میں نبیﷺ کا عکاظ کے میلے میں جانا اور ابولہب کا حضورﷺ کے پیچھے پیچھے رھنا جہاں آپ بات شروع کرتے ابو لہب کہتا کہ میں اس کا تایا ھوں، اس کا دماغ خراب ھو گیا ھے، اس کی بات کا برا نہ منانا اور ساتھ ھی کنکریوں کی مٹھی بھر کر آپ پر پھینکتا کہ محمد گھر چلو، اس پر نئے لوگ ٹھٹھک جاتے، تائے کا معزز حلیہ اور آپ ﷺکا خاموش ھو جانا، دیکھ کر وہ آگے چل دیتے، اسکی پلاننگ رات کو حرم میں ھی کی جاتی تھی کہ کل میلہ ھے اور کس نے کیا کردار کیسے ادا کرنا ھے، ابولہب کی تصدیق کے لئے کچھ لوگ بھی ساتھ ساتھ چلتے رھتے تھے
موسیؑ پر جادو کا پسِ منظر اور پیش منظر!
موسیؑ نے جب 10 سال کے بعد مدین سے واپسی کا سفر شروع کیا تو طور پہاڑ کی وادی طوی میں دھند کی وجہ سے رستہ بھول گئے، نہایت مشکل وقت تھا، بعض روایات کے مطابق آپ کی زوجہ کو دردِ زہ شروع ھوا، ادھر موسیؑ رستہ بھول گئے جبکہ ان کی زوجہ کو کسی تجربے کار دائی اور نیوٹریشن کی ضرورت تھی، موسیؑ نے طور کی جانب آگ کی لپٹ دیکھی اور سمجھا کہ کوئی بستی ھے، گھر والی سے کہا کہ تم ٹھہرو میں آگ بھی لے آتا ھوں کہ جلا کر سردی کا علاج اور کھانے پینے کا کوئی بندوبست کیا جائے، نیز وھاں سے رستہ بھی پوچھ لوں گا، ۔
یوں موسی آگ لینے نکلے تھے، نبوت و رسالت لے کر پلٹے راہ پوچھنے گئے تھے، راہ دکھانے والے بن کر پلٹے، فرعون کے پاس جب آئے اور اس کو اپنے معجزات دکھائے تو اس نے یوں سمجھا کہ گویا وہ دس سال جنگل میں کسی جادوگر کے پاس لگا کر آئے ھیں، اس نے کہا کہ موسی یہ بات تو مناسب نہیں، سیاست میں آنا ھے تو سیاسی لیڈروں کی طرح آؤ، یہ جادوگری اور سیاست کا آپس میں کیا تعلق ھے؟ اپنی قوم کو بھی بار بار سمجھایا کہ موسی کی تحریک کے پس پشت سیاسی وجوھات ھیں وہ تمہارے باپ دادا کا مثالی نظام لپیٹ کر اپنی اجارہ داری جمانا چاھتا ھے اور یوسف کے خاندان کو دوبارہ واپس حکومت میں لانا چاھتا ھے! اس نے موسیؑ سے کہا کہ ھمیں موقع دیا جائے کہ ھم بھی تیرے معجزات کی طرح معجزات دکھانے والے بندے لے آئیں تا کہ جادوگر کا مقابلہ جادگروں سے ھو کر پیغمبری والا کانٹا ایک دفعہ نکل جائے، پھر سیاسی طور پہ تمہارا بندوبست کرتے ھیں۔
فرعون نے جگہ اور دن موسیؑ پر چھوڑ دیا کہ تم ھمیں تاریخ دو کہ کب یہ مقابلہ ھونا چاھئے، موسیؑ نے عید کا دن (یوم الزینہ) اور چاشت کا وقت دے دیا، فرعون نے ھرکارے بھیج کر اعلانات کروائے اور پبلک کو جمع ھونے کے لئے حکم دے دیا۔
عید کے دن چاشت کے وقت اردگرد کی بستیوں سے عوام دارالخلافے میں جمع ھو گئے، جادوگر بھی آگئے اور موسیؑ بھی آگئے!
مقابلہ شروع ھوتا ھے!
جادوگروں نے آپس میں مشورہ کیا۔
(قالوا إن ھذان لساحران یریدان أن یخرجاكم من أرضكم بسحرھما ویذھبا بطریقتكم المثلى * فأجمعوا كیدكم ثم ائتوا صفا وقد أفلح الیوم من استعلى)
کہنے لگے یہ دونوں سوائے جادوگر ھونے کے اور(پیغمبر، وغیرہ) کچھ نہیں ھیں، یہ دونوں تم لوگوں کو تمہارے وطن سے نکال باھر کرنا چاھتے ھیں، اور تمہارے باپ دادا کے مثالی سسٹم کا خاتمہ چاھتے ھیں، سو آج اپنی چالیں جمع کر لو("کید " گویا جادو سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں ) اور پھر صف در صف آؤ اور آج جو غالب رھا وھی کامیاب ٹھہرے گا " ھم اپنا نظام بچانے میں یا موسی اپنا نظام لانے میں !
