ہر کتاب کا ایک موضوع ھوتا ھے، جو اس کتاب کے مضامین کا مرکزی نکتہ ھوتا ھے، قرآن کا موضوع انسان ھے، یہ انسانوں کے لئے نازل کی گئی ھے اور انسان ھی اس کے مخاطب ہیں، انسان کی دنیا اور آخرت کی فلاح اس کا مقصود ہے، اگر اس کی دعوت کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو اس کا محور انسان کا تزکیہ ہے، انسان کی فکر کا تزکیہ، اس کے اخلاق کا تزکیہ اور اس کی اشیائے خور ونوش کا تزکیہ، یہ انسان کے عقیدے کی پاکیزگی کو اپنا پہلا ہدف قرار دیتی ھے مکے میں تیرہ سال مجرد عقیدے اور فکر کی پاکیزگی کی محنت کی گئی۔
اللہ پاک قرآن کو آلہ تزکیہ قرار دیتا ھے کہ رسول اللہ اس کتاب کی تلاوت کے ذریعے تزکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت سکھاتے ہیں، یعنی بقول عمر فاروقؓ پہلے ماننا سکھاتے ہیں اور پھر احکامات اور ان کی حکمت سکھاتے ہیںِ
[ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعہ ـ2)
انسان بہت محدود عمر لے کر آیا ھے اور اللہ پاک انسان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگاتا بلکہ اس کے فوری مسائل کو خطاب کرتا ھے ـ نیز انسان کی ذھنی اور عمرانی حالت کو سامنے رکھ کر خطاب کرتا ھے، قرآن سواری کے لئے ائیربس اور بوئنگ طیاروں کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ اس کے مخاطب اس سے واقف نہیں بلکہ گھوڑے، خچر اور گدھے کو سواری کے جانور کہہ کر اپنا احسان جتاتا ھے مگر یہ نوید بھی سنا دیتا ھے کہ ابھی تو سواری کے لئے وہ کچھ بھی تخلیق ھونے والا ھے جو تم نہیں جانتے ـ
[ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ـ النحل 16]
قرآن فکر کو جب مہمیز دیتا ھے اور سوچنے کی دعوت دیتا ھے تو بدو کے اونٹ سے شروع کرتا ھے اور آسمانوں تک جاتا ھے کیونکہ اس وقت عبرت کی قریب ترین نشانی اونٹ ھی اس کے سامنے یا اس کے نیچے ھوتا ھے جس پر وہ سوار ھوتا ھے، فکر کا سفر اونٹ کی گردن سے شروع کرتا ہے، پیٹرول اور ڈیزل سے نہیں۔
[ (أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ {17} وَإِلَى السَّمَاء كَيْفَ رُفِعَتْ {18} وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ {19} وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ {20} فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ {21} لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ {22})(الغاشية)۔
اسی طرح وہ صدیوں بعد آنے والی عمرانی ارتقاء کو وقت کے سپرد کرکے انسان کے فوری معاملات کو ڈسکس کرتا ھے، وہ فکرکے تزکیئے کے لئے توحید کو موضوع بناتا ھے، اشیائے خور و نوش کی حرمت کی چند چیزوں کا ذکر کرکے باقی کو کھلا چھوڑ دیتا ھے بجائے اس کے کہ حلال کی سیکڑوں اشیاء کی فہرست قرآن میں شامل کرتا، حرام کردہ کی شارٹ لسٹ بیان کر دیتا ھے ـ
اخلاق کا تزکیہ کرتا ھے تو رشتوں کی حرمت بیان کرتا ھے، ازواج سے تعلقات کے ضابطے طے کرتا ھے اور پاکی و ناپاکی کو موضوع بناتا ھے، یہ وہ چیزیں ہیں جو شب و روز پیش آنے والی ہیں، ان کو چھوڑ کر صدیوں بعد کے معاملات کو وہ نہیں چھیڑتا اور ان کو معروف کہہ کر زمنی ارتقاء کے سپرد کردیتا ھے، جس قسم کے حالات ھونگے اپنے پاکیزہ کردار اور سوچ کے مطابق خود ان کے معروف یعنی زمانے کے رواج کے مطابق حل کر لینا، قرآن انسان کو مجرد روبوٹ یا مشین نہیں سمجھتا اور نہ مشین بناتا ھے بلکہ انسان پر اعتماد کرتا ہے، چند اصول اور ضوابط طے کرکے زمانے کی باگ ڈور انسان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے ـ
