یہ چند تصویریں ہمارے ملک میں مختلف طبقات کے کردار کا احاطہ کیئے ہوئے ہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اس ملک کے قانون اور آئین کا احترام کون کرتا ہے اور کون نہیں؟۔ ان پہ ہونے والے تبصروں کو اگر آپ پڑھیں تو من حیث القوم ہمارا کردار واضح ہوتا ہے۔ وہ تبصرے اور اخذ شدہ نتیجے یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ ہمارے نصاب کا ہمارے ذہنوں پہ کتنا گہرا اثر ہے۔ اور ہم اپنی سوچ کو کس طرح محدود کئے ہوئے ہیں۔
ان تصویروں کو ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ تصویریں پچھلے بیس سال میں تین سب سے مضبوط یا مضبوط سمجھے جانے والے تین حکمرانوں کی عدالت کے حکم پہ گرفتاری پہ عملدرآمد کے مناظر دکھا رہی ہیں۔ تازہ ترین منظر سابق صدر آصف زرداری کی آج کے دن نیب کی عدالت کی طرف سے ضمانت کینسل ہونے کے بعد گرفتاری کا منظر ہے۔ آصف علی زرداری جو بے نظیر بھٹو کے زمانے سے ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے۔ اور سیاسی کیریر سے پہلے ہی کرپشن کے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک سے زیادہ دفعہ عدالت سے بری ہو چکے ہیں۔ اور اب ایک دفعہ پھر کرپشن کے بہت سنگین الزامات میں گرفتار ہوئے ہیں۔ ان کے اس کیس کا فیصلہ کیا آتا ہے اس سے قطعہ نظر نہایت اطمینان کے ساتھ جیل کی طرف جارہے ہیں۔ دوسری تصویر میں بیٹی سے گلے مل رہے ہیں اور بیک گراونڈ میں بیٹے کی مسکراہٹ کسی پریشانی کو ظاہر نہیں کر رہی۔ کیا یہ اطمینان اس بات کا ہے کہ عدالت یا انصاف ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یا اعتماد ہے کہ "انصاف" چاہے جو بھی دے رہا ہو آخر میں فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق ہو گا۔ وجہ جو بھی ہو اس ملک کے قانون پہ اعتماد کا کریڈٹ زرداری صاحب کو جاتا ہے۔
ایک تصویر میاں نواز شریف صاحب کی ہے۔ یہ ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اور اس سے پہلے 1999 میں پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دوران گرفتار بھی ہو چکے ہیں اور موت کی سزا بھی پاچکے ہیں۔ جس کے بعد 8 سال جلاوطنی گزار کے واپس آئے، عدالت سے بری ہوئے اور پھر 2013 میں تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے۔ وہ پانامہ کیس میں ثاقب نثار کورٹس کے خوردبینی فیصلے کا شکار ہو کہ نااہل قرار دئیے گئے۔ جس کے بعد ان پہ کرپشن کے مختلف کیس کھولے گئے اور انہی میں سے ایک میں ان کو سزا دے دی گئی۔ سزا کے وقت ہو لندن میں مقیم تھے اور چاہتے تو ایک دفعہ پھر جلاوطنی کاٹ سکتے تھے لیکن انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تصویر ان کی لندن واپسی کے موقعے پہ لی گئی۔ ان کی اتری ہوئی صورت کی وجہ ان کو گرفتاری کا خوف بھی ہو سکتا ہے لیکن اپنی شریک حیات کے بستر مرگ پہ ہونا بھی ایک مضبوط وجہ ہے۔ یہ لندن سے واپس یہ جاننے کے باوجود آ رہے تھے کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ ان کو ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ اور ابھی بھی جیل میں اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں
ان دونوں سیاستدانوں، کے ساتھ اور بہت سے سیاستدانوں میں ایک چیر مشترک رہی کہ انہوں نے عدالتوں کا سامنا کیا، سزائیں کاٹیں۔ اور یہ سلسلہ ایوب خان کے دور سے جاری ہے جب سیاستدانوں کے خلاف پہلا کریک ڈاون ہوا۔ یہ سلسلہ فوجی آمروں کے دور کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے دور حکومت میں بھی جاری رہا لیکن قابل ستائش بات ان سیاستدانوں کا عدالتوں پہ اعتماد ہے، جو بعض دفعہ اتنی جانبدار ہوتی ہیں کہ مذاق بن جاتی ہیں۔
تیسری تصویر آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی غداری کیس میں عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے کے موقعے کی ہے۔ پرویز مشرف جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بطور کمانڈو فرائض سرانجام دیتے رہے اور بطور آرمی چیف پاکستان کے سی ای اور منتخب صدر رہے۔ ان پہ آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چل رہا تھا۔ ضمانت منسوخ ہونے کے بعد پرویز مشرف رینجرز کے جوانوں کی آڑ لیتے ہوئے عدالت سے فرار ہوگئے اور اپنے فارم ہاوس پہ پناہ لی۔ اس فارم ہاوس میں رینجرز کی طرف سے پولیس کو داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔ وہاں سے پرویز مشرف دل کے ہسپتال منتقل ہوگئے اور چند دن بعد کمر کے درد کے علاج کے لئے بیرون ملک روانہ ہو گئے اور آج تک واپس نہیں آئے۔ پرویز مشرف کی شہرت ایک مضبوط اور بہادر انسان کی تھی۔ لیکن انہوں نے عدالت کا سامنا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اگر وہ عدالت کا سامنا کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرتے تو ان کی بہادری شبے سے بالاتر ہو جاتی مگر انا کی جیت ہوئی اور عدالت، انصاف اور قانون ان کو اپنی شان سے کمتر محسوس ہوئے۔
ان تین تصویروں کے دکھانے کا مقصد یہ نہیں کہ سیاستدان قانون کا احترام زیادہ کرتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو اس سے بالاتر چیز نہیں سمجھتے۔ اگر وہ احترام کرتے ہیں تو ان کو کرنا چاہیے۔ اس ملک میں رہنے والے ہر شخص کوکرنا چاہیے۔ یہ ان کا احسان نہیں ان کا فرض ہے۔ اب سوال اس تاثر پہ ہے جو میڈیا میں قائم کیا جا چکا ہے اور جس کا سوشل میڈیا پہ انتہائی کثرت سے پرچار ہو رہا ہے کہ سیاستدان کی نظر میں ملک کے قانون اور آئیں کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ اسے اپنے گھر کی باندی سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو اس سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ یہ تصویریں اس کی نفی کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ ان میں سے آپ کو آئین کے تابع کون نظر آرہا ہے اور اس سے بالاتر ہونے کی سوچ کس میں ہے؟