اس کے بعد انہوں نے موسیؑ کو پیش کش کی کہ وہ اگر چاھئیں تو پہلے اپنی چال چل لیں، یعنی جو دکھانا ھے وہ دکھا لیں بعد میں ھم دکھا لیں گے، مگر موسیؑ نے ان سے فرمایا کہ، القوا ما انتم ملقون- ڈالو جو تم نے ڈالنا ھے (یعنی تم نے جو سپ نکالنے ھیں نکال لو) پنجابی کا یہ جملہ اسی سے لیا گیا ھے- انہوں نے رسیاں اور ڈنڈے پھینکے اور نعرہ لگایا: بعزۃ فرعون انا لنحن الغالبون! فرعون کی طاقت سے ھم ھی غالب رھیں گے (بیوقوقی کی حد ھے کہ فرعون اپنی مدد کے لئے ان کو لایا ھے اور وہ اپنی مدد کے لئے جے فرعون کا نعرہ لگا رھے تھے) ان کی آواز اور نعروں کی لے نے وہ سماں باندھا کہ مجمع ھپناٹائز ھو گیا، اور وہ اپنا خیال مجمعے کے دماغوں کو فارورڈ کرنے میں کامیاب ھو گئے کہ رسیاں اور ڈنڈے بھی حرکت کرنا شروع ھو گئے ھیں !
موسیؑ پر جادو ھونا ضروری تھا!
اللہ پاک نے وہ خیال جو مجمعے کے ذھنوں کی اسکرین پہ چل رھا تھا، وہ موسی کو بھی دکھا دیا، اور دکھایا جانا بہت ضروری تھا، یہ جادو کی اس جنگ میں ٹرننگ پؤائنٹ تھا، اگر مجمع ان رسیوں کو دورٹا ھوا دیکھ رھا ھے اور موسی ان کو ساکت دیکھ رھے ھوں تو ظاھر ھے کہ موسی کہیں گے کہ ثابت ھو گیا کہ تمہاری رسیاں نہ سانپ بن سکیں اور نہ حرکت کر سکیں ! اور وہ مجمع جس کو وہ دوڑتی نظر آ رھی تھیں وہ موسیؑ کا منہ دیکھنا شروع ھو جاتا کہ " نبی اور جھوٹ "؟ مجمع موسیؑ کو جھوٹا سمجھتا موسی جتنا اصرار کرتے قسمیں کھاتے کہ رسیاں اور ڈنڈے حرکت نہیں کر رھے، اتنے بڑے جھوٹے اور ڈھیٹ ثابت ھوتے چلے جاتے، موسیؑ کی دعوت کا وہ آخری دن ھوتا، اور جدھر سے وہ گزرتے لوگ ان کا تمسخر اڑاتے پھرتے، اس لئے موسیؑ کو یہ دکھانا بہت ضروری تھا کہ مجمع کیا دیکھ رھا ھے تا کہ وہ جلدی میں کوئی اسٹیٹمنٹ نہ دے دیں !
جب موسیؑ نے اس خیال کو اپنے دماغ کی اسکریں پہ اوپن کرکے دیکھ لیا " تو اب انہیں خوف محسوس ھوا اور وہ بھی ایک جھونکے کی طرح، فاوجس فی نفسہ خیفۃً موسی'! خوف یہ تھا کہ بظاھر رسیاں بھی چل رھی ھیں، ڈنڈے بھی حرکت کر رھے ھیں، میرا عصا بھی حرکت کرے گا، تو حرکت تو مماثل ھو گئی، اب یہ پبلک فیصلہ کیسے کرے گی کہ معجزہ کیا ھے اور جادو کیا ھے؟ ان کی نظر میں، تو میں بھی جادوگر ثابت ھو گیا،؟ اللہ پاک نے فرمایا کہ تو بے خوف ھو جا، تجھے جتانا، پبلک پہ حق واضح کرنا ھمارے ذمے ھے، اس میدان سے جیت کر تو ھی نکلے گا اے موسی!