اس نے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی اس قدر تلقین کی کہ غلام و آزاد کا فرق تقریبا مٹا کر رکھ دیا، ھر قسم کی چھوٹی بڑئی خطا پر غلاموں کو آزاد کرنے کا رستہ کھولا اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے آزادی کو غلام کی آزادی سے جوڑ کر ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دی، تم خدا سے اسی سلوک کی توقع رکھو جو تم اپنے غلاموں سے کرتے ھو ایک ایسا اصول تھا کہ جس نے اس وقت کے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا، اسلام نے غلامی کو نہ تو فرض کیا اور نہ ہی اس کو حرام کیا، اس لئے کہ ساری دنیا کی اقوام اگر غلامی پر مجتمع تھیں تو مجرد اسلام کے حرام کر دینے سے کوئی فائدہ ھونے کی بجائے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا کہ دیگر اقوام تو مسلمانوں کو غلام بنا رہی ھوتیں جبکہ مسلمانوں کے ہاتھ باندھ دیئے جاتے، جب وقت آیا اور اقوام عالم نے غلامی کو حرام قرار دیا تو قرآن نے بالکل اس کی مزاحمت نہیں کی، نہ اس نے غلامی ایجاد کی تھی اور نہ اس کو فرض کیا تھا اور نہ وہ اس کا ذمہ دار تھا ـ
جن لوگوں کے نزدیک قرآن میں پاکی اور ناپاکی، شادی بیاہ اور خلع و طلاق کے مسائل کوئی اھمیت نہیں رکھتے ایسے لوگ اصلا انسان کی حقیقت سے آگاہ نہیں، انسان دو ٹانگوں پر چلنے والے جانور کا نام نہیں بلکہ اس کے اخلاقی وجود کا نام ھے اور اخلاقیات کی ابتدا ھی اس بات سے شروع ھوتی ھے کہ انسان کا مالک کون ھے اور انسان کا اپنے مالک سے کس قسم کا تعلق ھے اور جو چیزیں انسان کی ملکیت میں دی گئی ہیں ان پر انسان کے اختیارات کس حد تک ہیں، انسانوں کے آپس کے معاملات میں حلال و حرام تعلقات کی حدیں کیا ہیں، ازواج و اولاد کے حقوق کیا ہیں، یہ وہ فوری معاملات ہیں جو اس کتاب کا اصل موضوع ہیں، صدیوں بعد کے ارتقاء کی راہ میں اسلام نے کبھی بھی روڑے نہیں اٹکائے اور نہ ہی سائنسی تحقیق و تفتیش پر کوئی پابندی لگائی ہے ـ بلکہ یہ کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی ھے کہ زمین و آسمان کی ھر چیز تمہارے لئے مسخر کر دی گئی ھے گویا وہ منتظر ھے کہ تم اس تک رسائی حاصل کرو۔
قرآن کتب مبین ہے!
جی ہاں قرآن کتاب مبین ہے یعنی خود بھی واضح ھے اور اس کی روشنی میں دوسری چیزیں بھی واضح ھوتی ہیں، جس طرح روشنی خود بھی واضح ھوتی ھے اور دوسری چیزیں بھی اس کی موجودگی میں واضح ھوتی ہیں، اللہ پاک نے اپنے رسول ﷺ سے وعدہ فرمایا ھے کہ ثم ان علینا بیانہ، اس کتاب کے نزول کے بعد اس کی وضاحت اور تبیان بھی ھمارے ذمے ہے، اور اللہ پاک وہ یقینا اپنا ذمہ پورا فرمایا ھو گا کیونکہ اللہ پاک سے بڑھ کر اپنے قول میں کوئی سچا نہیں، و من اصدق من اللہ قیلا؟ یہ کتاب خود ھی مبین نہیں بلکہ تبیانا لکل شئی، ھدایت اور تزکیئے سے متعلق ھر چیز کا تبیان کرنے والی ھے۔
اگر اس کتاب کے تبیان اور وضاحت کا ذمہ اللہ پاک نے لیا ھے تو یہ غلام احمد پرویز اور اورنگ زیب یوسفزئی جیسے لوگوں کے ذمے ہے کہ وہ ثابت کریں کہ اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺ کو ان آیات کا وھی مفھوم سمجھایا تھا جو آج یہ بیان کر رھے ہیں؟ ان کے ذمے کچھ سوالات ہیں جن کا جواب دینا ان کا فرض ھے ـ
1- اللہ پاک نے سورہ القیامہ میں ذمہ لیا ھے کہ قرآن کا تبیان یعنی اس کے مطالب و مفاھیم کو رسول اللہ ﷺ پر کھولنا اللہ کے ذمے ہے (ثمہ ان علینا بیانہ)
