کچھ لوگ سند سند کھیلتے ہیں حالانکہ سند سونے کی بھی ھو تو روایت جھوٹی ھو سکتی ھے، سند اور متن کی جنس اور تقاضے ھی الگ ہیں جس طرح رسی اور بھینس ھے، رسی سونے کی بھی ھو اور میں رسید اور دکاندار کی گواھی سے ثابت بھی کر دوں کہ رسی میری ھے تو بھی اس ثبوت سے بھینس کی ملکیت ثابت نہیں ھوتی، رسی کی ملکیت ثابت ھوتی ھے لہذا رسی میری اور بھینس چوری کی بھی ھو سکتی ھے، روایت افک میں سونے کی زنجیر سلسلۃ الذھب تھے تین صحابیؓ یعنی حسان بن ثابتؓ الانصاری جو شاعرِ رسول تھے جن کی پشت پر روح القدس ھوتے تھے جب وہ شاعری کرتے تھے، بدری صحابیؓ تھے جناب مسطحؓ اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن اور بنو ھاشم کی عزت و عصمت رسول اللہ کی خواہرِ نسبتی حضرت حمنہ بنت جحشؓ، مگر اس قوی سند کے باوجود روایت جھوٹی تھی اور ان راویوں کے مناقب دیکھ کر ان کی بات کو قبول نہیں کر لیا گیا اور نہ کسی نے وہ مناقب بیان کرکے اس روایت کو امت کے حلق سے اتارنے کی کوشش کی، تینوں کو 80,80 کوڑے مارے گئے۔
سورہ الحجرات کا وہ فاسق ایک صحابیؓ ھی تھے جو رسول اللہ ﷺ کے منہ در منہ جھوٹ بول کر ان کو اپنے مخالف قبیلے پر چڑھا لے جانے پر آمادہ کررھے تھے، جید صحابہؓ ان کی بات پر رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دے رھے تھے کہ اس قبیلے کو تہہ تیغ کر دیا جائے، جبکہ کچھ دوسرے تحقیق حال کا مشورہ دے رھے تھے، قتل کا مشورہ دینے والے قوی تھے لہذا ان کے اصرار پر ایک ہلکا پھلکا دستہ بھیجا گیا جس کو رسول اللہ ﷺ نے سختی کے ساتھ تاکید فرمائی کہ اقدام سے پہلے تحقیق کر لینا، اللہ پاک نے صحابہؓ کو اس قسم کے مشورے دینے سے سختی کے ساتھ منع کیا اور فرمایا کہ واعلموا ان فیکم رسول اللہ ﷺ یہ بات تمہیں سمجھ کیوں نہیں لگتی کہ تمہارے اندر وہ ہستی ھے جس کا اللہ کے ساتھ رابطہ ھے، اگر یہ تمہاری بات ماننے لگ جائیں تو کل کلاں تم ہی مشقت میں پڑ جاؤ گے، مگر پہلے فرمایا کہ اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تم تک کوئی خبر لائے تو اس کی چھان بین کر لیا کرو، گویا ھر خبر لانے والے کو مشکوک سمجھ کر تحقیق کیا کرو، تبھی تو فاسق و صالح کا فرق معلوم ھو گا، فاسق کے ماتھے پہ کوئی نمبر پلیٹ تو نہیں ھوتی اور نہ صالح کی سرکاری رنگ کی نمبر پلیٹ ھوتی ھے، ان کی بیان کردوہ بات ھی ان کی صلاح و فسوق کا فیصلہ کرے گی۔
اسی قسم کا واقعہ سورہ الممتحنہ کے نزول کا سبب بنا جس میں بدری صحابی ملوث تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سختی کے ساتھ منع کرنے اور مدینے کے گرد کرفیو کے نفاذ کے باوجود مکے والوں کو خط لکھ دیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ تم پر یلغار کرنے لگے ہیں، حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوموسی الاشعریؓ جیسے جید صحابیؓ سے روایت میں دوسرا گواہ طلب کیا اور جمع قرآن کے لئے دو صحابہؓ کی گواھی لازم قرار دی گئ، یہ شرعی احتیاط کا وھی حکم ھے جو اللہ پاک نے تحقیق کے لئے دیا تھا، نبئی کریم ﷺ کے بارے میں الصحابہ کلھم عدول کا اصول بنانے والوں کو کیا شک تھا کہ صحابہؓ قال رسول اللہ ﷺ میں تو صادق ہیں مگر قال اللہ میں کاذب ھو سکتے ہیں؟ لہذا دو صحابہؓ لازم قرار دیئے گئے؟ معاذ اللہ ایسا سوچنا بھی درست نہیں مگر شریعت تو شریعت ھے وہ شک کا کوئی پہلو باقی نہیں رھنے دیتی، چنانچہ شہادت کا نصاب زنا کے لئے ھو، چوری کے لئے ھو یا موت کے وقت وصیت کے بارے میں ھو قرآن نے صحابی و غیر صحابی سب کے لئے ایک ھی رکھا ھے یعنی زنا کی تہمت کے لئے چار اور وصیت کے لئے دو، ایسا نہیں کیا کہ صحابی تو چار ھوں اور باقی امتی 8 ھونگے تب گواھی قبول ھو گی، صحابی درست روایت بھی کریں تب بھی منافق تو اس میں ملاوٹ کر سکتے تھے، روایت کی چھان پھٹک کرکے منافق کا نفاق بھی واضح ھو جاتا اور روایت کا سچ اور جھوٹ بھی سامنے آ جاتا، آخر اللہ پاک کے اس حکم کو کہ۔
[ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (6) ﴾۔ (سورة الحجرات) ]
اس حکم کو کس نے معطل کرنے کی جسارت کی؟ خلفائے راشدین تو اس پر عمل پیرا تھے؟ محدثین نے زیادہ سے زیادہ مواد حاصل کرنے کے لئے چھلنی کو ڈھیلا کیا یوں منافقین کو وار کرنے کا موقع مل گیا ـ اصول حدیث میں ھی قرآن کو کوئی Right Of Say نہیں دیا گیا روایت میں کس نے دینا تھا؟ بلکہ یوں لگتا ھے جیسے قرآن کو سامنے رکھ کر اس کے مخالف روایات بنائی گئیں اور اس امت مرحومہ نے ان کو بھی ہضم کر لیاـ