اب اللہ پاک نے موسیؑ کو حکم دیا کہ تیرے دائیں ھاتھ میں جو ھے اسے ڈال دے، واضح رھے اس عصا میں اللہ کے حکم کے بعد ھی فنکشنز ایکٹیویٹ ھوتے تھے، اور وہ (ملٹی پَل)مختلف ھوتے تھے، بعض دفعہ خود موسیؑ کے لئے بھی سرپرائز ھوتے تھے! ھمارے مفسرین تفسیر کیا کرتے ھیں کہ موسیؑ کا عصا وہ رسیاں اور ڈنڈے نگل گیا۔۔ یہ تو فرعون کی تمنا تھی کہ کاش ایسا ھو جائے، اگر موسیؑ کا عصا ان دوڑتی رسیوں اور ڈنڈوں کو نگل جاتا تو موسیؑ ان سے بڑے جادوگر تو ثابت ھو جاتے، مگر رسول اور نبی کبھی ثابت نہ ھوتے اور نہ ھی عصا معجزہ قرار پاتا، اور ثبوت بھی غائب ھو جاتا، قرآن بار بار کہتا کہ " تلقف ما صنعوا، وہ عصا اس چیز کو نگل گیا جو جادوگروں نے بنائی تھی، اور پھر وضاحت کرتا ھے کہ " انما صنعوا کید ساحر " درحقیقت انہوں نے جادو کا Trick کیا تھا، وہ عصا اس Trick کو کھا گیا اور وہ ڈنڈے سوٹے اور رسیاں ادھر بے حس و حرکت پڑی کی پڑی رہ گئیں، جن لوگوں کے سامنے سے موسیؑ کا عصا گزر رھا تھا، ان کی آنکھوں پر سے مسمریزم کے اثرات ڈی میگناٹائز ھوتے چلے جا رھے تھے، آخر میں وہ آنکھیں موسی کے عصا کو تو گوشت پوست کا دوڑتا ھوا سانپ دیکھ رھی تھیں جبکہ انہی آنکھوں کے سامنے وہ رسیاں بے جان پڑی تھی!
اس حقیقت کا سب سے پہلے ادراک خود جادوگروں کو ھوا جو ماھر فن تھے کہ یہ جادو نہیں بلکہ واقعتاً موسی کے عصا کی Kingdom تبدیل ھو گئی ھے وہ نباتات سے حیوانات میں تبدیل ھو گیا ھے اور یہ کام خدا کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، سب سے پہلے وھی ربِ موسی اور ھارون کے سامنے گویا کہ بےساختہ اس طرح گرے جیسے کوئی کسی کو دھکا دے کر گراتا ھے، اس کے بعد فرعون سے مکالموں میں وہ مسلسل اللہ کی ھی عظمت بیان کرتے جا رھے ھیں، موسی اور ھارون علیہما السلام کو تو وہ بھول ھی گئے ھیں اللہ کے ھی ترانے پڑھ رھے ھیں۔
اب بتایئے کہ موسیؑ اور اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ پر جادو میں کیا مماثلت ھے؟ وھاں تو مقابلہ ھو رھا تھا جادوگروں سے اور اللہ کا نبی جادوگروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا تھا، پوری قوم کھڑی تھی، رب کائنات قدم قدم اور لمحہ بلمحہ ھدایات دے رھا ھے! جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے کیس میں جو گزر رھا ھے وہ سب اکیلی جان پہ گزر رھا ھے، بیوی گلہ کرتی ھے تشریف نہیں لائے، فرماتے ھیں ھو کر گیا ھوں، کمرے مین چکر پر چکر لگاتے ھیں، " کان یدور و یدور ولا یدری ما بہ، چکر پہ چکر لگاتے مگر سمجھ نہ لگتی کیا ھے، مسکرانا بھول گئے اور گھلتے چلے گئے، ایک دن کی بات نہیں ایک سال، نبوت کا ایک سال، اس میں آنے والی وحی، نمازوں میں بھولنا، یہی وہ دور ھے جس میں آپ مسلسل نمازوں میں بھول رھے ھیں جو آپ بیس سال سے پڑھتے چلے آرھے تھے، تین پڑھ کر اٹھ کر حجرے میں چلے جاتے اور یاد کروانے پہ غصہ فرماتے کہ میں بھولا نہین ھوں، پھر ابوبکرؓ و عمرؓ کی تصدیق کے بعد مزید ایک رکعت پڑھائی، کبھی پانچویں کے لئے کھڑے ھو جاتے، جادو کی کہانی اور انہی راویوں کے ذریعے پھر نبی ﷺ کی زندگی کے یہ بھولنے والے واقعات؟ یہاں تو چار درھم کے بدلے کیا گیا جادو پوری نبوت پر غالب نظر آرھا ھے، موسیؑ کے واقعے اور اس میں مماثلت کیا ھے؟