کیا اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا یا نہیں؟ ظاھر ھے ان اللہ لا یخلف المیعاد، بےشک اللہ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔
اگر اللہ پاک نے رسول اللہ پر تبیان کر دیا تھا کہ النساء سے مراد کمزور طبقات ہیں اور حیض سے مراد جنگی خونریزی ہے اور والدات سے مراد محکمے ہیں تو جناب ثابت کریں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ باتیں کہاں پر فرمائی ہیں؟
اور اگر اللہ پاک نے تبیان کر دیا تھا اور کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان مفاھیم کو اس طرح بیان کیا ھو جیسے یوسف زئی اینڈ کمپنی آج بیان کر رھے ہیں تو گویا رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے بیان کردہ کو چھپا لیا؟ جبکہ اللہ پاک اپنے بیان کردہ کو چھپانے والوں پر لعنت کر رھا ھے۔۔
[ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَكْـتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْـهُـدٰى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِى الْكِتَابِ ۙ اُولٰٓئِكَ يَلْعَنُهُـمُ اللّـٰهُ وَيَلْعَنُهُـمُ اللَّاعِنُـوْنَ (159) بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں اس کو جو ھم نے نازل کیا بینات اور ھدایت میں سے اس کے بعد کہ ھم نے اس کا تبیان (واضح) کر دیا تھا، ایسے لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ھے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں !
2 - اگر اللہ نے یہ مفاھیم اس طرح اپنے رسول ﷺ پر نہیں کھولے تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی ھے معاذ اللہ، جو کہ ناممکن ھے!
اگر رسول ﷺ نے تبیان کے بعد چھپا لیا ھے تو معاذ اللہ ثم معاذاللہ لعنت کا مصداق بنتے ہیں، اور یہ سوچنا بھی کفر ھے!
اور اگر نہ اللہ نے یہ مفاھیم مراد لئے اور نہ رسول ﷺ کو یہ مفاھیم سمجھائے اور نہ رسول نے صحابہؓ کو یہ بتائے تو اللہ کی لعنت ان پر جو اللہ پر بھی جھوٹ بول رھے ہیں اور رسول ﷺ پر بھی جھوٹ بول رھے ہیں اور کتاب اللہ کی معنوی تحریف کر رھے ہیں ! اور دیدہ دلیری یہ کہ ھم سے دلیل مانگ رھے ہیں جو اللہ کا تبیان کردہ اور محمدﷺ کا بیان کردہ اور صحابہؓ کا عمل کردہ پیش کر رھے ہیں۔
کتاب نازل ھو محمد رسول اللہ ﷺ پر اور سمجھ آئے غلام احمد پرویز اور اورنگ زیب یوسفزئی کو۔ اور چودہ صدیوں کے انسان اس کتاب کو سمجھے بغیر چلے جائیں؟
ایں خیال است و محال است و جنوں !
لغت میں ایک لفظ کے پچاس مطلب ھوتے ہیں مگر جس مطلب و مفھوم کو رسول اللہ ﷺ اخذ کر لیتے ہیں باقی کے سب کے سب اسی طرح نسیا منسیا ھو جاتے ہیں جس طرح ایک سپرم جب بچے کے لئے منتخب کر لیا جاتا ھے تو باقی اربوں کے حساب سے نسیا منسیا ھو جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل کے ساتھ لغت لغت نہیں کھیلا جا سکتا، یہ بات قرآن کے اس حکم تبیان سے ثابت ھے کہ قریش جن کی زبان میں یہ قرآن نازل ھو رھا تھا وہ بھی اللہ کی طرف سے تبیان کے محتاج تھے کہ وہ اپنے رسول ﷺ کے ذریعے مفھوم و مطلب کو واضح فرمائے، پھر یہ مفاھیم یوسفزئی صاحب پر کیسے خود بخود کھُل گئے ہیں؟ کیا کسی فرشتے کے ذریعے نازل کئے گئے ہیں؟ اللہ پاک اپنی کتاب کے تبیان کا وعدہ پندرہویں صدی میں یوسفزئی کے ذریعے پورا فرمانے لگا ھے؟ جو لوگ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں وہ اگرچہ منہ سے نہ کہیں مگر یوسفزئی کو نبی کا درجہ دے رھے ہیں اور اگرچہ یوسفزئی منہ سے دعوی نہ کرے مگر فی الواقع وہ دعوئی نبوت کر رھا ھے!